نقطہ نظر

گلگت بلتستان میں بیوروکریسی کا راج

گلگت بلتستان کے انتظامی معاملات میں عموماً فیصلہ سازی کے عمل میں مقامی نمائندوں سے مشاورت نہیں کی جاتی جس کے نتیجے میں خطے میں ترقیاتی کام رکاوٹ کا شکار ہیں۔

کشمیر کے ڈوگرہ حکمرانوں سے آزادی حاصل کرنے کے باوجود گلگت بلتستان آج بھی اپنے بنیادی حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کررہا ہے۔ گلگت بلتستان کا پیچیدہ سیاسی منظرنامہ مختلف عوامل کا نتیجہ ہے جن میں اس کا مسئلہ کشمیر کے ساتھ تعلق بھی شامل ہے۔ اس وجہ سے خطے کو آئینی تعطل کی صورتحال کا سامنا ہے۔

اس کی مبہم حیثیت اور پاکستانی ریاست کے سلوک نے گلگت بلتستان کی سیاسی ترقی کو روک دیا ہے۔ ابتدا سے بااختیار چیف سیکریٹریز اور فیصلہ سازی کے دیگر اہم عہدوں پر فائز لوگوں کی وجہ سے اس خطے میں بیوروکریسی کے اثرورسوخ کا باخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ پاکستان نے 1947ء میں ایک جونیئر ریاستی افسر کو پولیٹیکل ایجنٹ کے طور پر گلگت بھیجا تھا۔ اس افسر کو اداروں اور محکموں کے تمام اختیارات حاصل تھے اور یوں پورے خطے کے معاملات اس کے ہاتھ میں تھے۔

1947ء سے 1970ء کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے سرحدی اصلاحات متعارف کروانے تک، اس علاقے کے معاملات براہِ راست وفاق سنبھالتا تھا۔ درحقیقت ذوالفقار علی بھٹو کی اصلاحات سے بیوروکریسی کا کردار مضبوط ہوا۔ 2009ء کے سیلف گورننس آرڈر میں واضح کیا گیا تھا کہ فیصلہ سازی کے اختیارات مقامی سطح پر منتخب ہونے والے نمائندوں کو منتقل کیے جائیں۔ اس آرڈر کے باوجود وہاں اب بھی ذوالفقار علی بھٹو کی متعارف کردہ اصلاحات ہی رائج ہیں۔

گلگت بلتستان کے انتظامی معاملات میں اب بھی بیوروکریسی ہی طاقتور ترین ادارہ تصور کیا جاتا ہے۔ عموماً فیصلہ سازی کے عمل میں مقامی نمائندوں سے مشاورت نہیں کی جاتی جس کے نتیجے میں خطے کی ترقی میں رکاوٹیں آتی ہیں۔

2009ء کے سیلف گورننس آرڈر کے بعد یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ وفاق سے اختیارات مقامی اسمبلی کو منتقل ہوجائیں گے تاہم ایسا نہیں ہوسکا۔ اب بھی متعدد معاملات میں سیکریٹریز کو ہی فیصلہ کرنے کا اختیار ہے۔ مقامی انتظامیہ کی عدم موجودگی کے باعث پیدا ہونے والا خلا بھی بیوروکریسی ہی پُر کررہی ہے۔ ان کے افسران میونسپل حکام کے ذمہ کام بھی خود سرانجام دیتے نظر آتے ہیں (جیسے کہ پُلوں پر رنگ، اسٹریٹ لائٹس کی تنصیب اور سڑکوں کو بہتر بنانے وغیرہ)۔

لیکن کبھی کبھار ان کے اقدامات کی وجہ سے تناؤ بھی پیدا ہوتا ہے۔ ایک واقعے میں گوجال کے اسسٹنٹ کمشنر کی ریسٹورنٹ کو سیل کرنے کا حکم دیتے ہوئے ویڈیو سامنے آئی۔ ریسٹورنٹ کے مالک کے ساتھ اسسٹنٹ کمشنر کے تلخ اور دھمکی آمیز رویے کی یہ ویڈیو کافی وائرل ہوئی۔ البتہ مقامی لوگوں کے احتجاج کے بعد چیف سیکریٹری نے اس ریسٹورنٹ کو دوبارہ کھولنے کا حکم دیا۔

