نقطہ نظر

کوئی خصوصی بس سروس خواتین کے سفر کو محفوظ بناسکتی ہے؟

پاکستان میں خواتین کی کم تعداد سائیکل اور موٹر سائیکل پر سفر کو ترجیح دیتی ہے جبکہ اکیلے سفر کرنے کے لیے وہ رکشوں اور ٹیکسی کو بھی غیرمحفوظ سمجھتی ہیں۔

پاکستان میں خواتین روزانہ کی بنیاد پر بسوں اور بس اسٹاپس پر نامناسب جملوں اور جنسی ہراسانی کا سامنا کرتی ہیں۔ ہراسانی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی وجہ سے خواتین گھروں سے باہر نکلنے اور پبلک ٹرانسپورٹ کے استعمال میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں جو ان کے کام اور تعلیم کو جاری رکھنے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

2020ء میں شروع ہونے والی پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ سروس 23 سالہ ماہ جبین کے ماہرِ نباتیات بننے کا خواب پورا کرنے میں کافی مددگار ثابت ہوئی۔ ان کے والد نے انہیں اپنی پوسٹ گریجویٹ ڈگری مکمل کرنے کی اجازت اسی وجہ سے دی کیونکہ یہ بس ان کی یونیورسٹی کے دروازے کے سامنے رکتی تھی۔

ہمارے معاشرے میں طویل عرصے سے پبلک ٹرانسپورٹ کی منصوبہ بندی، ڈیزائن اور اس میں سرمایہ کاری کو مردوں کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مساوات یا جنس کے اعتبار سے سفر کی ضروریات اور تجربات کو فیصلہ سازی کے عمل میں بہت کم شامل کیا جاتا ہے۔ اس رجحان کو اس افرادی قوت سے مزید تقویت ملتی ہے جو زیادہ تر مردوں پر مشتمل ہے۔

لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر ہادیہ ماجد خواتین کے سفری رجحانات اور گھر سے باہر نکل کر کام کرنے سے اس کے تعلق پر تحقیق کررہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے پبلک ٹرانسپورٹ کے ڈیزائن میں خواتین کو درپیش ہراسانی کے مسئلے کو کبھی مدِنظر نہیں رکھا جاتا۔

ڈاکٹر ہادیہ نے وضاحت کی کہ عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی کُل افرادی قوت میں خواتین کی شرح 22 فیصد ہے (2015ء میں یہی شرح 24 فیصد تھی) اور یہ دنیا میں کم ترین شرح میں سے ایک ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ خواتین اکیلے پبلک بسوں میں سفر کرنے سے احتیاط کرتی ہیں۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ٹرانسپورٹ کے نظام اور دیگر شہری خدمات کو خواتین کو مدِنظر رکھ کر نہیں بنایا جاتا۔

پاکستان میں خواتین کی بہت کم تعداد سائیکل اور موٹر سائیکل پر سفر کو ترجیح دیتی ہیں جبکہ اکیلے سفر کرنے کے لیے وہ رکشوں اور ٹیکسی کو بھی غیرمحفوظ سمجھتی ہیں۔ بسوں اور وینوں میں خواتین کا حصہ مختص تو ہوتا ہے لیکن وہاں بھی وہ خود کو کسی بھی طرح کی ناخوشگوار صورتحال کے لیے ذہنی طور پر تیار رکھتی ہیں۔

انہیں وجوہات کی بنا پر پبلک ٹرانسپورٹ کے حوالے سے ان کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور بہت سے واقعات میں تو ان کے گھر والے ہی انہیں پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے سے روکتے ہیں۔

درحقیقت اگر ہماری پبلک ٹرانسپورٹ خواتین کے لیے محفوظ اور کارآمد ہوتیں تو حکومتِ سندھ کو کراچی میں صرف خواتین کے لیے مخصوص بسیں متعارف کروانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ رواں مہینے ہی ان بسوں کا آغاز ہوا ہے۔

