پاکستان

سیاسی بحران، آئی ایم ایف مذاکرات میں تاخیر کے درمیان ملک کے دیوالیہ ہونے کے خطرات میں اضافہ

ملکی ضروریات کے لیے 800 ارب کے نئے ٹیکسوں کی ضرورت ہے جو خراب معیشت، سیاسی عدم استحکام کے سبب حکومت کے لیے مشکل اقدام ہے۔

سرمایہ کاروں کو ڈیفالٹ سے بچانے والے 5 سالہ انشورنس کنٹریکٹ ’کریڈٹ ڈیفالٹ سویپس‘ (سی ڈی ایس) میں سیاسی بحران اور عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ بات چیت کے بارے میں غیر یقینی صورتحال کے درمیان گزشتہ روز تیزی سے اضافہ ہو گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ریسرچ فرم عارف حبیب لمیٹڈ کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق بدھ کے روز سی ڈی ایس 75.5 فیصد تک بڑھ گیا جو کہ ایک روز قبل تک 56.2 فیصد تھا۔

واشنگٹن میں سرکاری ذرائع نے بتایا کہ گزشتہ ہفتے پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات کے شیڈول میں ردوبدل کر دیا گیا تھا لیکن مذاکرات جاری ہیں، تاہم میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا کہ جو مذاکرات نومبر کے اوائل میں شروع ہونے تھے وہ رواں ماہ کے تیسرے ہفتے تک ملتوی کر دیے گئے ہیں۔

ان رپورٹس کے مطابق پاکستان کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس ایڈجسٹ کرنے کے اپنے وعدے کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ رواں سال کے شروع میں بحال ہونے والے قرض معاہدے کے تحت درکار دیگر اقدامات کیے جانے کے بعد مذاکرات دوبارہ شروع ہوں گے۔

لیکن ڈان سے بات کرنے والے سرکاری ذرائع نے کہا تھا کہ گزشتہ ماہ پاکستان میں سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں ورلڈ بینک کی رپورٹ کے اجرا کے بعد مذاکرات کو از سر نو ترتیب دیا گیا تھا۔

پاکستان کو 5 سالہ سکوک یا اسلامی بانڈز کی میچورٹی پر 5 دسمبر کو ایک ارب ڈالر ادا کرنے ہیں، وزیر خزانہ متعدد مرتبہ سکوک رقم کی ادائیگی کی یقین دہانی کراچکے ہیں لیکن عالمی مارکیٹ یقین دہانیوں پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں جب کہ ملکی معیشت مارکیٹوں، ڈونرز، کمرشل بینکوں اور دوست ممالک سے مزید قرض لے کر ڈیفالٹ سے بچنے کی کوشش کر رہی ہے۔

سی ڈی ایس میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ سنگین صورتحال کی نشاندہی کرتا ہے جس سے حکومت کے لیے بانڈز یا تجارتی قرضوں کے ذریعے مارکیٹوں سے زرمبادلہ اکٹھا کرنا مزید مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

ملک کو اپنی غیر ملکی ادائیگیوں کو پورا کرنے کے لیے رواں مالی سال کے دوران 32 ارب سے 34 ارب ڈالر درکار ہیں۔

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک کو رواں مالی سال کے دوران تقریباً 23 ارب ڈالر کی ضرورت ہوگی۔

پاکستان اب بھی آئی ایم ایف پروگرام میں موجود ہے جس کی وجہ سے اسے ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک سے رقوم حاصل ہو رہی ہیں۔

پاکستان نے آئی ایم ایف سے رواں مالی سال میں مالیاتی خسارہ 1500 ارب روپے تک کم کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن پہلی سہ ماہی میں خسارہ بڑھنے سے صورتحال مزید خراب ہوتی جا رہی ہے۔

مالیاتی شعبے کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف لیکویڈیٹی بڑھانے اور مالیاتی خسارے میں اضافے سے بچنے کے لیے نئے ٹیکس عائد کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔

اس تمام صورتحال میں حکومت کو کم از کم 800 ارب روپے کی ضرورت ہے جو صرف نئے ٹیکسوں کے نفاذ کے ذریعے ہی حاصل کیے جا سکتے ہیں جو کہ موجودہ خراب معاشی صورتحال، سیاسی بے چینی اور عدم استحکام کے درمیان حکومت کے لیے مشکل اقدام ہے۔

ریکوڈک معاہدہ سے بلوچستان کو فائدہ ہوگا، وکیل کا سپریم کورٹ میں مؤقف

فیفا ورلڈ کپ 2022ء اب تک کا مہنگا ترین ٹورنامنٹ کیوں ہے؟

فلم جوائے لینڈ ریلیز کیلئے کلیئر قرار دے دی گئی، سلمان صوفی