پاکستان

مبینہ بیٹی چھپانے کا معاملہ، ٹیریان کی ولدیت سول عدالت میں ثابت کرنی ہوگی، اسلام آباد ہائیکورٹ

سرپرست تو کسی کے بھی ہو سکتے ہیں، کیا کسی عدالت کا ڈیکلیئریشن موجود ہے کہ عمران خان ٹیریان کے والد ہیں، جسٹس محسن اختر کیانی

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 62 لگانے سے پہلے ٹیریان وائٹ کی ولدیت سول عدالت میں ثابت کرنی ہوگی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں لارجر بینچ عمران خان کی مبینہ بیٹی کو کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہ کرنے پر نااہلی سے متعلق کیس پر سماعت کر رہا ہے، جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس ارباب محمد طاہر بھی بینچ کا حصہ ہیں۔

دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل حامد علی شاہ نے دلائل شروع کیے تو چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے درخواست قابل سماعت ہونے پر دلائل مکمل کر لیے ہیں۔

درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ابھی تو میں نے دلائل شروع ہی نہیں کیے، میں 5 نکات پر ایک ایک کر کے دلائل دوں گا، ابھی صرف ایک نکتے پر دلائل دیے ہیں۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن نے بیان حلفی پر کوئی فائنڈنگ دی اس پر درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے کوئی فائنڈنگ نہیں دی گئی۔

چیف جسٹس نے عمران خان کے وکلا سے مکالمہ کیا کہ ویسے تو آپ کی سائیڈ سے بھی یہ دو منٹ کا کیس ہے، آپ تسلیم کریں یا انکار کریں، پٹیشن ختم ہو جاتی ہے۔

چیف جسٹس نے وکیل سے کہا کہ آپ انکار کریں تو ان کی پٹیشن ابھی خارج ہوتی ہے، اگلے الیکشن میں یہ معاملہ پھر کوئی لے کر آ جائے گا، آپ قابل سماعت ہونے کو چھوڑیں اور ہاں یا نا کر کے مسئلہ ختم کریں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ سرپرست کوئی بھی کسی کا بھی ہوسکتا ہے، جس دستاویزات کی آپ بات کر رہے اس میں تو صرف سرپرستی کا ذکر ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ باہر کی عدالت میں کرائی گئی سوٹ یا کوئی اور دستاویزات موجود ہیں، یہ جو دستاویزات دکھا رہے ہیں کیا آپ نے ان دستاویزات کو چیلنج کیا ہے؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر آپ نے ان دستاویزات کو وہاں کسی عدالت میں چیلنج کیا ہے تو حامد شاہ صاحب کیس سے آؤٹ ہوں گے جس پر عمران خان کے وکیل نے کہا کہ مجھے اس حوالے سے کوئی معلومات نہیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ یہ کیس بہت سادہ سا ہے آپ نے ولدیت کے حوالے سے عدالت کو مطمئن کرنا ہے، آپ کہتے ہیں کہ وہ والد ہیں مگر وہ تو مانتے نہیں کہ وہ والد ہے، جس دستاویزات کا آپ سہارا لے رہے ہیں اگر وہاں لکھا ہے کہ وہ والد ہے تو بتائیں۔

عدالت نے استفسار کیا کہ وکیل درخواست گزار نے ٹیریان وائٹ کا بیان عدالت میں پڑھ کر سنایا، کیا بیٹی نے یہ کہا ہے کہ عمران خان میرا باپ ہے، حتیٰ کہ ابھی تک انہوں نے بھی ایسا کچھ نہیں کہا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بدقسمتی ہے کہ کسی کی نجی زندگی کا معاملہ ایسے پبلک میں آئے، ہمیں بھی یہاں بیٹھ کر ایسا کیس سننے میں کوئی مزہ نہیں آرہا، لیگل سائیڈ پر ایک بات آگئی ہے اس لیے سننا پڑ رہا ہے۔

عدالت نے عمران خان کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ ایک واضح مؤقف لیں ابھی درخواست مسترد کر دیتے ہیں، آپ قابل سماعت ہونے کو چھوڑیں اور ہاں یا نا کر کے مسئلہ ختم کریں۔

درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ عمران خان نے ٹیریان کے والد کی حیثیت سے یہ بیان حلفی جمع کرایا ہے، جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ کیا آپ کا سارا دارومدار اسی دستاویز پر ہے، یہ تو سرپرستی سے متعلق ہے ولدیت سے متعلق تو نہیں ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ سرپرست تو آپ کسی کے بھی ہو سکتے ہیں، کیا کسی عدالت کا ڈیکلیئریشن موجود ہے کہ عمران خان ٹیریان کے والد ہیں۔

وکیل نے کہا کہ امریکی عدالت کا ڈیکلیئریشن موجود ہے کہ عمران خان ٹیریان وائٹ کے والد ہیں۔

درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ امریکی عدالت نے فیصلہ دیا کہ ٹیریان وائٹ عمران خان کی ہی بیٹی ہے اس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ امریکی عدالت کا غیرحتمی فیصلہ آپ نے عدالت میں پیش کر دیا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا عمران خان نے اس دستاویز کو کسی عدالت میں چیلنج کیا، اگر عمران خان نے کسی عدالت میں چیلنج کیا ہے تو یہ کیس ابھی ختم ہو جائے گا۔