9 میٹر لمبی، جدید کیمروں سے لیس گلابی رنگ کی یہ 6 بسیں ابتدائی طور پر ماڈل ٹاؤن سے ٹاور تک چلائی جارہی ہیں۔ یہ بسیں شاہراہِ فیصل، میٹروپول اور شہر کے کاروباری مرکز آئی آئی چندریگر روڈ سے گزرتی ہیں۔ یہ رش کے اوقات میں یعنی صبح 7 سے 10 بجے اور پھر شام 4 سے 7 بجے کے درمیان 20 منٹ کے وقفے سے آتی ہیں اور مسافروں کو 50 روپے کرائے میں ان کی مطلوبہ منازل تک پہنچاتی ہیں۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب کسی صوبے نے خواتین کے لیے خصوصی بس سروس شروع کی ہو۔ 2012ء میں پنجاب ٹرانسپورٹ کمپنی نے ایسی ہی ایک بس سروس شروع کی تھی جو 2014ء میں بند کردی گئی۔

کراچی میں جہاں خواتین کی بڑی تعداد روزانہ ہراسانی کا سامنا کرتی ہیں ایسے میں حکومتِ سندھ کے اس اقدام کا ڈاکٹر ہادیہ ماجد نے خیر مقدم کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومتِ سندھ کو چاہیے کہ وہ پنجاب میں اس سروس کی ناکامی کی وجوہات کا ادراک کریں اور ان کوتاہیوں سے گریز کرے۔

ان خصوصی بسوں کے ذریعے خواتین میں تعلیم کے رجحان میں اضافہ ہوگا جبکہ بسوں کا روٹ تعلیمی اداروں کا انتخاب کرنے میں ان کے لیے مددگار ثابت ہوگا۔ ان بسوں کی وجہ سے خواتین اپنے گھروں سے قریب نوکریوں کی تلاش کرنے کے بجائے دور دراز کے علاقے بھی منتخب کرسکتی ہیں۔

کراچی میں نئی پنک بس سروس کو کامیاب بنانے کے لیے تسلسل کے ساتھ منصوبہ بندی کی ضرورت ہوگی۔ وژن 2025ء میں افرادی قوت میں خواتین کی شمولیت کی شرح کو 45 فیصد تک بڑھانے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ اگر یہ ہدف پورا کرنا ہے تو تمام حکومتوں کو اس طرح کی بس سروسز کو جاری رکھنا ہوگا۔

اس بس سروس کا ایک منفی پہلو بھی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم ناخوشگوار وجوہات جیسے مردوں کے رویے پر اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرنے کے بجائے اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ خواتین کے ہراسانی کے معاملے کو حل کرنے کے لیے مضبوط اقدامات کی ضرورت ہے۔ خواتین کی جانب سے سوشل میڈیا پر آواز اٹھانے سے مردوں کا غیرمہذب رویہ درست نہیں ہوسکتا۔ ریاست کی جانب سے ہراسانی کے جرائم کے مرتکب افراد کو سخت سزا دی جانی چاہیے۔

ڈاکٹر ہادیہ ماجد نے مزید کہا کہ اس طرح کے اقدامات میں یہ خطرہ ہے کہ شاید ان سے معاشرے میں علیحدگی کے تصور کو تقویت ملے کہ خواتین اور مردوں کا مقام الگ ہے اور یہ دونوں آپس میں نہیں مل سکتے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ ہمیں شراکت کی جانب بڑھنے کی ضرورت ہے۔

تاہم بنیادی ڈھانچے میں بہتری لائے بغیر صرف خصوصی بس سروس فراہم کرکے خواتین کے سفر کو محفوظ بنانے میں سرمایہ کاری کرنا ہماری غلطی ہوگی۔ اس حوالے سے ماہرین کا موقف ہے کہ گھروں سے اسٹاپ تک آنے کے لیے بھی خواتین کو ذرائع میسر کیے جائیں تاکہ ان کی اس پیدل مسافت کو بھی محفوظ بنایا جاسکے۔

مزیدبراں، سڑکوں اور بس اسٹاپ پر روشنی کا انتظام کرنے، سنسان سڑکوں پر پولیس کے گشت کو مؤثر بنانے اور عوامی بیت الخلا کو بہتر بنانے سے سفر کو کافی حد تک محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔

اس نظام میں تبدیلی لانے کے لیے ایک اور چیز بھی مددگار ثابت ہوسکتی ہے اور وہ یہ کہ عوامی ٹرانسپورٹ کے شعبہ جات میں جہاں مرد حاوی ہیں وہاں خواتین کو بھی شامل کیا جائے۔ خواتین کو اگر اختیارات دے دیے جائیں تو فیصلہ سازی کے عمل میں جنسی تفریق کا عنصر کافی حد تک کم ہوگا۔


یہ مضمون 11 فروری 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ذوفین ابراہیم

ذوفین ابراہیم فری لانس جرنلسٹ ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: zofeen28@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