پاکستان

اسلام آباد: پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری دو روزہ جسمانی ریمانڈ پرپولیس کے حوالے

کوئی شک نہیں کہ فواد چوہدری نے الیکشن کمیشن کے سیکریٹری اور ورکرز کے حوالے سے بات کی، ان کا کیس نفرت پھیلانے کا ہے، وکیل الیکشن کمیشن

اسلام آباد کی مقامی عدالت نے اداروں کے خلاف اکسانے کے الزام میںگرفتار پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مرکزی رہنما فواد چوہدری کو دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔

اسلام آباد کے ڈیوٹی مجسٹریٹ نوید خان نے پولیس کی استدعا پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے فواد چوہدری کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کر لیا۔

عدالت نے پولیس کو حکم دیا کہ فواد چوہدری کو 27 جنوری کو دوبارہ پیش کریں۔

اس سے قبل جب اسلام آباد کی مقامی عدالت میں پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کے جسمانی ریمانڈکے معاملے کی سماعت کا آغاز ہوا تو تحریک انصاف کے کارکنان کے رش اور کمرہ عدالت چھوٹا ہونے کے باعث کمرہ عدالت تبدیل کیا گیا۔

سماعت کے موقع پر فواد چوہدری کے وکلا فیصل چوہدری، علی بخاری اور قیصر امام کے ساتھ ساتھ مصطفیٰ نواز کھوکھر اور عامر محمود کیانی بھی عدالت میں موجود تھے۔

کمرہ عدالت میں رش دیکھتے ہوئے ڈیوٹی مجسٹریٹ نوید خان نے کہا کہ بتائیں جگہ کہاں ہے کہ فواد چوہدری کو کمرہ عدالت میں لایا جاسکے؟۔

فیصل چوہدری نے کہا کہ فواد چوہدری کدھرہیں؟ گاڑی کدھر ہے؟ ہم انہیں لے آتے ہیں؟ اس پر جج نے ریمارکس دیے کہ کمرہ عدالت میں جگہ بنے گی تو ہی فواد چوہدری کو لائیں گے۔

ڈیوٹی مجسٹریٹ کے بار بار ریمارکس کے باوجود کمرہ عدالت کھچا کھچ بھرا ہونے کے سبب ڈیوٹی مجسٹریٹ اٹھ کر کمرہ عدالت سے چلے گئے۔

فواد چوہدری عدالت میں پیش

بعدازاں فواد چوہدری کو کمرہ عدالت میں پہنچا دیا گیا اور پولیس نے فواد چوہدری کو ڈیوٹی جج نوید خان کے روبرو پیش کردیا۔

فواد چوہدری نے روسٹرم پر آ کر کہا کہ پورے اسلام آباد کی پولیس کو یہاں لگایا ہوا ہے، عدالت کے باہر تقریباً 1500 پولیس والے موجود ہیں، مجھے ہتھکڑیاں لگائی گئی ہیں حالانکہ میں سپریم کورٹ کا وکیل ہوں۔

اس موقع پر پی ٹی آئی وکلا نے فواد چوہدری کی ہتھکڑی کھولنے کی استدعا کردی جبکہ تفتیشی افسر کی جانب سے 8 دن کے ریمانڈ کی استدعا کی گئی۔

الیکشن کمیشن کے وکیل سعد حسن نے مقدمے کا متن پڑھتے ہوئے کہا کہ فواد چوہدری نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی حالت اس وقت منشی کی ہے۔

