دنیا

جاپان کے سابق وزیراعظم شنزو آبے کی آخری رسومات، غیر ملکی سربراہان کی شرکت

سابق وزیراعظم شنزو آبے کے اعزاز میں گارڈ آف آنر کے طور پر 19 توپوں کی سلامی دی گئی، پھول چڑھائے گئے.

جاپان کے مقتول سابق وزیراعظم شنزو آبے کی آخری رسومات میں ملکی تاریخ کے 55 برسوں میں پہلی مرتبہ مکمل سرکاری اعزاز کے ساتھ 19 توپوں کی سلامی دی گئی۔

غیرملکی خبرایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق شنزو آبے کی راکھ ان کی بیوہ کےحوالے کیا گیا، جس کے بعد راکھ(باقیات) ٹوکیو کے بڈوکان پنڈال میں رکھا گیا، جہاں سابق وزیراعظم کے اعزاز میں انہیں 19 توپوں کی سلامی دی گئی۔

سفید وردی میں ملبوس مسلح دستے قطار میں دارلحکومت ٹوکیو میں شنزہ آبے کی بیوہ کے گھر کے باہر کھڑے تھے اور ایک فوجی کے پاس مقتول کی باقیات بھی موجود تھیں۔

سابق وزیراعظم کی باقیات جب بڈوکان پنڈال لائی گئی تو ہزاروں جاپانی شہری پھول چڑھانے اور دعا کے لیے قطار بنائے انتظار کر رہے تھے۔

قطار میں موجود 71 سالہ تورو ساتو نے غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’میں نے شنزو آبے کو صرف ٹی وی پر ہی دیکھا تھا، انہوں نے ملک کی بہت محنت کی، ان کی موت میرے لیے بہت دردناک تھی، مجھے اس بات کا بہت افسوس ہے‘۔

ٹوکیو کی شہری 63 سالہ گھریلو خاتون یوشیکو کوجیما نے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’میں جانتی ہوں کہ اس تقریب میں کئی لوگ اختلاف رائے رکھتے ہیں اور بہت سے لوگ ان کے خلاف بھی ہیں لیکن اس کے باوجود کئی لوگ یہاں پھول چڑھانے کے لیے قطار میں کھڑے ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے محسوس کیا کہ سرکاری طور پر کسی سربراہ کی آخری رسومات میں نے درحقیقت اب دیکھی ہیں، بہت سے لوگ شنزو آبے کے لیے دعا کررہے ہیں‘۔

اسی طرح 46 سالہ کوجی تاکاموری اپنے 9 سالہ بیٹے کے ساتھ شمالی ہوکائیڈو سے آئے تھے، انہوں نے کہا کہ ’شنزو آبے نے جاپان کے لیے بہت کام کیا ہے میں ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ان کی موت ہم سب کے لیے چونکا دینے والی خبر تھی، سچ پوچھیں تو میں اس لیے آیا ہوں کہ شنزو کی آخری رسومات پر بہت زیادہ مخالفت کی گئی اور میں ان لوگوں کی مخالفت کرنے کے لیے یہاں آیا ہوں جو شنزو آبے کی آخری رسومات پر اختلاف کر رہے ہیں‘۔

خیال رہے کہ شنزو آبے کی آخری رسومات کے خلاف مخالفین نے مظاہرے کیے تھے، اگرچہ مخالفین کی تعداد بھی کم تھی لیکن انہوں نے بڈوکان پنڈال کے قریب مارچ بھی کیا تھا۔

شنزو آبے نے جاپان کے طویل عرصے تک وزیراعظم رہنے کا ریکارڈ بنایا تھا اور ملک کے سب سے زیادہ مشہور سیاسی شخصیات میں سے ایک تھے، انہیں بین الاقوامی اتحاد اور اقتصادی اصلاحات اور اسکینڈلز کا مقابلہ کرتے ہوئے اہم سفارتی تعلقات قائم کرنے کا چمپئن سمجھا جاتا تھا۔

67 سالہ سابق وزیر اعظم نے 2020 میں صحت کی خرابی کے سبب عہدہ چھوڑ دیا تھا اور انہیں 8 جولائی کو انتخابی مہم کے دوران گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔

اس حملے کے بعد کئی لوگوں کو صدمہ پہنچا جبکہ کئی بین الاقوامی سربراہان کی جانب سے مذمت کے پیغامات بھی بھیجے گئے۔

واضح رہے کہ جاپان میں جرائم کی شرح انتہائی کم ہے۔

شنزو آبے کو جنگ عظیم کے بعد جاپان کے کم عمر ترین وزیر اعظم بننے کا اعزاز حاصل تھا، ان کی سرکاری اعزاز کے ساتھ تدفین کے فیصلے پر مخالفین مشتعل ہوگئے تھے اور حالیہ انتخابات کے دوران تقریباً 60 فیصد جاپانی شہریوں نے اس تقریب کے خلاف احتجاج کیا تھا۔