حالیہ چند برسوں میں گلگت بلتستان میں کم آبادی پر مشتمل اضافی اضلاع کا قیام عمل میں آیا ہے۔ گمان ہوتا ہے جیسے بیوروکریسی کی سہولت کے لیے یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔ اس طرح مزید اسسٹنٹ کمشنر اور ڈپٹی کمشنرز اور اضلاع میں انتظامی عملے کو بھرتی کرکے ان کی تنخواہ، مراعات اور الاؤنسز کی صورت میں خطے کے پہلے سے قلیل بجٹ پر مزید بوجھ ڈالا جائے گا۔ جبکہ اضلاع میں پہلے ہی بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔

وفاق کی جانب سے تقرر کردہ بیوروکریسی ایک مضبوط اور متوازی انتظامی کردار ادا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گلگت بلتستان کے لینڈ ریفارمز کے اہم موضوع پر ان کی جانب سے 2 روزہ کانفرنس کا انعقاد کرنا کوئی حیران کُن بات نہیں ہے۔ اگرچہ چیف سیکریٹری نے اعلان کیا ہے کہ تجاویز کو عوام کے سامنے لایا جائے گا لیکن اس پوری بحث اور غور و فکر کے عمل میں مقامی نمائندوں کی عدم موجودگی کئی سوالیہ نشان کھڑے کررہی ہے۔

گلگت بلتستان سپریم ایپلیٹ کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر احسان علی نے کے مطابق اپنی طاقت اور اختیارات کا استعمال نہ کرنا کابینہ کی کمزوری ہے۔ انہوں نے موقف اپنایا کہ اس معاملے پر اسمبلی میں بحث ہونی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’سیکریٹریز میں سے زیادہ تر کا تعلق پاکستان کے مختلف علاقوں سے ہے اور وہ لوگوں اور دیہاتوں میں اراضی کی تقسیم کی تاریخی اور مقامی روایات سے بھی ناآشنا ہیں‘۔

پاکستان میں آنے والی تمام حکومتوں نے گلگت بلتستان کو ہمیشہ امن، خوبصورتی اور سکون کا گہوارہ دکھایا ہے لیکن وہاں کے رہائشیوں کی حالتِ زار اس سے کافی مختلف ہے۔ وہاں کے مقامی لوگوں کو متعدد مسائل اور چیلنجز کا سامنا ہے جن کے باعث انہیں اپنی روزمرہ کی ضروریات پوری کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔

مسلسل مظاہروں کے باوجود ضلع گھانچے میں ایک بھی ماہرِ امراضِ نسواں موجود نہیں ہے۔ بہت سے واقعات میں تو ہنگامی طور پر گھانچے سے اسکردو منتقل کرنے کے دوران ہی خواتین اپنی زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں۔ حال ہی میں سامنے آنے والی ایک تصویر نے سب کو حیران کردیا جس میں دیکھا جاسکتا تھا کہ ایک بیمار خاتون کو برفانی موسم میں اسٹریچر پر ڈال کر فوری علاج کے لیے درکوٹ سے ضلع غذر میں واقع قریبی گاؤں منتقل کیا جارہا ہے۔

گلگت بلتستان کے لیے بڑھتی ہوئی غربت، بےروزگاری، صحت، تعلیم اور صاف پانی جیسی بنیادی خدمات کی عدم فراہمی اہم چیلنجز ہیں۔ ناقص انفراسٹرکچر، مناسب سڑکوں کی عدم فراہمی، بجلی کی کمی اور انٹرنیٹ کے خراب کنکشن جیسے مسائل خطے کی اقتصادی ترقی کی راہ میں حائل ہیں۔ یہاں بجلی گھنٹوں تک غائب رہتی ہے جس سے کاروبار متاثر ہوتے ہیں اور مقامی آبادی کو حرارت حاصل کرنے یا کھانا پکانے کے لیے درختوں کی لکڑیوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔

گلگت بلتستان کے لوگ اس سے کئی گنا بہتر حالات کے حقدار ہیں۔ ہمیں ان کے مسائل پر فوری توجہ اور ان کے حل کے لیے سنجیدہ اقدامات لینے چاہیے۔ وفاق کو مقامی نمائندوں اور اداروں کو بااختیار بنانے، انہیں مقامی معاملات میں زیادہ خود مختاری دینے اور فیصلہ سازی کے عمل میں شامل کرنے کے لیے اقدامات لینے چاہیے۔

سیاسی نمائندگی اور اشتراک کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنا اس وقت اہم ضرورت ہے۔


یہ مضمون 25 فروری 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

سجاد احمد

لکھاری آئی بی اے یونیورسٹی میں سوشل سائنسز اور لبرل آرٹ پڑھا رہے ہیں

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