پی ٹی آئی رہنما نے لقمہ دیا کہ تو الیکشن کمیشن کی حالت منشی کی بنی ہوئی ہے جس پر ڈیوٹی جج نے فواد چوہدری کو بیچ میں ٹوکنے سے منع کردیا۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن پاکستان ایک آئینی ادارہ ہے، یہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت رجیم چینج کا بیانیہ بنایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ فواد چوہدری نے دھمکی آمیز اور اکسانے والے بیان سے الیکشن کمیشن کی ساکھ کو نقصان پہنچایا، یہ تقریر ایک گروپ کو دوسرے گروپ کے خلاف اکسانے کے لیے کی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کو متعدد خطوط موصول ہوئے جس میں الیکشن کمیشن کو دھمکایا گیا ہے، آج پہلا ریمانڈ لیا جا رہا ہے، تفتیش ابھی شروع تک نہیں ہوئی، فواد چوہدری کی تقریر کرنے کا مقصد سب کو اکسانا تھا۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ فواد چوہدری نے کہاکہ الیکشن کمیشن کے گھروں تک پہنچیں گے، اس کا مقصد الیکشن کمیشن کے خلاف نفرت کو فروغ دینا تھا، وہ اس تقریر پر اب بھی کھڑے ہیں اور ان کی طرف سے اس کی تردید نہیں کی گئی، میں الزامات پڑھ رہا تھا تو فواد چوہدری ان شاللہ، ماشااللہ کہہ رہے تھے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل کی جانب سے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کرتے ہوئے کہا گیا کہ فواد چوہدری کے خلاف کافی الیکٹرونک مواد موجود ہے، انہوں نے جو تقریر میں کہا وہ مانا بھی ہے۔

میں جو بات کروں وہ میری پارٹی کی پالیسی ہوتی ہے، فواد چوہدری

دوران سماعت فواد چوہدری نے ایف آئی آر خارج کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایف آئی آر قانون کے مطابق ہی نہیں ہے، انہوں نے تنقید کرنے پر مجھ پر غداری کا الزام لگا دیا ہے، اس طرح تو جمہوریت اور آزادی اظہار رائے ختم ہو جائے گی، میں جو بات کرتا ہوں پارٹی کی طرف سے کرتا ہوں، میں پارٹی کا ترجمان ہوں۔

انہوں نے کہا کہ بغاوت کی دفعہ بھی مقدمے میں شامل کردی گئی ہے، مجھے بھگت سنگھ اور نیلسن منڈیلا کی صفت میں شامل کر دیا گیا ہے، آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والوں کے خلاف بھی ایسی ہی باتیں ہوتی تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میرے خلاف تو مقدمہ بنتا ہی نہیں ہے، ایسے تو جمہوریت ختم ہو جائے گی، کوئی تنقید نہیں کر پائے گا، میں تحریک انصاف کا ترجمان ہوں، میں جو بات کروں وہ میری پارٹی کی پالیسی ہوتی ہے، ضروری نہیں کہ جو میں بات کروں وہ میرا ذاتی خیال ہو۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ الیکشن کمیشن نہ ملک کی اسٹیٹ ہے نہ حکومت، اگر الیکشن کمیشن پر تنقید نہیں کرسکتے تو مطلب کسی پر تنقید نہیں کرسکتے، مدعی وکیل کا مطلب ہے کہ تنقید کرنا بغاوت ہے، میں تقریر کر ہی نہیں رہا تھا بلکہ میں میڈیا ٹاک کر رہا تھا۔

انہوں نے کہا کہ میری باتیں غلط کوٹ کی گئی ہیں، میں نے کہا تھا کہ نفرتیں نہ پھیلائیں ورنہ لوگ ذاتی لیول پر آجائیں، مجھے لاہور پولیس نے گرفتار کیا اور میرا موبائل قبضے میں لیا، لاہور پولیس نے مجھے اسلام آباد پولیس کے حوالے کیا۔

فواد چوہدری نے کہا کہ میں سینئر وکیل ہوں، پارلیمنٹیرین ہوں، تحریک انصاف کا ترجمان ہوں، میں دہشت گرد نہیں کہ مجھے سی ٹی ڈی میں رکھا گیا، تفتیشی افسر نے مجھ سے کوئی تفتیش نہیں کی۔

فواد چوہدری نے کیس سے ڈسچارج کرنے کی عدالت سے استدعا کرتے ہوئے مزید کہا کہ میری گرفتاری غیرقانونی ہے، افسوس ہے کہ ملکی سیاست میں اپنے مخالفین پر کیس بنائے جارہے، ہم سیاست میں کبھی اوپر تو کبھی نیچے ہوتے ہیں۔

