پاکستان

گلگت بلتستان: دیامر میں لڑکیوں کے اسکول نذرآتش کرنے کا واقعہ دہشت گردی کا نہیں، پولیس

عسکریت پسند واردات کے بعد ذمہ داری قبول کرلیتے ہیں،اس بار مقامی عسکریت پسندوں نے واقعے سے لاتعلقی ظاہر کی ہے، ایس ایس پی

پولیس کا کہنا ہے کہ ابتدائی معلومات کے مطابق داریل میں لڑکیوں کا اسکول جلانے کا واقعہ دہشت گردی کا نہیں ہے تاہم چوکیدار کو حراست میں لے کر مختلف زاویوں سے تحقیقات کی جارہی ہیں۔

سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) دیامر شیر خان نے ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی کو بتایا کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق گلگت بلتستان میں اسکول نذرآتش کرنے کا واقعہ دہشت گردی کا نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: گلگت بلتستان: دیامر میں نامعلوم شرپسندوں نے لڑکیوں کے اسکول کو آگ لگا دی

ان کا کہنا تھا کہ گرلز مڈل اسکول کے چوکیدار کو حراست میں لے کر مختلف زاویوں سے تحقیقات کی جارہی ہیں۔

ایس ایس پی نے بتایا کہ ابتدائی طور پر اسکول جلانے کے واقعے کی دہشت گردی کے واقعے کے طور پر تفتیش کی جارہی تھی، تاہم اب اشارے دہشت گرد کے بجائے ایک شخص کے عمل کے مل رہے ہیں۔

شیر خان نے مزید بتایا کہ واقعے میں اس پہلو پر بھی تفتیش کی جارہی ہے کہ اسکول کی عمارت آبادی سے دور تھی جس کی دیوار 5 فٹ ہونے اور کلاس روم میں تالا نہ لگنے کی وجہ سے رات گئے کچھ نوجوان یہاں جمع ہوگئے تھے۔

ایس ایس نے بتایا کہ اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ رات گئے کچھ نامعلوم نوجوانوں کے آگ جلانے یا سگریٹ نوشی کرنے سے آگ اسکول میں آگ پھیلی ہوگی۔

انہوں نے مزید کہا کہ دیامر میں دروازے اور کھڑکیاں دیار کی لکڑی کی بنی ہوئی ہوتی ہے یہ لکڑی پیٹرول سے بھی زیادہ تیزی سے آگ پکڑتی ہے۔

دیامر کے ایس ایس پی کا کہنا تھا کہ اسکول کے چوکیدار نے ابتدائی تفتیش میں بتایا کہ نامعلوم شرپسند ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اسکول سے دور لے گئے اور بعد میں انہوں نے عمارت کو نذر آتش کیا۔

مزید پڑھیں: گلگت بلتستان: دیامر میں نامعلوم شرپسندوں نے لڑکیوں کے اسکول کو آگ لگا دی

تاہم پولیس کی جانب سے مزید تفتیش کرنے پران کا بیان جھوٹ پر مبنی ثابت ہوا کیونکہ واقعے کے روز انہوں نے اپنے سسرال کے گھر رات گزاری تھی جو اسکول سے دور ایک گاؤں میں قائم ہے۔

ایس ایس پی نے کہا کہ عسکریت پسند واردات کے بعد ذمہ داری قبول کر لیتے ہیں جیسے 2018 میں 12 اسکول جلا کر کیا تھا جبکہ اس بار مقامی عسکریت پسندوں نے سوشل میڈیا پر واقعے سے لاتعلقی ظاہر کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: گلگت بلتستان: دیامر میں لڑکیوں کے نذر آتش اسکول کی بحالی کا کام شروع

ایس ایس پی شیر خان کا کہنا تھا کہ اسکول جلانے کا واقعہ ذاتی رنجش یا اتفاقی ہوسکتا ہے۔

ایس ایس پی کے مطابق واقعے میں اب تک صرف ایک سیکیورٹی اہلکار ہی گرفتار ہوا ہے۔

2018 کے واقعے کے حوالے سے ایس ایس پی شیر خان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل جن 16 افراد کو حراست میں لیا گیا تھا، ان کو گواہوں کی کمی کی وجہ سے رہا کردیا گیا ہے۔

ریکوڈک ریفرنس: سپریم کورٹ کا منصوبے پر باقاعدہ اتھارٹی، حکومتی پالیسی بنانے کا مشورہ

نواز شریف منصوبے کے تحت ملک میں مارشل لا لگانا چاہتے ہیں، فواد چوہدری

پنجاب پولیس کا نیا سربراہ کون؟ صوبائی حکومت نے تین نام تجویزکردیے