دنیا

امریکا کی اسلحے کی برآمدات کی نئی پالیسی متعارف

کمرشل آرمز ٹرانسفر پالیسی میں انسانی حقوق پر زیادہ توجہ دی گئی ہے، ٹرمپ دور کی پالیسی کی حمایت کرتے ہوئے تجارتی تحفظات کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے اسلحے کی برآمد کی دیرینہ پالیسی کی نقاب کشائی کردی ہے جس میں انسانی حقوق پر زیادہ توجہ دی گئی ہے اور ٹرمپ دور کی پالیسی کی حمایت کرتے ہوئے تجارتی تحفظات کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق نئی کمرشل آرمز ٹرانسفر پالیسی سیکیورٹی معاونت، حکومت سے حکومت کے درمیان ہتھیاروں کی منتقلی اور امریکا میں تیار فوجی سازوسامان اور سروسز کی لائسنس یافتہ تجارتی فروخت کے ساتھ ساتھ محکمہ خارجہ، دفاع اور محکمہ تجارت کی نگرانی کا احاطہ کرتی ہے جس میں امریکا میں عام طور پر دستیاب آتشیں اسلحہ بھی شامل ہے۔

محکمہ خارجہ کے حکام نے کہا کہ ایک تبدیلی یہ ہے کہ کمرشل آرمز ٹرانسفر پالیسی اس امکان مسئلے کو حل کرتی ہے کہ امریکا سے ہتھیار انسانی حقوق کی بڑی خلاف ورزیوں کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں۔

نئی پالیسی کے تحت اگر محکمہ خارجہ اس بات کا اندازہ لگاتا ہے کہ ہتھیاروں کا استعمال نسل کشی، انسانیت سوز جرائم، جنیوا کنونشن کی خلاف ورزیوں یا بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزیوں کے ارتکاب یا سہولت کاری کے لیے کیا جائے گا، تو اسلحے کی منتقلی کی منظوری نہیں دی جائے گی۔

پچھلی پالیسی میں کہا گیا تھا کہ اس طرح کی منتقلی کی اجازت صرف اس صورت میں نہیں دی جائے گی جب واشنگٹن کو واقعی علم ہو کہ اسلحہ ایسی کارروائیوں میں استعمال کیا جائے گا۔

ایک عہدیدار نے بتایا کہ جب انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا خطرہ ہو تو ہم روک تھام کی پالیسی پر غور کر رہے ہیں، اگر سودے اور معاہدے ہونے کے بعد حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو پالیسی کے تحت ایسے سودوں کو منسوخ کردیا جائے گا۔

حکام نے ان ممالک یا ماضی کے سودوں کی وضاحت سے انکار کر دیا جن پر اس نئی پالیسی کا اطلاق ہو گا۔

یمن میں جنگ میں عام شہریوں کی ہلاکت پر وکلا طویل عرصے سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک کو ہتھیاروں کی فروخت پر سوال اٹھا رہے ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے مصر کا انسانی حقوق کا ریکارڈ ظالمانہ قرار دیے جانے کے باوجود بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے گزشتہ سال مصر کو ریڈارز اور طیاروں کی ممکنہ فروخت کی منظوری کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

کوئنسی انسٹی ٹیوٹ فار ریسپانسبل اسٹیٹ کرافٹ کے ایک سینئر ریسرچ فیلو ولیم ہارٹنگ نے ای میل پر اپنے بیان میں کہا کہ بدقسمتی سے بائیڈن انتظامیہ کا اب تک ان مسائل پر ملا جلا ریکارڈ رہا ہے، اگر وہ اپنے بیانات کے مطابق نئی پالیسی کا اطلاق کرنا چاہتی ہے تو اس کو اپنی روش بدلنا ہو گی۔

یہ تبدیلی چھوٹے ہتھیاروں جیسے ایسالٹ رائفلز کی برآمدات کو بھی متاثر کر سکتی ہے جو مقامی آبادی کے خلاف استعمال کی جا سکتی ہیں، اس میں سے کچھ سابق ریپبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے وقت سے محکمہ تجارت کے زیر انتظام ہیں۔

نئی پالیسی کی تیاری کئی ماہ سے جاری تھی اور 2021 میں یہ رپورٹس آئی تھیں کہ بائیڈن انتظامیہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے کمرشل آرمز ٹرانسفر پالیسی میں تبدیلی پر غور کر رہی ہے۔

امریکہ دنیا کا سب سے بڑا ہتھیاروں کا سوداگر ہے جو ہر سال تقریباً 150 ارب ڈالر کا اسلحہ، سروسز اور تنصیبات فروخت کرتا ہے۔