پاکستان

نیب ترامیم کیس: نیب جو رقم وصول کرتا ہے وہ کہاں جاتی ہے؟ سپریم کورٹ

ایک مثال یہ بھی ہے کہ ایک شخص نے پیسے واپس کردیے لیکن اس کے باوجود اسے جیل میں رکھا گیا، چیف جسٹس
|

سپریم کورٹ آف پاکستان نے قومی احتساب بیورو (نیب) ترامیم کے خلاف درخواست پر سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ نیب جو رقم وصول کرتا وہ کہاں جاتی ہے۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل بینچ نے نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کی۔

دوران سماعت وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ نیب نے کیسز سے متعلق جامع رپورٹ عدالت میں پیش نہیں کی، نیب ایک رپورٹ میں 221 ریفرنس اور دوسری میں 364 ریفرنس واپس بھیجے جانے کا بتا رہا ہے۔

وکیل نے کہا کہ نیب کی دونوں رپورٹس میں 143 ریفرنسز کا تضاد ہے جبکہ نیب کے مطابق 41 شخصیات کی بریت ہوئی، لہٰذا عدالت نیب سے احتساب عدالتوں سے واپس بھیجے جانے والے ریفرنسز کا ریکارڈ طلب کرے۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ نیب بتائے ان کیسز میں کتنے لوگ بری ہوئے، بری ہونے والوں میں سیاسی شخیصات کتنی ہیں۔

اس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ نیب کو یہ بھی علم نہیں ہے کہ ریفرنسز 221 بھیجے گئے ہیں یا 364۔

چیف جسٹس نے کہا کہ نیب کو یہ بھی معلوم نہیں ہوگا ان ریفرنسز کی رقم کتنی ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان سے مکالمہ کیا کہ آپ خود کہتے رہے ہیں کہ نیب ماضی میں انتقام کے لیے استعمال ہوتا رہا۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ نیب چیئرمین اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے ہیں، وہ ایک بہترین ساکھ کے حامل پولیس افسر تھے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہمارے پاس ایک مثال یہ بھی ہے کہ ایک شخص نے پیسہ واپس کردیا لیکن اس کے باوجود اسے جیل میں رکھا گیا، لگتا ہے نیب قانون سے سب کو فائدہ پہنچایا گیا ہے۔

انہوں نے دلائل دیے کہ نیب نے نئے قانون میں واضح نہیں کیا کہ کیسز نے کہاں جانا ہے، اس سے متعلق کوئی ادارہ بھی نہیں بنایا گیا جبکہ واپس بھیجے جانے والے ریفرنسز کا کوئی کسٹوڈین بھی نہیں بنایا گیا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ یہ خوش قسمتی ہے کہ ہمارے پاس اس کا ڈجیٹل ریکارڈ موجود ہے۔

انہوں نے استفسار کیا کہ نیب جو رقم وصول کرتا وہ کہاں جاتی ہے اس پر وفاقی حکومت کے وکیل نے دلائل دیے کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی بھی اس سے متعلق بار بار پوچھ چکی ہے۔

وکیل مخدوم علی خان نے استفسار کیا کہ نیب ایکٹ 2022 کے تحت اب تک کسی کی بریت نہیں ہوئی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ نیب قانون کے علاوہ اور کون سے دیگر قانون لاگو ہو سکتے ہیں، اس پر وفاقی حکومت کے وکیل نے جواب دیا کہ اینٹی منی لانڈرنگ، ٹیکسیشن سمیت دیگر قانون موجود ہیں۔

بعد ازاں عدالت نے درخواست پر مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔

نیب ترامیم

خیال رہے کہ جون 2022 میں مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت اتحادی حکومت نے نیب آرڈیننس میں 27 اہم ترامیم متعارف کروائی تھیں، لیکن صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ان کی منظوری نہیں دی تھی، تاہم اس بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیا گیا اور بعد میں اسے نوٹیفائی کیا گیا تھا۔

نیب (دوسری ترمیم) بل 2021 میں کہا گیا ہے کہ نیب کا ڈپٹی چیئرمین، جو وفاقی حکومت کی جانب سے مقرر کیا جائے گا، چیئرمین کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد بیورو کا قائم مقام چیئرمین بن جائے گا، بل میں چیئرمین نیب اور بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل کی 4 سال کی مدت بھی کم کر کے 3 سال کردی گئی ہے۔

قانون کی منظوری کے بعد نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکے گا، مزید یہ کہ ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دیا گیا ہے۔

بل میں کہا گیا ہے کہ اس آرڈیننس کے تحت افراد یا لین دین سے متعلق زیر التوا تمام پوچھ گچھ، تحقیقات، ٹرائلز یا کارروائیاں متعلقہ قوانین کے تحت متعلقہ حکام، محکموں اور عدالتوں کو منتقل کی جائیں گی، بل نے احتساب عدالتوں کے ججوں کے لیے 3 سال کی مدت بھی مقرر کی ہے، یہ عدالتوں کو ایک سال کے اندر کیس کا فیصلہ کرنے کا پابند بھی بنائے گا۔

مجوزہ قانون کے تحت نیب کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ملزم کی گرفتاری سے قبل اس کے خلاف شواہد کی دستیابی کو یقینی بنائے، بل میں شامل کی گئی ایک اہم ترمیم کے مطابق یہ ایکٹ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے شروع ہونے اور اس کے بعد سے نافذ سمجھا جائے گا۔

چین: کوئلے کی کان بیٹھنے سے 4 مزدور ہلاک، درجنوں لاپتا

ایشیا میں موٹاپے اور ذیابطیس کی بڑھتی شرح کو کیسے روکا جائے؟

جاوید اختر کی میزبانی کرنے پر علی ظفر کو تنقید کا سامنا