نقطہ نظر

آئین کی کن دفعات اور کن حالات میں ’ایمرجنسی‘ کا نفاذ ممکن ہے؟

ایمرجنسی کی قیمت عام طور پر صوبہ ہی ادا کرتا ہے۔ اسی لیے وفاقی اور پنجاب حکومت کے درمیان تصادم کے دوران ان دفعات کو بہت اہمیت حاصل ہوگئی ہے۔

ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی 2 صوبائی حکومتوں اور وفاقی حکومت کے درمیان دشمنی کی کیفیت بڑھتی ہی جا رہی ہے۔

فریقین ہر آئینی حربہ آزما رہے ہیں۔ بعض اوقات آئینی اختیارات کو حدود سے بڑھ کر بھی استعمال کیا جاتا ہے لیکن جب عدالتیں تنازعات کا فیصلہ کرتی ہیں تو پھر ہارنے والے فریق کی جانب سے ناراضگی کے اظہار کے باوجود عام طور پر فیصلے کا احترام کیا جاتا ہے اور اسے نافذ کیا جاتا ہے۔

دیکھا جائے تو قومی اسمبلی میں تحاریک عدمِ اعتماد پیش کی جاتی رہی ہیں اور وہ منظور بھی ہوئیں، اسی کے نتیجے میں سابق وزیرِاعظم عمران خان کو بھی عہدہ چھوڑنا پڑا۔ وزیرِاعلیٰ پنجاب کو گورنر پنجاب نے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا تاکہ وہ اسمبلی میں اپنی اکثریت ثابت کرسکیں۔

اس بڑھتی ہوئی کشیدگی میں کم از کم 2 سینیئر رہنماؤں نے ہنگامی حالت یا ایمرجنسی کے نفاذ سے متعلق اختیار استعمال کرنے کے امکان کی طرف اشارہ کیا۔

وزیرِاعلیٰ پنجاب نے حال ہی میں راولپنڈی کے اپنے مختصر دورے کے بعد ’مالی ایمرجنسی‘ کا حوالہ دیا تھا اور اس سے قبل وزیرِ داخلہ رانا ثنااللہ نے پنجاب میں ’گورنر راج‘ کے لیے سمری ارسال کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب پی ٹی آئی کے ترجمان فواد چوہدری نے ان کی گرفتاری کا امکان ظاہر کیا تھا۔

اس بارے میں کوئی شک نہیں کہ ایمرجنسی کے حوالے سے دفعات آئین کا حصہ ہیں لیکن ان کا استعمال عام طور پر انتشار کا شکار سیاست کی نشاندہی کرتا ہے۔ اسی طرح ’مالی ایمرجنسی‘ سے متعلق دفعات ہماری پہلے سے ہی کمزور معیشت کو مزید نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ لہٰذا ان دفعات کو استعمال نہ کرنا ہی بہتر ہے۔ چونکہ صوبائی گورنر عام طور پر کسی ہنگامی صورتحال کے دوران صوبے کا انتظامی اختیار سنبھال لیتے ہیں اس لیے اسے ’گورنر راج‘ بھی کہا جاتا ہے۔

آئین کا حصہ دہم ایمرجنسی سے متعلق دفعات سے متعلق ہے جس میں آرٹیکل 232 سے 237 شامل ہیں۔ ان میں سے 3 آرٹیکل بہت اہم ہیں۔

ہنگامی حالت یا ایمرجنسی کی قیمت عام طور پر صوبہ ہی ادا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وفاقی حکومت اور حکومتِ پنجاب کے درمیان تصادم کے دوران ان دفعات کو بہت اہمیت حاصل ہوگئی ہے۔

آئین کا آرٹیکل 232 دو صورتوں میں ایمرجنسی لگانے کے حوالے سے ہے۔ پہلی صورت جنگ یا بیرونی جارحیت اور دوسری صورت ایسا داخلی خلفشار جس پر قابو پانا صوبے کی اہلیت سے باہر ہو۔ اگر صوبے میں داخلی خلفشار کے باعث ایمرجنسی نافذ کی جائے گی تو اس کے لیے صوبے کی اسمبلی ایک قرارداد منظور کرے گی۔ صدرِ مملکت بھی ایمرجنسی کا نفاذ کرسکتے ہیں لیکن اس صورت میں ایمرجنسی کے معاملے کو پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے سامنے پیش کیا جائے گا جنہوں نے 10 روز کے اندر اس کی منظوری دینی ہوگی۔