ریاستی تدفین پر عدم اطمینان

رپورٹس کے مطابق شنزو آبے کے مشتبہ قاتل نے سابق وزیر اعظم کو اس لیے نشانہ بنایا تھا کیونکہ اس کا خیال تھا کہ شنزو یونیفکیشن چرچ سے منسلک ہیں جبکہ ان کی والدہ نے چرچ کے لیے عطیات دیے تھے جس کے بعد شنزو آبے نے ناراضی کا اظہار کیا تھا۔

سابق وزیراعظم کے قتل کے بعد چرچ اور فنڈریزنگ کی جانچ پڑتال کی گئی اور جاپان کی سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کڑوے سوالات جنم لینا شروع ہوئے تو حکمراں جماعت نے اعتراف کیا کہ اس کے نصف قانون سازوں کے مذہبی تنظیم کے ساتھ رابطے تھے۔

جاپان کے وزیر اعظم فومیو کشیدا نے وعدہ کیا ہے کہ ان کی پارٹی چرچ کے ساتھ تمام تعلقات میں محتاط ہوگی لیکن اس اسکینڈل کی وجہ سے شنزو آبے کی سرکاری سطح پر آخری رسومات پر اختلاف سامنے آگیا۔

سینٹر فار امریکن پروگریس کے سینئر ساتھی اور سابق وزیر اعظم کی سوانح کے مصنف ٹوبیاس ہیرس نے کہا کہ ’یونیفیکیشن چرچ کے بارے میں حالیہ انکشافات کے باوجود کسی بھی ایسے حالات کا تصور کرنا مشکل ہوگا جہاں جاپانی شہریوں کی اکثریت شنزو آبے کو سرکاری اعزاز کے ساتھ آخری رسومات کی ادائیگی کی حمایت کرے گی۔

ان کاکہنا تھا کہ ’شنزو آبے ایسے شخص تھے، جنہوں نے تقریباً ہر تنازع کا خیرمقدم کیا اور جاپان پر حکومت کرنے کے حوالے سے اپنے مشن کو ایک دیرینہ اتفاق رائے کے ساتھ ختم ہوتے دیکھا۔

ٹوبیاس ہیرس نے کہا کہ بہت سے جاپانی شہری جنگ کے بعد کی حکومت کے ساتھ منسلک ہونے کے باوجود حکومت کے حامی نہیں تھے۔

ہزاروں افراد نے اس کے خلاف احتجاج کیا اور گزشتہ ہفتے جاپان کے وزیر اعظم کے دفتر کے قریب ایک شخص نے آنجہانی سابق وزیر اعظم شنزو آبے کی سرکاری اعزاز کے ساتھ تدفین کی مخالفت کا اظہار کرتے ہوئے احتجاجاً خود کو آگ لگا لی تھی۔

اپوزیشن جماعتوں کے چند قانون ساز بھی آخری رسومات کا بائیکاٹ کر رہے ہیں، اس تنازع کی مختلف وجوہات ہیں، جن میں سے کچھ نے وزیراعظم فومیو کِشیدا پر پارلیمان سے مشورہ کرنے کے بجائے یک طرفہ طور پر اس کی منظوری کا الزام لگایا جبکہ دوسری جانب شنزو آبے کی آخری رسومات کی تقریب پر ایک کروڑ 20 لاکھ ڈالر سے زائد رقم خرچ ہونے پر عوام نے ناراضی کا اظہار کیا۔

شنزوآبے کے منقسم دور کی نشانی بھی ہے، جس کو اقرباپروری کے مسلسل الزامات، اس کی قوم پرستی کی مخالفت اور مثبت آئین میں اصلاحات کے منصوبوں کا سامنا تھا۔

وزیراعظم فومیو کشیدا کی حکومت پرامید ہے کہ تقریب کی حساسیت کے پیش نظر یہ تنازع ختم ہوجائے گا، تقریب میں 700 غیر ملکی شخصیات سمیت 4 ہزار 300 افراد نے شرکت کی۔

امریکی نائب صدر کملا ہیرس اور عالمی رہنماؤں بشمول بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور آسٹریلوی وزیر اعظم انتھونی البانیز نے شرکت کی۔

رپورٹ کے مطابق شنزو آبے نے امریکا-جاپان اتحاد کو تقویت دینے کے لیے امریکا کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرنے کی بھی کوشش کی تھی اور جاپان، امریکا، بھارت اور آسٹریلیا کے ساتھ ایک مضبوط گروپ ’کواڈ‘ بھی تشکیل دیا تھا۔

جاپان کے شہنشاہ اور ملکہ غیر جانب دار قومی شخصیات کی حیثیت سے سابق وزیراعظم شنزوآبے کی آخری رسومات میں شرکت نہیں کر رہے ہیں، لیکن توقع ہے کہ ولی عہد شہزادہ اکیشینو اور ان کی اہلیہ تقریب کے اختتامی 90 منٹ میں شنزو آبے کی قبر پر پھول چڑھائیں گے اور سوگواروں سے ملاقات بھی کریں گے۔

امریکی وزیر خارجہ کا پاکستان پر چین سے قرضوں میں ریلیف لینے کیلئے زور

کینیڈا کا کورونا سے متعلق پابندیاں ختم کرنے کا اعلان

نواز شریف کے سیکریٹری راشد نصر اللہ پر لندن میں حملہ