پی ٹی آئی رہنما کے وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ تفتیشی افسر نے کیا برآمد کرناہے؟ جسمانی ریمانڈ مخصوص تفتیش کے لیے لیا جاتا ہے۔

فواد چوہدری کے دوسرے وکیل علی بخاری نے جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اللہ کے بعد آپ انصاف کرنے والے ہیں، میں نے اپنی زندگی میں اتنے قابل انسان کو ہتھکڑی میں نہیں دیکھا۔

ان کا کہنا تھا کہ فواد چوہدری کو لاہور سے گرفتار کرنے کو تسلیم کیا گیا، اگر مدعی مقدمے کی بات مان لی جائے تو مقدمہ تو لاہور میں ہونا چاہیے تھا، قانون کے مطابق مقدمہ وہاں ہوتا ہے جہاں جرم کیا جاتا ہے، ایسا نہیں کہ قتل لاہور میں تو مقدمہ کراچی میں کیا جا رہا ہو۔

انہوں نے سوال کیا کہ پولیس نے گزشتہ 24 گھنٹوں میں کیا تفتیش کی ہے؟ دہشت گردی کا کیس ہے نہیں، پراسیکیوشن نے آخر کرنا کیا ہے، عدالت ضرور دیکھے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں کیا تفتیش ہوئی ہے۔

وکیل علی بخاری نے پراسیکیوشن کی جانب سے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی مخالفت کرتے ہوئے سوال کیا کہ کیا اسلام آباد پولیس نے اسلام آباد انتظامیہ سے اجازت لی؟ بس بندہ اٹھا کر لے ائے۔

فواد چوہدری نے مزید کہا کہ تفتیشی افسر نے کہا کہ مجھے گھر سے گرفتار کیا، تفتیشی افسر سے میرے گھر کے گیٹ کا رنگ پوچھ لیں۔

اس موقع پر پراسیکیوشن نے استدعا کی کہ فواد چوہدری کے موبائل اور لیپ ٹاپ سمیت دیگر ڈیوائسز برآمد کرنی ہیں، فواد چوہدری کا فوٹو گرامیٹک ٹیسٹ اور وائس میچ کروانا ہے، فواد چوہدری کا ایک گھر لاہور اور دوسرا اسلام آباد میں ہے۔

فواد چوہدری کے تیسرے وکیل قیصر امام نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ میں حیران ہوں کہ الیکشن کمیشن کے کسی رکن نے خوف محسوس کرنے کا بیان دیا ہو، معلوم نہیں کہ سیکریٹری الیکشن کمیشن نے کیسے الیکشن کمیشن کے ملازمین کا دماغ پڑھ لیا۔

انہوں نے کہا کہ عدالت نے دیکھنا ہے کہ کون سی دفعات مقدمہ میں لگتی ہیں اور کون سی نہیں، اندراجِ مقدمہ کے حوالے سے سب سے پہلا اعتراض اٹھاتا ہوں، کیا کسی کے کہنے پر مقدمہ درج کیا جا سکتا ہے؟۔

وکیل نے مزید کہا کہ فواد چوہدری نے جو بیان دیا وہ تھانہ کوہسار کی حدود میں تھا ہی نہیں، جہاں پر بیان دیا گیا صرف وہی متعلقہ تھانے کا دائرہ اختیار ہے، فواد چوہدری نے اسلام آباد میں بیان نہیں دیا، ان کے خلاف مقدمےمیں 4 دفعات لگائی گئی ہیں۔

اس موقع پر فواد چوہدری کے وکیل نے جاوید لطیف کے خلاف مقدمات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جاوید لطیف کے خلاف پشاور لاہور مقدمات پر ہائی کورٹ نے ایک رائے دی ہے، جاوید لطیف کے کیسز میں بالکل اسی کیس کی طرح کی صورت حال تھی، عدالت نے ابزرو کیا تھا کہ ایک بندہ اسلام آباد بیٹھ کر کوئی تقریر کرتا ہے تو اس کے خلاف کسی اور شہر میں مقدمہ کیسے درج ہوسکتا ہے۔

