نقطہ نظر

ٹی20 ورلڈکپ 2022ء: سیمی فائنل کے لیے کن ٹیموں کا پلہ بھاری ہوگا؟

اگر دونوں گروپس کا سرسری سا موازنہ کیا جائے تو گروپ 1 میں سیمی فائنل پوزیشن کے لیے گھمسان کے معرکوں کا امکان زیادہ ہے۔

کھیلوں کا کوئی بھی عالمی مقابلہ شروع ہونے والا ہو تو شائقین اور ماہرین اس حوالے سے بحث شروع کردیتے ہیں کہ کون جیت سکتا ہے، کون سیمی فائنل تک پہنچ سکتا ہے اور کون سی ٹیم یا کھلاڑی پہلے ہی راؤنڈ میں باہر ہوجائیں گے۔

یہ پرانی روایت چلی آ رہی ہے تو کیوں نہ اس روایت پر چلتے ہوئے ہم بھی ذرا اندازہ لگانے کی کوشش کریں کہ ٹی20 ورلڈکپ 2022ء میں وہ کون سی 4 ٹیمیں ہوسکتی ہیں جو سیمی فائنل کھیلیں گی۔

ٹی20 ورلڈکپ کے سپر 12 میں 6، 6 ٹیموں کے 2 گروپ بنائے گئے ہیں۔ گروپ 1 میں موجودہ ٹی20 چیمپیئن آسٹریلیا، موجودہ ون ڈے چیمپیئن انگلینڈ، نیوزی لینڈ اور افغانستان کی ٹیمیں شامل ہیں جبکہ کوالیفائنگ راؤنڈ مکمل ہونے کے بعد معلوم ہوگا کہ اس گروپ میں بقیہ 2 ٹیمیں کون ہوں گی۔

اسی طرح گروپ 2 میں پاکستان اور بھارت کے ساتھ جنوبی افریقہ اور بنگلہ دیش شامل ہیں جبکہ کوالیفائنگ راؤنڈ مکمل ہونے کے بعد اس گروپ میں بھی 2 مزید ٹیموں کا اضافہ ہوگا۔

اگر دونوں گروپس کا سرسری سا موازنہ کیا جائے تو گروپ 1 میں سیمی فائنل پوزیشن کے لیے گھمسان کے معرکوں کا امکان زیادہ ہے۔ آسٹریلیا، انگلینڈ، نیوزی لینڈ اور سری لنکا کی ٹیمیں (گروپ اے ٹاپ کرنے کی صورت میں) سیمی فائنل پوزیشن کے لیے لڑ رہی ہوں گی تو افغانستان کی ٹیم ان میں سے کسی کو بھی اپ سیٹ کرتے ہوئے سیمی فائنل پوزیشن کی دوڑ سے باہر کرسکتی ہے۔


آسٹریلیا


سب سے پہلے بات کرتے ہیں میزبان آسٹریلیا کی۔ آسٹریلیا کی ٹیم ٹی20 کرکٹ کو کم ہی سنجیدہ لیتی دکھائی دی ہے لیکن جب یہ سنجیدہ ہوجائے تو ورلڈکپ ہی جیت جاتی ہے۔

آسٹریلیا کی ٹی20 فارم اس وقت ملی جلی سی ہے، اس نے ویسٹ انڈیز کو سیریز میں شکست تو دی لیکن بھارت اور انگلینڈ کے خلاف شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ ٹورنامنٹ شروع ہوتے ہی آسٹریلیا کے کھلاڑی فارم پکڑ لیتے ہیں، پھر ٹورنامنٹ بھی آسٹریلیا میں ہے تو آسٹریلیا کی سیمی فائنل نشست تو کافی حد تک پکی لگ رہی ہے۔

انہیں انگلینڈ کے خلاف اگرچہ سیریز میں شکست ہوئی لیکن دونوں ملکوں کے درمیان ٹی20 کرکٹ میں برابر کا مقابلہ ہے جبکہ نیوزی لینڈ اور سری لنکا پر آسٹریلیا کو واضح برتری حاصل ہے۔ موجودہ فارم اور پرانے ریکارڈ دونوں سے آسٹریلیا کا سیمی فائنل کھیلنا کافی حد تک ممکن نظر آرہا ہے۔


انگلینڈ


انگلینڈ کی ٹیم ون ڈے کرکٹ کی چیمپیئن ہے اور اس وقت سب سے جدید برینڈ کی کرکٹ کھیل رہی ہے۔ اگرچہ ایون مورگن کی اچانک ریٹائرمنٹ کے بعد انگلینڈ کے لیے ابتدائی نتائج کچھ اچھے نہیں رہے اور انہیں بھارت اور پھر جنوبی افریقہ کے خلاف شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن پہلے پاکستان کو پاکستان میں اور پھر آسٹریلیا کو آسٹریلیا میں شکست دے کر انگلینڈ نے ٹورنامنٹ سے پہلے فارم میں واپسی کا اعلان کردیا ہے۔