اس آرٹیکل کے تحت لگنے والی ایمرجنسی کے دوران صوبائی اسمبلی کام کرتی رہے گی اور پارلیمان کی جانب سے صوبے کے حوالے سے منظور کیے گئے قوانین کو دیگر صوبائی قوانین پر سبقت حاصل ہوگی۔ اس کے علاوہ صدرِ مملکت یا گورنر کے ذریعے وفاق کے عاملانہ اختیار کا اطلاق صوبے پر بھی ہوگا۔ تاہم ایمرجنسی کے دوران عدالتوں کے اختیار معمول کے مطابق رہیں گے۔

ایمرجنسی کے اعلان کیے جانے کے 30 روز کے اندر اس معاملے کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔ اس ایمرجنسی کی معیاد 2 ماہ ہوگی اور مشترکہ اجلاس میں اس کی توسیع کی منظوری دی جاسکتی ہے۔ اگر یہ منظوری نہ دی گئی تو 2 ماہ بعد ایمرجنسی ختم ہوجائے گی۔

اس آرٹیکل کے تحت لگنے والی ایمرجنسی کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ ایمرجنسی کے دوران پارلیمان قومی اسمبلی کی مدت میں ایک سال تک کی توسیع کرسکتی ہے تاہم یہ توسیع ایمرجنسی ختم ہونے کے بعد کسی صورت بھی 6 ماہ سے زیادہ نہیں رہے گی۔

آئین کا آرٹیکل 233 یہ وضاحت کرتا ہے کہ صدرِ مملکت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ ایمرجنسی کے اعلان کے ساتھ ہی کچھ بنیادی حقوق کو معطل کردیا جائے۔

آئین کا آرٹیکل 234 صوبے میں آئینی مشینری کی ناکامی کی صورت میں ایمرجنسی لگانے کے اختیار کے بابت ہے۔ شاید یہی وہ آرٹیکل ہے جس کے بارے میں صوبوں کو خدشات ہوتے ہیں۔ یہ ایمرجنسی اس صورت میں لگتی ہے جب صدرِ مملکت کو صوبائی گورنر کی جانب سے یہ رپورٹ ملے کہ صوبائی حکومت اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری نہیں کررہی اور صدرِ مملکت اس رپورٹ سے مطمئن ہوجائے۔

ایسی صورت میں پارلیمان کے دونوں ایوان ایمرجنسی لگانے کے مطالبے پر مبنی علیحدہ علیحدہ قراردادیں منظور کریں گے جس کے بعد صدرِ مملکت ایمرجنسی لگانے کے پابند ہوں گے۔ ایمرجنسی کے دوران عدالتوں کے اختیارات بحال رہیں گے۔

آرٹیکل 234 کے تحت ایمرجنسی کے اعلان کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔ یہ ایمرجنسی صرف 2 ماہ کے لیے لگائی جاسکتی ہے لیکن پارلیمان کا مشترکہ اجلاس اس میں مزید 2 ماہ کی توسیع کرسکتا ہے۔ مجموعی طور میں اس میں زیادہ سے زیادہ 6 ماہ کی توسیع کی جاسکتی ہے۔

اس آرٹیکل کے تحت ایمرجنسی لگانے کے بعد یہ اعلان بھی کیا جاسکتا ہے کہ صوبائی اسمبلی کے اختیارات اب پارلیمان کے پاس ہوں گے یا اس کے ماتحت ہوں گے۔ ایسی صورتحال میں اگر پارلیمان سیشن میں نہ ہو تو صدرِ مملکت پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے منظوری حاصل ہونے تک صوبائی مجموعی فنڈ سے اخراجات کی منظوری دے سکتا ہے۔

آئین کا آرٹیکل 235 مالی ایمرجنسی سے متعلق ہے جس میں صدر اس وقت ایمرجنسی کا اعلان کرتا ہے جب وہ گورنر (یا گورنروں) کے ساتھ مشاورت کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ اب ایسے حالات پیدا ہوچکے ہیں جس سے پاکستان یا اس کے کسی حصے کے مالی استحکام، اقتصادی زندگی اور ساکھ کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔

اس قسم کی ایمرجنسی کے نافذ العمل ہونے کے بعد وفاق کا انتظامی اختیار کسی بھی صوبے کو مالی معاملات کے حوالے سے ہدایات دینے پر بھی ہوگا۔ ان ہدایات میں صوبے یا وفاق کے لیے کام کرنے والے کچھ یا تمام افراد کی تنخواہوں اور مراعات میں کمی کی ہدایت بھی شامل ہوسکتی ہے۔

اس قسم کی ایمرجنسی کے اعلان کو بھی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کے سامنے رکھنا ضروری ہے اور آرٹیکل 234 کے تحت لگنے والی ایمرجنسی کی طرح اس میں بھی 6 ماہ تک توسیع کی جاسکتی ہے۔


یہ مضمون 25 دسمبر 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

احمد بلال محبوب

لکھاری پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے صدر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