وکیل قیصر امام نے کہا کہ کیا فواد چوہدری نے نسل زبان یا مذہب کی بنیاد پر نفرت پھیلائی؟ نہیں!، ہم تمام ریاست میں حق دار ہیں، کوئی ایک فرد ریاست کےاداروں پرحق نہیں جما سکتا، پراسیکیوشن کے پاس فواد چوہدری کے خلاف بنائے گئے مقدمے کا کیا ثبوت ہے؟۔

انہوں نے کہا کہ فواد چوہدری ایمان داری سےسمجھتے ہیں کہ چند چیزیں درست نہیں، سیکریٹری الیکشن کمیشن اکیلے الیکشن کمیشن کی نمائندگی نہیں کرسکتے، فواد چوہدری نے سیکریٹری الیکشن کمیشن کو دھمکی نہیں دی، کسی کے گھر کا پتا دے کر دھمکی نہیں دی۔

انہوں نے کہا کہ 500 میل دور بیٹھ کر لوگ ہراساں ہونا شروع ہو جائیں تو کیا کیا جائے، تفتیشی عمل میں خلل بالکل پیدا نہیں کرنا چاہتے، فواد چوہدری اپنے بیان سے منحرف تو نہیں ہو رہے، جب وہ اپنا بیان مان رہے ہیں تو کیوں وائس میچ ٹیسٹ کروانا ہے۔

پروسیکیوٹر نے کہا کہ وائس میچ اور فوٹوگرامیٹک ٹیسٹ تفتیش میں ضروری ہے، فواد چوہدری کا موبائل تحویل میں لینا بھی ضروری ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ عدالت کو تھکا کر فیصلہ لینے کی کوشش کی جا رہی ہے، کوئی شک نہیں کہ فواد چوہدری نے کن لوگوں کے حوالے سے بات کی، انہوں نے الیکشن کمیشن کے سیکریٹری اور ورکرز کے حوالے سے بات کی۔

انہوں نے کہا کہ فواد چوہدری کا کیس عام نہیں، ان کا کیس نفرت پھیلانے کا ہے، فواد چوہدری کے ساتھ دیگر افراد بھی ملوث ہیں۔

اس پر فواد چوہدری نے کہا کہ اگر دیگر لوگ بھی ملوث ہیں تو ان پر بھی پرچہ کریں نا۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ لیپ ٹاپ، موبائل اور فوٹوگرامیٹک ٹیسٹ فواد چوہدری کی معاونت سے حل ہوگا۔

عدالت نے فواد چوہدری کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا پر ڈیوٹی مجسٹریٹ نوید خان نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔

فیصلہ محفوظ ہونے کے بعد فواد چوہدری نے اپنے وکلا اور اہلیہ سے ملاقات کی اور کمرہ عدالت میں غیررسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو اکٹھا کرنے کی ضرورت ہے لیکن یہ احمق لوگ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ عمران خان کو اکیلا کرنا چاہتے ہیں، پارٹی میں جو بھی بولتا ہے اسے گرفتار کرلیا جاتا ہے، پہلے شہباز گل، پھر اعظم سواتی اور اب مجھے گرفتار کیا گیا ہے۔

راہداری ریمانڈ کی درخواست پر سماعت

اس سے قبل لاہور میں فواد چوہدری کے راہداری ریمانڈ کے لیے درخواست پر مقامی عدالت میں سماعت ہوئی جہاں شروع میں ہی سابق وزیر اطلاعات نے فاضل جج سے ایف آئی آر کی کاپی فراہم کرنے کی استدعا کی اور عدالتی حکم پر پی ٹی آئی رہنما کو مقدمے کی کاپی دے دی گئی۔

دوران سماعت تفتیشی افسر عدالت کے روبرو پیش ہوئے، اس دوران پی ٹی آئی رہنما حماد اظہر بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

