نقطہ نظر

پاک-بنگلہ دیش تعلقات: شیخ مجیب اور حسینہ واجد کی پالیسی میں کیا فرق ہے؟

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تعلقات کو تعطل کا شکار رکھنے کے لیے ’معافی مانگنے‘ کے سوال کو سیاسی چال کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔

شیخ مجیب الرحمٰن کی نظر میں بنگلہ دیش کی خارجہ پالیسی ’دوستی سب سے اور بغض کسی سے نہیں‘ کے اصول پر کاربند ہونی تھی۔

ان کی صاحبزادی اور بنگلہ دیش کی موجودہ وزیرِاعظم شیخ حسینہ واجد بھی کئی بین الاقوامی فورمز پر اس بات کا اعادہ کرچکی ہیں لیکن جب پاکستان کے ساتھ خارجہ تعلقات کی بات آتی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ بنگلہ دیش کی خارجہ پالیسی اس اصول کو نظر انداز کردیتی ہے۔

شیخ حسینہ واجد 1971ء کے معاملے کو چھیڑ کر دوطرفہ تعلقات کی راہ میں رکاوٹ ڈال دیتی ہیں۔ ان کے والد نے پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان ہونے والے اپریل 1974ء کے سہ فریقی معاہدے میں ’ماضی کو بھلا کر ایک نیا آغاز کرنے‘ کے عزم کا اظہار کیا تھا لیکن لگتا ہے کہ شیخ حسینہ واجد کے لیے یہ کام مشکل ہے۔

جب شیخ مجیب الرحمٰن نے یہ کہا تھا کہ ’بنگلہ دیش کے لوگوں کو معاف کرنا آتا ہے‘ تو دراصل یہ اس ضرورت کا واضح اظہار تھا کہ دونوں ممالک کو عداوت ترک کرکے آگے بڑھنا چاہیے۔

شیخ مجیب نے فروری 1974ء میں پاکستان کا دورہ کیا تھا جبکہ ذوالفقار علی بھٹو نے اسی سال جون میں بنگلہ دیش کا دورہ کیا تھا۔ اس وقت دونوں ممالک کی قیادت کے ارادے بالکل واضح تھے، وہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بحال کرنا چاہتے تھے۔ اس کے بعد سے کئی پاکستانی حکمران بنگلہ دیش کا دورہ کرچکے ہیں اور ماضی کی تلخیاں بھلادینے کی خواہش کا اظہار کرچکے ہیں۔

جب 2002ء میں صدر مشرف نے بنگلہ دیش کا دورہ کیا تو انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ 1971ء میں کی گئی ’زیادتیاں‘ ’قابلِ افسوس‘ ہیں۔ انہوں نے بنگلہ دیش کے شہدا کی قومی یادگار پر جاکر شہدائے بنگلہ دیش کو خراج عقیدت بھی پیش کیا۔ پاکستانی سول سوسائیٹی، اکیڈمیا اور میڈیا سے تعلق رکھنے والے نامور افراد نے بھی 1971ء کے واقعات کے حوالے سے افسوس کا اظہار کیا جو ہرپاکستانی کا بھی احساس ہے۔ فیض احمد فیض نے بھی 1974ء میں دورہ بنگلہ دیش کے بعد وہ مشہور زمانہ نظم لکھی جس میں انہوں نے پوچھا کہ ’خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد‘۔

مگر اس کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ عوامی لیگ ماضی کو بھلا کر آگے بڑھنے کے لیے تیار نہیں ہے جبکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ بنگلہ دیش کی آبادی کا ایک بڑا حصہ پاکستان کے لیے اچھے جذبات رکھتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تعلقات کو تعطل کا شکار رکھنے کے لیے ’معافی مانگنے‘ کے سوال کو سیاسی چال کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔

گزشتہ سال ستمبر میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے شیخ حسینہ واجد نے الزام لگایا کہ پاکستانی افواج نے ’30 لاکھ‘ بنگالیوں کو قتل کیا اور ’2 لاکھ خواتین‘ کی عصمت دری کی۔ اس حوالے سے دستیاب تحقیق بتاتی ہے کہ یہ اعداد مبالغے پر مبنی ہیں۔ سرمیلا بوس جیسے لکھاریوں نے ان دعوؤں پر سنجیدہ سوالات اٹھائے ہیں۔ اس بات کے بھی شواہد ملے ہیں کہ دونوں جانب سے زیادتیاں کی گئیں تھیں۔ اگر ذمہ داروں کے تعین کرنے کا پنڈورا باکس کھولا گیا تو دونوں ممالک کو ماضی کی تلخ یادوں سے نمٹنا پڑے گا اور مسئلہ بھی حل نہیں ہوگا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر ’معافی‘ کے مسئلہ کو بار بار اٹھانے کا کیا مطلب ہے؟ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ بنگلہ دیش کی پالیسیوں میں ایک مجبوری اس کا جغرافیائی محل وقوع ہے کیونکہ اس کے 3 طرف بھارت ہے۔ اگر پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات کی بحالی میں یہی رکاوٹ ہے تو ہمیں اس وقت تک انتظار کرنا پڑے گا جب تک پاکستان اور بھارت کے تعلقات بہتر نہیں ہوجاتے۔

راقم نے حال ہی میں ہونے والے بے آف بنگال کنورسیشن میں شرکت کی تھی۔ وہاں 1971ء کے واقعات کے حوالے سے کوئی بحث نہیں ہوئی۔ بنگلہ دیش کے تھنک ٹینکس کی توجہ اس بات پر ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی، چین کے بڑھتے معاشی اثرات اور امریکا کی انڈو چائنا پالیسی کا خلیج بنگال پر کیا اثر پڑے گا۔

ایک ایسے ملک کے شہری ہونے کے ناطے جس نے 1985ء میں سارک کا منصوبہ پیش کیا تھا، بنگلہ دیش کے لوگوں کو تشویش ہے کہ کہیں اس خطے کو بھلا نہ دیا جائے۔ ایک تجویز یہ بھی سامنے آئی کہ صرف موسمیاتی تبدیلی کے نکتے کو سامنے رکھتے ہوئے سارک کے ایجنڈے کو ازسرِ نو ترتیب دیا جائے۔ ماحولیاتی تبدیلی سے ویسے بھی جنوبی ایشیا کا ہر ملک متاثر ہے۔

اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ بنگلہ دیش معاشی اور سماجی ترقی کی ایک کامیاب مثال بن کر ابھرا ہے اور یہ ملک 2031ء تک اعلیٰ متوسط آمدن والا ملک بننے کا عزم رکھتا ہے۔ 1991ء میں بنگلہ دیش میں غربت 43.5 فیصد تھی جو 2016ء میں 14.3 فیصد تک آگئی تھی۔ اس کی آبادی 17 کروڑ ہے جس میں ایک فیصد کی شرح سے اضافہ ہورہا ہے جبکہ پاکستان کی آبادی 22 کروڑ ہے جس میں 2 فیصد کی شرح سے اضافہ ہورہا ہے۔ اس کے علاوہ بنگلہ دیش کورونا سے احسن طریقے سے نمٹا۔

اب حال ہی میں توانائی اور اجناس کی قیمتوں میں اضافے سے بنگلہ دیش کی معیشت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ادائیگیوں کے توازن کا بحران شدید ہوتا جارہا ہے۔ مہنگائی بھی بڑھ رہی ہے اور زرِمبادلہ کے ذخائر اگست 2022ء میں 38 ارب 90 کروڑ ڈالر رہ گئے تھے۔ حکومت نے بھی ایک بچت پروگرام شروع کردیا ہے۔

بنگلہ دیش میں اگلے سال دسمبر میں انتخابات بھی شیڈول ہیں۔ اس بارے میں تشویش موجود ہے کہ یہ انتخابات آزاد اور شفاف ہوں گے یا نہیں۔ اس وقت عوامی مباحث کا موضوع یہ ہے کہ بنگلہ دیش کو کس طرح چلایا جارہا ہے اور کیا یہ معاشی ترقی کی بلند شرح کو برقرار رکھ سکے گا۔

رواں سال اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شیخ حسینہ واجد نے جو تقریر کی اس سے اندازہ ہوا کہ اس مرتبہ ان کی جماعت معافی کے معاملے کو آنے والے انتخابات میں سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرے گی۔ آیا یہ کارگر ہوگا یا نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا۔


یہ مضمون 03 دسمبر 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

اعزاز احمد چوہدری

لکھاری پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ، انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹیڈیز اسلام آباد کے ڈی جی اور کتاب ’ڈپلومیٹک فٹ پرنٹس‘ کے مصنف ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