دنیا

برازیل: صدر بولسونارو کو شکست، لوئز لولا ڈی سلوا نئے صدر منتخب

لوئز لولا ڈی سلوا نے 50.9 فیصد اور صدر بولسونارو نے 49.1 فیصد ووٹ حاصل کیے، برازیل سپریم الیکٹورل کورٹ

برازیل میں منعقدہ صدارتی انتخاب میں صدر بولسونارو کو مخالف امیدوار سابق صدر لوئز لولا ڈی سلوا سے معمولی فرق سے شکست ہوگئی۔

خبر ایجنسی ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق بائیں بازو کی جماعت کے امیدوار لوئز لولا ڈی سلوا نے صدر جیئر بولسونارو سے سخت مقابلے کے بعد معمولی فرق سے کامیابی حاصل کی جبکہ صدر کے حامیوں نے شکست تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے نتائج پر سوالات اٹھائے۔

مزید پڑھیں: برازیل: جج کو دھمکی دینے والے سیاسی رہنما کا گرفتاری سے بچنے کیلئے پولیس پر دستی بم حملہ

برازیل کی سپریم الیکٹوریل کورٹ (ٹی ایس ای) نے لولا ڈی سلوا کو ملک کا اگلا صدر قرار دیتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے 50.9 فیصد ووٹ حاصل کیے جبکہ بولسونارو نے 49.1 فیصد ووٹ لیے۔

رپورٹ کے مطابق 77 سالہ لوئز لولا ڈی سلوا صدارت کا منصب یکم جنوری کو سنبھالیں گے۔

بولسونارو اس شکست کے ساتھ ہی دوسری مدت کے لیے صدارت سے محروم ہونے والے برازیل کے پہلے صدر بن گئے ہیں۔

صدارتی انتخاب میں کامیابی کے بعد لوئز لولا ڈی سلوا نے ساؤ پاؤلو کے پاؤلسٹا ایونیو میں ہزاروں حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بولسونارو نے تاحال میری فتح تسلیم نہیں کی اور مجھے نہیں معلوم کہ وہ میری جیت تسلیم کرتے ہیں یا نہیں۔

دوسری جانب بولسونارو کی مہم کا حصہ رہنے والے ایک عہدیدار نے بتایا کہ صدر اس حوالے سے بیان خود جاری کریں گے۔

رپورٹس کے مطابق بولسونارو نے برازیل کے الیکٹرونک ووٹنگ سسٹم پر فراڈ کے بے بنیاد الزامات عائد کرتے ہوئے گزشتہ برس ہی انتخاب کا نتیجہ تسلیم نہ کرنے کے حوالے سے سرعام گفتگو کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: برازیل: انتخابی مہم کے دوران صدارتی امیدوار چاقو حملے میں زخمی

بولسونارو کے قریبی اتحادی و رکن اسمبلی کارلا زیمبیلی نے بظاہر نتائج کے حوالے سے ٹوئٹر پر لکھا تھا کہ 'میرا آپ سے وعدہ ہے، میں زبردست مخالف ہوں جس کا لولا ڈی سلوا نے سوچا بھی نہیں ہوگا'۔

عالمی مبصرین نے برازیل کے صدارتی انتخاب کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ شفاف انتخاب ہوا، عسکری آڈیٹرز کو ووٹنگ سسٹم کی شفافیت پر کسی قسم کی غلطی نظر نہیں آئی۔

سوشل میڈیا پر زیرگردش ویڈیو میں ایک شہری کو کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ ٹرک ڈرائیوروں نے لوئز لولا ڈی سلوا کو صدارت سنبھالنے سے روکنے کے لیے فوج کو حکومت پر قبضہ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے مرکزی شاہراہوں کو بلاک کرنے کا منصوبہ بنالیا ہے۔

خیال رہے کہ لوئز لولا ڈی سلوا اس سے قبل 2003 میں ملک کے صدر منتخب ہوئے اور 2010 تک صدر رہے تھے اور اس دوران پڑوسی ممالک میں بھی بائیں بازو کی نظریات کی حامل جماعتوں کو حکمرانی ملی تھی۔

ان کی جماعت ورکرز پارٹی پر کرپشن کے الزامات عائد کیے گئے اور انہیں 19 ماہ کے لیے جیل بھی بھیج دیا گیا تاہم برازیل کی سپریم کورٹ نے انہیں بری کردیا تھا۔

لوئز لولا ڈی سلوا نے انتخابی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ صدر بننے کے بعد سماجی بہبود اور معاشی بہتری کی پالیسی دوبارہ شروع کی جائے گی، جس کے باعث لاکھوں افراد غربت سے باہر نکل آئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ایمازون کے جنگلات میں ہونے والی تباہی کا سدباب کیا جائے گا جہاں جنگلات کی تباہی عروج پر ہے اور عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے برازیل موضوع بحث بنا ہوا ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف، عالمی رہنماؤں کی جانب سے مبارک باد

وزیر اعظم شہباز شریف نے لوئز لولا ڈی سلوا کو مبارک باد دیتے ہوئے اپنے پیغام میں کہا کہ برازیل کے صدارتی انتخاب میں کامیابی پر لولا ڈی سلوا کو مبارک ہو۔

انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات کی مضبوطی کے لیے میں ان کے ساتھ کام کرنے کے لیے پرعزم ہوں۔

وزیراعظم نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے دونوں ممالک شکار ہیں۔

امریکا، چین، روس، پاکستان اور فرانس سمیت دنیا بھر کے دیگر رہنماؤں کی جانب سے لولا ڈی سلوا کو جیت پر مبارک باد کے پیغامات موصول ہو رہے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن، چین کے صدر شی جن پنگ، روسی صدر ولادیمیر پیوٹن، جرمن چانسلر اولاف شولز، فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون نے لوئز لولا ڈی سلوا کو مبارک باد دی۔

وزیراعظم کا 600 ارب روپے کے کسان پیکج کا اعلان

ٹی20 ورلڈ کپ: آسٹریلین ہوٹل میں پرائیویسی میں مداخلت پر کوہلی برہم

آبادیاتی تبدیلی یورپی سیاست پر کس طرح اثر انداز ہوسکتی ہے؟