فواد چوہدری نے عدالت میں بیان دیا کہ جو مقدمہ مجھ پر درج ہوا ہے اس پر فخر ہے، نیلسن منڈیلا پر بھی یہی مقدمہ تھا۔

انہوں نے کہا کہ کہا جارہا ہے میں نے بغاوت کی، میں نے الیکشن کمیشن سے متعلق جو بات کی سارا پاکستان وہی بات کر رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں سابق وفاقی وزیر اور سپریم کورٹ کا وکیل ہوں، مجھے عزت و احترام کے ساتھ ٹریٹ کیا جائے، جس طرح گرفتار کیا گیا وہ مناسب نہیں تھا، مجھے یہ فون کرتے میں خود ہی آ جاتا۔

دوران سماعت عدالت نے فواد چوہدری کے میڈیکل کرانے کی ہدایت کردی۔

تحریک انصاف کے وکلا نے فواد چوہدری کی ہتھکڑیاں کھولنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ فواد چوہدری کی حبس بےجا کی درخواست ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے، جب تک ہائی کورٹ کا فیصلہ نہیں آجاتا یہ عدالت راہداری ریمانڈ کی درخواست پر سماعت نہ کرے۔

سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کی گئی جس کے بعد جوڈیشل مجسٹریٹ نے فواد چوہدری کا سروسز ہسپتال سے میڈیکل کرانے کا حکم دے دیا۔

عدالت کی جانب سے حکم دیا گیا کہ میڈیکل کے بعد فواد چوہدری کو آج ہی اسلام آباد کی متعلقہ عدالت میں پیش کیا جائے۔

جوڈیشل مجسٹریٹ کی جانب سے پولیس کی راہداری ریمانڈ کی درخواست نمٹائے جانے کے بعد پولیس حکام فواد چوہدری کو لے کر عدالت سے اسلام روانہ ہوگئے۔

فواد چوہدری کی گرفتاری

قبل ازیں پی ٹی آئی کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے کی جانی والی ٹوئٹ میں کہا گیا تھا کہ ’فواد چوہدری کو درجنوں پولیس، محکمہ انسداد دہشت گردی اور نامعلوم گاڑیوں کے حصار میں کینٹ کچہری کی طرف روانہ کر دیا گیا ہے‘۔

اسلام آباد پولیس کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا تھا کہ ’فواد چوہدری نے آئینی اداروں کے خلاف شرانگیزی پیدا کرنے اور لوگوں کے جذبات مشتعل کرنے کی کوشش کی ہے، مقدمے پر قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جارہی ہے‘۔

ٹوئٹر پر جاری بیان میں اسلام آباد پولیس کا کہنا تھا کہ سیکریٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان کی درخواست پر تھانہ کوہسار میں درج کیا گیا ہے، فواد چوہدری نے چیف الیکشن کمشنر اور اراکین کو ان کے فرائض منصبی سے روکنے کے لیے ڈرایا دھمکایا۔

واضح رہے کہ گزشتہ شب چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی گرفتاری کے مبینہ حکومتی منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے پی ٹی آئی کارکنان عمران خان کی زمان پارک رہائش گاہ کے باہر جمع ہوئے تھے جس کے چند گھنٹوں بعد پی ٹی آئی کی جانب سے فواد چوہدری کی گرفتاری کا دعویٰ سامنے آیا تھا۔

تحریک انصاف کی جانب سے فواد چوہدری کی بازیابی کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی لیکن لاہور ہائی کورٹ نے ان کی بازیابی کے لیے دائر درخواست خارج کردی۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے درخواست گزار سے کہا تھا کہ اگر آپ مقدمے کا اخراج چاہتے ہیں تو اسلام آباد ہائی کورٹ فورم ہے، اگر یہ مقدمہ پنجاب میں ہوتا تو ہم دیکھ سکتے تھے کہ یہ مقدمہ درج بھی ہو سکتا تھا یا نہیں۔