پاکستان

کراچی: مچھر کالونی میں تشدد سے ہلاکت کا معاملہ، ملزمان ریمانڈ پر پولیس کے حوالے

تفتیشی افسر نے عدالت سے ملزمان کو تفتیش کے لیے 14روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں دینے کی استدعا کی تھی۔

کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے مچھر کالونی میں اغوا کے خوف پر ہجوم کے ہاتھوں تشدد سے دو ٹیلی کام ملازمین کے قتل میں گرفتار 4 ملزمان کو تحقیقات کے لیے ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔

ڈاکس پولیس اسٹیشن کی حدود میں ہجوم نے انجینئر ایمن جاوید اور ڈرائیور محمد اسحٰق کو مار مار کر ہلاک کر دیا تھا اور ان کی گاڑی بھی جلا دی تھی۔

پولیس نے محمد فاروق، رب الاسلام، فیصل اور عبدالغفور کے علاوہ دیگر 11 افراد کو اقدام قتل، جان بوجھ کر آگ لگانا، تشدد اور دہشت گردی پھیلانے کے مقدمے میں گرفتار کر رکھا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: موبائل کمپنی کے ملازمین کو تشدد کرکے قتل کرنے کے الزام میں 34 افراد گرفتار

تفتیشی افسر نے ملزمان کو انسداد دہشت گردی کے انتظامی جج کے سامنے پیش کیا اور پوچھ گچھ اور تحقیقات کے لیے ان کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی۔

تفتیشی افسر انسپکٹر نثار سومرو نے عدالت کو بتایا کہ افسوس ناک واقعے کے بعد شام کو دو مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا تھا، ان کی شناخت ویڈیو فوٹیجز اور عینی شاہدین کی مدد سے کی گئی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ بعد ازاں مزید 2 ملزمان کو بھی گرفتار کیا گیا تھا۔

تفتیشی افسر نے دعویٰ کیا کہ تمام مشتبہ افراد نے ابتدائی تفتیش کے دوران واقعے میں ملوث ہونے، لوگوں کو اکسانے اور متاثرین کو تشدد کرنے میں ملوث ہونے کا انکشاف کیا تھا، متاثرین ٹی سی ایف اسکول کے قریب ویران علاقے میں موبائل فون ٹاور کے اینٹینا کا معائنہ اور اس کو درست کرنے جارہے تھے۔

انہوں نے مزید دعویٰ کیا کہ تقریباً 500 سے 600 لوگ جمع ہو گئے کیونکہ گرفتار ملزمان نے لوگوں کو اکسایا تھا اور یہ افواہ پھیلائی تھی کہ متاثرین بچوں کے اغوا کے ارادے سے علاقے میں آئے ہیں۔

مزید پڑھیں: حکومتِ سندھ کا ہجوم کے تشدد سے جاں بحق افراد کے لواحقین کیلئے 50 لاکھ امداد کا اعلان

انسپکٹر نثار سومرو نے بتایا کہ مشتعل ہجوم نے ایمن جاوید اور محمد اسحٰق پر شدید جسمانی تشدد کیا، جس کے بعد وہ جاں بحق ہو گئے تھے۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ تفتیش مکمل کرنے کے لیے اور مقدمے میں نامزد دیگر مشتبہ افراد کو پکڑنے کے لیے ملزمان کو زیر حراست رکھنے کی ضرورت ہے، جو مبینہ طور پر گرفتاری سے بچنے کے لیے چھپ گئے ہیں، ان میں محمد حسنین، عثمان، مالک، رحمت، مصطفیٰ، رشید بنگالی، نور افسر، عرفان، شہزاد، رزاق عرف کالو اور محمد رفیق عرف فاروق شامل ہیں۔

لہٰذا تفتیشی افسر نے جج سے درخواست کی کہ ملزمان کو 14 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں دیا جائے تاکہ تفتیش اور دیگر قانونی کارروائی عمل میں لائی جا سکے۔

تاہم جج نے ایک ہفتے کا جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے ملزمان کو پولیس کے حوالے کر دیا، عدالت نے تفتیشی افسر کو ہدایت کی کہ انہیں اگلی سماعت پر تفتیشی رپورٹ کے ساتھ پیش کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: اغوا کے خوف پر عوام نے موبائل فون کمپنی کے 2 ملازمین کو تشدد کرکے ہلاک کردیا، پولیس

واضح رہے کہ مقتول محمد اسحٰق کے چچا محمد یعقوب کی شکایت پر ڈاکس پولیس اسٹیشن میں 200 سے 250 افراد کے خلاف مقدمہ درجہ کیا گیا ہے، مقدمے میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 302 (اقدام قتل)، دفعہ 147 (فساد کی سزا)، دفعہ 148 (فساد، مہلک ہتھیاروں سے لیس)، دفعہ 149 (ایک ہی جرم کے لیے غیر قانونی طور پر جمع ہر شخص قصوروار)، دفعہ 427 (شرارت جس سے 50 روپے کا نقصان ہونا)، دفعہ 435 (شرارت کرکے 100 روپے کے نقصان پہنچانے کے ارادے سے آگ لگانا)، دفعہ 34 (مشترکہ ارادہ)، اس کے ساتھ انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 7 (دہشت گردی کرنے کی سزا) شامل کی گئی ہیں۔

وزارت دفاع کی درخواست پر صحافی ارشد شریف قتل کی تحقیقات کیلئے کمیشن تشکیل

دنیا کے متعدد ممالک میں انسٹاگرام سروس متاثر

حکومتِ سندھ کا ہجوم کے تشدد سے جاں بحق افراد کے لواحقین کیلئے 50 لاکھ امداد کا اعلان