عمران خان کے ٹیریان کیس میں دیے گئے بیان حلفی کی کاپی پیش کی گئی۔

درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ بیان حلفی کی کاپی تصدیق شدہ نہیں ہے، عدالت نے استفسار کیا کہ کیا آپ کے پاس یہی ایک دستاویز ہے اسی پر انحصار ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا وہاں جو کیس فائل ہوا اس کی کاپی آپ کے پاس ہے؟ جس پر درخواست گزار نے کہا کہ ہمارے پاس وہ کاپی نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کوئی ایک دستاویز تو آپ کے پاس ہو جس میں ہم دیکھیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ درخواست گزار نے واضح الفاظ میں عمران خان کی ٹیریان کی ولدیت ظاہر کرنی ہے۔

درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ عمران خان اور جمائمہ خان نے ٹیریان کی سرپرستی کے لیے رضامندی دی، کسی تیسرے نے ٹیریان کی سرپرستی کے لیے رضامندی کیوں نہیں دی۔

درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ عمران خان ٹیریان کا والد اور جمائمہ اس کی سرپرست تھی جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ یہ تو آپ کہہ رہے ہیں نا کہ وہ والد ہے والد تو خود یہ کہہ ہی نہیں رہا۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ کیلفورنیا کی عدالت کا فیصلہ تو ایکس پارٹی کارروائی ہے، یہ تو ایک غیر حتمی فیصلہ تھا۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ آپ کو انتہائی واضح الفاظ میں عمران خان کا اعتراف دکھانا ہوگا، دکھائیں کہاں عمران خان نے ٹیریان کا والد ہونا تسلیم کیا۔

جسٹس محسن اختر نے ریمارکس دیے کہ آپ کہہ رہے ہیں عمران خان والد ہیں ٹیریان کے وہ نہیں مانتے، آپ کو اب ریکارڈ سے دکھانا ہوگا وہ ٹیریان کے والد ہیں، لڑکی نے خود بھی کہا ہو عمران خان میرا والد ہے تو وہ عمران خان پر لاگو نہیں، قانون اس طرح نہیں ہے۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ میں پہلے بھی کہہ چکا جو عمران خان کی ولدیت ثابت کرنا چاہتا ہے سول کورٹ چلا جائے، پہلے کوئی عمران خان کو سول کورٹ میں ٹیریان کا والد ثابت کرے گا، جب یہ ثابت ہو جائے گا اس کے بعد آرٹیکل 62 (ون) (ایف) آئے گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر عمران خان انکار کرتا ہے کہ وہ اس لڑکی کا والد نہیں پھر کیا ہو گا جس پر درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ عمران خان نے تو ابھی تک ٹیریان وائٹ کو بیٹی ماننے سے انکار ہی نہیں کیا۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ بنیادی طور پر درخواست گزار نے اس عدالت کو مطمئن کرنا ہے، ابھی تو کوئی واضح چیز موجود ہی نہیں کہ عمران خان لڑکی کے والد ہیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ اس درخواست میں لڑکی کی والدہ عمران خان سے متعلق کچھ الزام عائد کیا ہو گا، عمران خان نے نہیں بتانا کہ وہ میری بیٹی ہے یا نہیں، یہ آپ نے بتانا ہے، ایسی کوئی دستاویزات نہیں ہیں جس سے ہمارے ذہن بھی واضح ہوں۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ جن دستاویزات کا آپ کہہ رہے ہیں وہاں بھی سرپرستی کی بات ہوئی ہے۔

درخواست گزار کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ اس کیس کا ریکارڈ آپ طلب کرلیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم کیلیفورنیا کی عدالت کو کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں دستاویزات دیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے درخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ جو آپ کہنا چاہ رہے ہیں ایسا نہیں ہے، پاکستان میں بہت سے لوگ بہت سے بچوں کے سرپرست ہیں مگر وہ والد نہیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ اگر وہ بچی سرپرست کے ساتھ زندگی گزار رہی ہے تو ان کو کوئی مسئلہ نہیں تو تیسرے فریق کو کیا مسئلہ ہے، اگر وہ بچی کہے کہ وہ میرا والد ہے اور مجھے ان کی بیٹی ڈکلیئر کیا جائے تو ممکن ہے۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ ولدیت کا ٹیسٹ بھی ریکارڈ پر نہیں ہے، اس صورت میں تو کوئی ثبوت ہی موجود نہیں۔

وکیل نے دلائل دیے کہ جب ولدیت کے ٹیسٹ کا معاملہ آیا تو وہ عدالتی کارروائی سے پیچھے ہٹ گئے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ کیا عدالتی کارروائی سے پیچھے ہٹنا اس بات کا ثبوت ہو سکتا ہے کہ وہی بچی کے والد ہیں۔

وکیل نے کہا کہ جب لڑکی کی والدہ کا انتقال ہوا تو عمران خان سے سرپرستی کی اجازت مانگی گئی۔

درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ عمران خان اگر والد نہ ہوتے تو اجازت نامہ کیوں دیتے اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عمران خان لڑکی کے والد تھے تو انہوں نے وہ اجازت دی، بچی کا نام اور عمر کیا ہے۔

وکیل نے کہا کہ لڑکی کا نام ٹیریان جیڈ خان وائٹ اور عمر 31 سال ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت اگلے پیر تک ملتوی کرتے ہوئے درخواست گزار کے وکیل کو آئندہ سماعت پر تیاری کرکے دلائل دینے کی ہدایت کر دی۔

فیس بک کی ٹوئٹر جیسا پلیٹ فارم جلد متعارف کرائے جانے کی تصدیق

بڑھتی مہنگائی کے تعلیمی شعبے پر اثرات

امریکی پینل کی گجرات میں مودی کے اقدامات پر تنقید