پاکستان

مقبوضہ کشمیر: سیاسی ردِ عمل کے بعد بھارتی حکومت نے ووٹ کا متنازع قانون ختم کردیا

مقبوضہ خطے میں دوسرے دن واپس لیا گیا قانون 20 اضلاع میں سے ایک ضلعے میں متعارف کیا گیا تھا، رپورٹ

مقبوضہ جموں اور کشمیر میں نئے شہریوں کو ووٹ کا حق دینے کے لیے بنایا گیا قانون سیاسی جماعتوں کے سخت ردِ عمل کے بعد بھارتی حکومت نے دوسرے دن ختم کردیا، جس کو مسلم اکثریتی خطے کی ڈیموگرافی تبدیل کرنے کی کوشش قرار دیا گیا تھا۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق واپس لیا گیا قانون دو دن خطے کے 20 اضلاع میں سے ایک میں متعارف کروایا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: بھارتی وزیر اعظم کا مقبوضہ جموں و کشمیر کا دورہ، آزاد کشمیر میں 'یوم سیاہ' پر مظاہرے

رپورٹ کے مطابق اس قانون سے ان بھارتیوں کو بطور ووٹر رجسٹر کرنے کی اجازت دی گئی تھی جو مقبوضہ کشمیر میں ایک سال یا اس سے زیادہ عرصے سے مقیم ہیں، جس کی وجہ وہ اصول ختم ہوگیا تھا جس کے تحت حق رائے دہی صرف ان لوگوں تک محدود تھا جو مقبوضہ خطے میں 1947 سے مقیم ہیں۔

واضح رہے کہ بھارتی حکومت نے 2019 میں مقبوضہ جموں اور کشمیر کی بچی کچی خودمختاری ختم کرکے دونوں ریاستوں کو وفاق کے زیر انتظام خطے تسلیم کرتے ہوئے غیر کشمیریوں کو ووٹ اور وہاں زمین خرید کرنے کا حق دینے کے لیے آئین میں تبدیلی کی تھی۔

مقبوضہ کشمیر کے علاقے جموں کے الیکٹورل افسر اونی لواسا نے قانون واپس لینے کا کوئی سبب بتائے بغیر کہا کہ 11 اکتوبر کو لیا گیا اقدام واپس ہوگیا ہے اور اس کو کالعدم تسلیم کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 5 اگست 2019 سے 5 فروری 2020 تک مقبوضہ کشمیر کی آپ بیتی

مقبوضہ جموں اور کشمیر میں خودمختاری سلب ہونے سے چند ماہ قبل 2019 میں آخری بار انتخابات ہوئے تھے۔

'نئے ووٹرز'

رواں برس اگست میں حکومت نے مقبوضہ جموں اور کشمیر کی فہرستوں میں 25 لاکھ ووٹرز شامل کرنے کا امکان ظاہر کیا تھا، جس سے ووٹرز کی تعداد اس وقت کے 76 لاکھ سے ایک تہائی سے زیادہ ہو جائے گی۔

دوسری جانب کشمریوں کو خدشہ ہے کہ قانون میں ایسی تبدیلی جس سے نئے ووٹرز کا اندراج ہو وہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور اس کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو برسوں پرانی آزادی کی تحریک کو کچلنے کے لیے خطے کی صورت حال میں تبدیلی کی اجازت ہوگی۔

مزید پڑھیں: بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی، صدارتی فرمان جاری

ادھر، بی جے پی کا کہنا ہے کہ اس کی پالیسیوں کا مقصد مقامی کشمیریوں کو فائدہ دینا ہے مگر خطے کی دیگر سیاسی جماعتیں اس عمل کو اسی نظر نے نہیں دیکھتیں۔

سابق وزیر اعلیٰ اور جموں اور کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے گزشتہ روز ٹوئٹر پر لکھا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے درمیان مذہبی اور علاقائی تقسیم پیدا کرنے کی بی جے پی کی کوششوں ناکام بنادینی چاہیے۔

رپورٹ کے مطابق حکام مقبوضہ جموں و کشمیر کے تمام 20 انتخابی اضلاع میں ووٹر فہرستوں پر نظر ثانی کر رہے ہیں۔

اس سے قبل بھارت کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ نظرثانی شدہ فہرستوں کی اشاعت کے بعد ہی انتخابات کرائے جائیں گے۔

ہر 20 میں سے ایک شخص لانگ کووڈ کا شکار

انتظار ختم، ’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ ریلیز

حکومت کرنے والی درجن بھر جماعتیں ووٹ اور نمائندگی سے منہ کیوں موڑ رہی ہیں؟