پاکستان

پنجاب میں انتخابات کا معاملہ، چیف جسٹس سے سوموٹو کارروائی کی درخواست

جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر اکبر نقوی پر مشتمل بینچ نے کہا یہ معاملہ بنیادی حقوق کے حوالے سے عوامی اہمیت کا سنجیدہ سوال اٹھاتا ہے۔

سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے پنجاب میں مقررہ مدت میں انتخابات کی تاریخ کے اعلان میں تاخیر پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے معاملہ ازخود نوٹس کی کارروائی کے لیے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو بھجوا دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عدالتی بینچ نے کارروائی کے بعد جاری کردہ چھ صفحات پر مشتمل حکم نامے میں رجسٹرار آفس کو معاملے کو چیف جسٹس کے سامنے رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان مناسب سمجھیں تو آرٹیکل 184 (3) کے تحت دائرہ اختیار استعمال کرتے ہوئے اس معاملے کو اٹھانے کے لیے ایک بینچ تشکیل دے سکتے ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی پر مشتمل بینچ نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ عدالتی کارروائیوں کے دوران ہمارے نوٹس میں لایا گیا معاملہ آئین کے پارٹ 2 کے باب 1 کے مطابق بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے عوامی اہمیت کا ایک سنجیدہ سوال اٹھاتا ہے۔

خیال رہے کہ لاہور پولیس کے سربراہ غلام محمود ڈوگر کے تبادلے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران انتخابات کا معاملہ زیر گفتگو آیا تھا اور اس پر (آج) جمعہ کو دوبارہ سماعت ہو گی، تاہم آج کی سماعت میں جسٹس منیب اختر بھی بینچ کے ارکان میں شامل ہوں گے۔

چیف الیکشن کمشنر (سی ای سی) سکندر سلطان راجا جنہیں عدالت نے طلب کیا تھا انہیں بھی جمعہ کو پیش ہونا ہے کیونکہ ان کی حاضری سے استثنیٰ دینے کی درخواست پر غور نہیں کیا گیا۔

یہ مسلسل دوسرا روز تھا جب پنجاب میں انتخابات کا معاملہ کارروائی کے دوران سامنے آیا۔

اس سے قبل بدھ کو چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ نے انتخابات کی تاریخ میں تاخیر پر حیرت کا اظہار کیا تھا۔

عدالتی حکم نامے میں کہا گیا کہ چونکہ پنجاب میں انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے حوالے سے کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی، اس لیے آئینی حکم کی واضح اور غیر مبہم خلاف ورزی کا خطرہ ہے۔

سماعت کے دوران چیف الیکشن کمشنر نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے اختیارات کو کم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے جب استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن نے حکومت کو ان مشکلات سے آگاہ کیا ہے تو انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔

قبل ازیں، اٹارنی جنرل فار پاکستان (اے جی پی) شہزاد عطا الہٰی نے استدلال کیا تھا کہ وفاقی حکومت کا درخواست گزار (غلام محمود ڈوگر) کے حالیہ تبادلے سے کوئی لینا دینا نہیں۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ درخواست گزار کے تبادلے سے متعلق 23 جنوری 2023 کو جاری کردہ نوٹی فکیشن میں سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ لاہور کو رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی تھی جو گورنر نے جاری کیا تھا۔