ٹیم میں کپتان جوز بٹلر اور ٹیسٹ کپتان بین اسٹوکس کی واپسی ہوئی ہے، جس سے ٹیم مزید مضبوط ہوچکی ہے۔ اگرچہ جونی بیئرسٹو کی کمی انگلینڈ کو ضرور محسوس ہوگی لیکن پاکستان اور آسٹریلیا کے خلاف نوجوان لڑکوں کی جارحانہ بیٹنگ دیکھ کر لگتا ہے کہ نقصان زیادہ نہیں ہوگا۔ ہاں، بین اسٹوکس کی موجودہ فارم انگلینڈ کے لیے پریشان کن ضرور ہوسکتی ہے لیکن اگر اسٹوکس بیٹنگ میں کچھ نہ بھی کرسکیں تو اپنی باؤلنگ اور شاندار فیلڈنگ سے ہی میچ کا نتیجہ بدل سکتے ہیں۔


نیوزی لینڈ


نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کا ریکارڈ اگرچہ آسٹریلیا اور انگلینڈ کے خلاف ٹی20 کرکٹ میں کچھ زیادہ اچھا نہیں لیکن نیوزی لینڈ کی ٹیم کو عالمی کپ کے سیمی فائنل میں پہنچنے کا گُر ضرور آتا ہے۔ چاہے نیوزی لینڈ کی ٹیم ورلڈکپ کے لیے فیورٹ ہو یا نہ ہو، لیکن انہیں سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر رکھنا کافی مشکل رہا ہے۔

کپتان کین ولیمسن کی فارم اگرچہ نیوزی لینڈ کی ٹیم کے لیے پریشان کن ہوسکتی ہے لیکن ٹیم میں موجود نئے کھلاڑی مخالف ٹیم کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح اگر باؤلنگ کی بات کریں تو ٹرینٹ بولٹ اور ٹم ساؤتھی کے ساتھ نیوزی لینڈ کے اسپنر ایک خطرناک باؤلنگ یونٹ لگ رہے ہیں۔


سری لنکا


اگرچہ سری لنکن ٹیم کوالیفائنگ راؤنڈ کھیل رہی ہے اور کل نیمیبیا کے خلاف اسے اپ سیٹ شکست بھی ہوئی، مگر اس کے باوجود یہ امکان موجود ہے کہ وہ سپر 12 میں کوالیفائی کرنے کے لیے کامیاب ہوجائے گی۔

ایشیا کپ کی فاتح سری لنکا کی ٹیم نوجوان کھلاڑیوں پر مشتمل ہے لیکن ان نوجوانوں کو تجربہ کار لیگ اسپنر ونیندو ہاسارنگا کا ساتھ بھی حاصل ہے۔ سری لنکا کی ٹیم اپنے دن پر کسی کو بھی حیران کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے لیکن اس کا اس گروپ سے سیمی فائنل میں پہنچنا کافی مشکل لگتا ہے۔

میرے خیال کے مطابق گروپ 1 سے سیمی فائنل میں آسٹریلیا اور انگلینڈ کی رسائی کے امکانات کافی زیادہ ہیں اگرچہ نیوزی لینڈ کی ٹیم بھی حیران کرسکتی ہے۔


بھارت


گروپ 2 میں بھارت کی ٹیم اس وقت بھرپور فارم میں ہے۔ بھارتی ٹیم انگلینڈ کو انگلینڈ میں شکست دینے کے بعد آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کو اپنے گھر میں سیریز شکست سے دوچار کرچکی ہے۔ اگرچہ اس دوران ایشیا کپ میں بھارت کی فائنل تک رسائی نہ ہوسکی لیکن اس کے باوجود بھارت کے ورلڈکپ سیمی فائنل میں پہنچنے کے کافی امکانات ہیں۔

بھارتی ٹیم کا ریکارڈ آسٹریلیا میں کافی بہتر ہے اور پاکستان اور جنوبی افریقہ کے خلاف بھارت کا ریکارڈ بھی اچھا ہے۔ اگرچہ پچھلے ایک سال میں پاکستانی ٹیم نے بھارتی ٹیم کو 3 میں سے 2 ٹی20 میچوں میں شکست دی ہے لیکن ورلڈکپ مقابلوں میں بھارت کا پلڑا بہت بھاری ہے۔ جسپریت بمرا کی غیر موجودگی بھارت کے لیے پریشان کن ضرور ہے لیکن بھارت کی مضبوط ترین بیٹنگ لائن اور عمدہ اسپنر اس کمی کو پورا کرسکتے ہیں۔


پاکستان


پاکستانی ٹیم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ 2022ء میں بھی 1990ء کی دہائی کی کرکٹ کھیل رہی ہے اور یہ بات بہت حد تک درست بھی ہے۔ جہاں باقی ٹیمیں ٹی20 پاور پلے میں اوسطاً 50 رنز بنا رہی ہیں وہیں پاکستانی ٹیم 42 رنز ہی بنا رہی ہے۔

محمد رضوان اور بابر اعظم کی جوڑی ایک طرف تو ٹی20 کرکٹ میں ریکارڈ پر ریکارڈ توڑ رہی ہے مگر دوسری طرف دونوں ہی کھلاڑی پہلے 10 اوورز میں کوئی بھی رسک لینے سے گریزاں ہیں۔

