پاکستان

ارشد شریف قتل کیس: تحقیقاتی ٹیم کی سر بمہر رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی گئی

خیال کیا جاتا ہے کہ تحقیقاتی ٹیم متعدد گواہوں کے بیانات ریکارڈ کرنے کے عمل میں ہے اور جلد ہی دوبارہ کینیا کا دورہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

صحافی ارشد شریف کی کینیا میں المناک موت کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی خصوصی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (ایس جے آئی ٹی) نے سپریم کورٹ میں پیش رفت رپورٹ پیش کی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اگرچہ رپورٹ کو ایک سیل بند لفافے میں رکھا گیا تھا جس کے مندرجات خفیہ ہیں لیکن یہ خیال کیا جاتا ہے کہ تحقیقاتی ٹیم ’متعدد گواہوں‘ کے بیانات ریکارڈ کرنے کے عمل میں ہے اور جلد ہی دوبارہ کینیا کا دورہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے صحافی کے قتل کی شفاف اور آزادانہ تحقیقات کو یقینی بنانے کے لیے ازخود نوٹس کی کارروائی شروع کی تھی۔

بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر شامل ہیں۔

مزید سماعت مارچ تک ملتوی کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے 13 فروری کو مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو دو ہفتوں کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

گزشتہ سماعت کے دوران عدالت نے مشترکہ تحقیقاتی کے یو اے ای اور کینیا کے دورے کو ’غیر نتیجہ خیز‘ قرار دیا تھا اور یہ اس معاملے پر آخری عبوری رپورٹ میں کچھ بھی مثبت نہیں تھا۔

اپنے آخری حکم میں عدالت نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو اس بات کی تحقیقات کا حکم دیا تھا کہ ارشد شریف کو پاکستان چھوڑنے کے لیے کس چیز کی ترغیب دی گئی تھی؟

حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ تحقیقاتی ٹیم کو صحافی کے خلاف درج کی گئی متعدد ایف آئی آرز اور ان کے پاس موجود ممکنہ حساس معلومات کی بھی چھان بین کرنی چاہیے۔

تحقیقاتی ٹیم اس بات کی بھی تحقیقات کرے گی کہ دبئی حکام نے ارشد شریف کو یو اے ای چھوڑنے کا حکم کیوں دیا گیا اور دو رکنی کمیٹی کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کس نے جاری کی اور اس کے پیچھے کیا وجہ تھی۔

ایس جے آئی ٹی کی گزشتہ رپورٹ میں تجویز کیا گیا تھا کہ ممکنہ طور پر دو رکنی کمیٹی کی جانب سے تیار کردہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کے قبل از وقت اجرا نے کینیا کے حکام کو پریشان کر دیا تھا۔

اس کے بعد عدالت نے مشاہدہ کیا تھا کہ وہ اس مرحلے پر کینیا کی حکومت کے نقطہ نظر میں تبدیلی کی وجہ پر قیاس کرنے کے لیے آمادہ نہیں تھی۔

جس کے بعد عدالت نے کہا تھا کہ وہ اس مرحلے پر کینیا کی حکومت کے نقطہ نظر میں تبدیلی کی وجہ پر قیاس نہیں کرسکتی۔

عدالت نے کہا تھا کہ وزارت خارجہ تعلقات کی باریکیوں اور اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ کینیا کو پاکستان ایک دوست ریاست تصور کرتا ہے، اس ملک کے حکام سے رابطہ کرے تاکہ کینیا کی مدد کرنے میں ہچکچاہٹ کی وجوہات کا پتا چل سکے اور تفتیش میں ہموار پیشرفت کے لیے ترجیحی بنیادوں پر تفتیش اور ان کا ازالہ کریں۔

سپریم کورٹ نے وزارت خارجہ کو یہ بھی حکم دیا تھا کہ وہ ایسی ضرورت پیش آنے کی صورت میں اقوام متحدہ سے مدد کی درخواست کرنے کے لیے شرائط و ضوابط سے آگاہ ہو۔