مڈل آرڈر کی بات کی جائے تو اسے موقع نہ ملے تو گلہ رہتا ہے کہ کیوں موقع نہ ملا اور مل جائے تو گلہ ہوتا ہے کہ نہ ملتا تو بہتر تھا۔ بابر اور رضوان ہر میچ میں 20 اوورز پورے کھیلنے کے ارادے سے کریز پر جاتے ہیں۔ کبھی ان ارادوں سے 200 کا ہدف بھی حاصل کرلیا جاتا ہے تو کبھی 170 کا ہدف بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ خاص طور پر پہلے کھیلتے ہوئے بڑا اسکور بنانا کافی مشکل رہتا ہے۔ اس سب کے باوجود اس گروپ سے پاکستان کے سیمی فائنل کھیلنے کے امکانات کافی روشن ہیں۔

اگرچہ ورلڈکپ میچوں میں پاکستان کا بھارت کے خلاف ریکارڈ بہت خراب ہے لیکن پچھلے سال حاصل کی گئی فتح امیدیں روشن کر رہی ہے۔ پچھلے ورلڈکپ کی طرح اس بار بھی پاکستان کا پہلا میچ انڈیا ہی کے خلاف ہے اور ویسی ہی کارکردگی پاکستان کی سیمی فائنل میں رسائی کے امکانات مزید روشن کرسکتی ہے۔


جنوبی افریقہ


جنوبی افریقہ کے خلاف ٹی20 وہ واحد فارمیٹ رہا ہے جہاں پاکستان اور جنوبی افریقہ کا برابری کا مقابلہ ہے اور ریکارڈز میں یہ برابری بھی پچھلے کچھ عرصے میں پاکستان کی بہتر کارکردگی کی وجہ سے ہی ہوئی ہے۔ پاکستان کے تسلسل سے پرفارم کرنے والے اوپنرز کا مقابلہ جنوبی افریقہ کے پیس اٹیک سے جبکہ جنوبی افریقہ کے دھماکے دار مڈل آرڈر کا مقابلہ پاکستانی اسپنر اور ڈیتھ باؤلنگ سے کافی دلچسپ ہوسکتا ہے۔

جنوبی افریقہ کی ٹیم بھارت کے خلاف دباؤ کا شکار ہوگی لیکن یہ ٹیم پاکستان اور ویسٹ انڈیز کو شکست دے کر سیمی فائنل میں رسائی حاصل کرسکتی ہے۔ جنوبی افریقہ کو آسٹریلیا کی وکٹیں کافی حد تک جنوبی افریقہ جیسی ہی لگیں گی اور ان کے پیسرز اس کا کافی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔


ویسٹ انڈیز


اگر ویسٹ انڈیز نے کوالیفائنگ راؤنڈ میں کامیابی حاصل کرکے سپر 12 میں جگہ بنا، جس کے امکان زیادہ ہیں تو پھر پاکستان کا دوسرا میچ ویسٹ انڈیز سے متوقع ہے اور پاکستان کے خلاف کافی عرصے سے خراب کارکردگی کے باوجود ورلڈکپ میچوں میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم پاکستان کو پچھاڑ ہی لیتی ہے۔

2019ء میں منعقد ہونے والے ایک روزہ ورلڈکپ میں ویسٹ انڈیز کے خلاف پہلے ہی میچ کی بھاری شکست کا خمیازہ پاکستان کو سیمی فائنل پوزیشن سے محرومی کی صورت میں بھگتنا پڑا تھا۔ اس بار ایسی کسی شکست اور کسی بھی کمزور پرفارمنس سے بچنا ہوگا۔

ویسٹ انڈیز کی ٹیم اس گروپ میں کسی کو بھی سیمی فائنل سے محروم کرسکتی ہے لیکن اس کا خود سیمی فائنل میں پہنچنا کافی مشکل لگ رہا ہے۔ گروپ 2 سے بھارت اور پاکستان کے سیمی فائنل تک رسائی کے امکانات زیادہ ہیں مگر جنوبی افریقہ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

میرے خیال میں ٹی20 ورلڈکپ 2022ء کی سیمی فائنلسٹ ٹیمیں پاکستان، بھارت، آسٹریلیا اور انگلینڈ ہوسکتی ہیں جبکہ دونوں گروپ سے نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ کوئی بھی سرپرائز دینے کی پوری صلاحیت رکھتی ہیں۔


ایم بی اے مارکیٹنگ کرنے کے بعد نوکری سیلز کے شعبے میں کررہا ہوں۔ کرکٹ دیکھنے اور کھیلنے کا بچپن سے جنون تھا ۔ پڑھنے کا بچپن سے شوق ہےاور اسی شوق نے لکھنے کا حوصلہ بھی دیا۔

شہزاد فاروق

ایم بی اے مارکیٹنگ کرنے کے بعد نوکری سیلز کے شعبے میں کررہا ہوں۔ کرکٹ دیکھنے اور کھیلنے کا بچپن سے جنون تھا ۔ پڑھنے کا بچپن سے شوق ہےاور اسی شوق نے لکھنے کا حوصلہ بھی دیا۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