نقطہ نظر

’میں نے آپ کو واٹس ایپ کیا ہے‘

مسئلہ واٹس ایپ کے ساتھ نہیں ہے بلکہ یہ ہمارا ورک کلچر ہے جس کی کوئی حدود نہیں اور اس نے واٹس ایپ کو ہمارے لیے مسئلہ بنادیا ہے۔

واٹس ایپ ہر قسم کا پیغام سہولت کے ساتھ پہچانے کا بہترین ذریعہ ہے جوکہ با آسانی دستیاب بھی ہے، واقعی؟ خالصتاً پیداواری اور کام کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ ٹیکنالوجی کا ایک شاہکار ہے، اسے آسانی سے استعمال کیا جاسکتا ہے اور یہ دنیا کے مختلف حصوں میں موجود اربوں لوگوں سے فوری اور مفت رابطہ قائم کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔

لیکن میں اس ایپ سے شدید نفرت کرتا ہوں۔ ایسا کیوں ہے؟ چلیے میں آپ کو بتاتا ہوں۔

اس سے قبل کہ آپ واٹس ایپ کے ساتھ میرے بغض کی وجہ سمجھیں، میں آپ کو اس دور میں واپس لےکر جانا چاہتا ہوں جب تمام ’کول‘ نوجوانوں کے پاس بلیک بیری فونز ہوتے تھے اور وہ اپنے منصوبے بنانے کے لیے بی بی ایم (بلیک بیری میسنجر) کا استعمال کرتے تھے۔ مجھے درست یاد تو نہیں لیکن میرے پاس اس وقت نوکیا کا کوئی پرانا فون تھا یا پھر شاید میں اپنا پہلا اینڈروائڈ فون لے چکا تھا۔

رابطے کی ایپلی کیشن کی حیثیت سے مجھے محسوس ہوتا تھا جیسے واٹس ایپ خدا کا تحفہ ہے۔ جیسے جیسے اس کی خصوصیات میں اضافہ ہوتا گیا، میں اس گرین آئیکون کے سحر میں کھوتا چلا گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میں اپنے دوستوں اور گھر والوں کو بھی اس ایپ پر لے آیا اور اسے کام اور تفریح دونوں کے لیے استعمال کرنے کی ترغیب دینے لگا۔

جیسی سہولت واٹس ایپ فراہم کرتا ہے ایسی کوئی دوسرا مواصلاتی ذریعہ فراہم نہیں کرتا، یہی وجہ ہے کہ اس ایپ نے فوری جواب ملنے کی توقعات میں اضافہ کردیا ہے۔ پرانے فونز میں ہمیں یہ خدشہ ہوتا تھا کہ اگلا شخص کال کاٹ سکتا ہے، ہمیں گمان ہوتا تھا کہ وہ میٹنگ یا لنچ میں مصروف ہوسکتا ہے۔ اگر آپ ہوشیار تھے تو آپ کال کو اس پیغام کے ساتھ کاٹ دیتے ہوں گے کہ ’میں بعد میں رابطہ کروں گا‘، اور یوں معاملہ رفع دفع ہوجاتا تھا۔

تاہم واٹس ایپ میں آپ کی مدد کے لیے کوئی خودکار جواب موجود نہیں ہے۔ چونکہ واٹس ایپ میں پیغام کو پڑھنے اور اس کا جواب دینے کا عمل خفیہ طور پر بھی انجام دیا جاسکتا ہے اس وجہ سے چاہے آپ کسی کام میں مصروف ہی کیوں نہ ہوں، گمان ہوتا ہے کہ جیسے میسج کا جواب دینا آپ پر مسلط کردیا گیا ہے۔ رات ہو یا ویک اینڈ یا پھر آپ دفتر سے باہر ہی کیوں نہ ہوں، ان میں سے کوئی بھی وجہ آپ کے واٹس ایپ نہ دیکھنے کا جواز فراہم نہیں کرتی۔ آپ چاہیں تو ضرور پاکستان کے مجموعی ’جی حضوری‘ کے کلچر کو قصوروار ٹھہرا سکتے ہیں لیکن اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کہ ایسے مواصلاتی ذرائع صورتحال میں مزید بگاڑ پیدا کررہے ہیں۔

واٹس ایپ کی طرح ایک اور ذریعہ ’سلیک‘ بھی ہے جہاں فوری جواب دینے کا یونہی دباؤ ہوتا ہے۔ لیکن سلیک میں آپ نوٹیفکیشن بند کردیں تو یہ لگتا ہے جیسے آپ لاگ آؤٹ ہوچکے ہیں اسی لیے آپ جواب نہیں دے پائیں گے۔ فوری جواب دینے کے اس ذہنی دباؤ سے متعلق جائزے بھی لیے گئے ہیں جس میں اس کے ذہنی صحت پر اثرات پر نظر ڈالی گئی ہے۔ کچھ ذرائع جیسے ’بیس کیمپ‘ نے آن لائن دکھانے والے سبز نقطے کو ہی مکمل طور پر ہٹا دیا ہے تاکہ صارف کی ہروقت دستیابی کی غیر حقیقی امید ہی ختم ہوجائے۔

اس سے پہلے کہ آپ مجھے یہ بتائیں کہ واٹس ایپ میں بھی اسی طرح کا ایک فیچر ہے جہاں یہ دکھایا جاسکتا ہے کہ پیغام نہیں پڑھا گیا، میں تفصیل سے آپ کو معاملہ سمجھاتا ہوں۔ ’بلیو ٹکس‘ کو ’گرے ٹکس‘ میں تبدیل کردینا پاکستانی ورکنگ ماحول میں ناگوار سمجھا جاتا ہے۔ آپ جب ایسا کرتے ہیں تو لگتا ہے جیسے آپ جان بوجھ کر کچھ چھپانے کی کوشش کررہے ہیں۔ بالواسطہ طور پر آپ اگلے شخص کو یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ مجھے آپ پر بھروسہ نہیں ہے اسی لیے میں تمہیں یہ نہیں دکھانا چاہتا کہ میں نے تمہارا پیغام پڑھ لیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ بلیو ٹکس تو آن رکھتے ہیں لیکن میسجز پڑھتے نہیں، جس کا رجحان زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر یہ لوگ نوٹیفکیشن سے پیغام پڑھ لیتے ہیں لیکن ایپ میں اسے نہیں کھولتے۔ کوئی بھی اس وقت تک ان بلیو ٹکس کو آگے والے کو نہیں دکھانا چاہتا جب تک وہ باقاعدہ ذہنی طور پر جواب دینے کے لیے تیار نہ ہوں۔ اس کا ایک اور طریقہ یہ بھی ہے کہ ایک ایسا فیچر بنایا جائے (کم از کم اینڈروائڈ فونز میں) جس کے ذریعے آپ میسج کھولے بغیر ہی اسے دیکھ سکیں۔ میں ان لوگوں میں شامل ہوں جنہوں نے گرے ٹکس کو فوقیت دی۔ میں ہر ممکن کوشش کرتا تھا کہ اگلے شخص کو پتا نہ چلے کہ میں نے اس کا پیغام پڑھ لیا ہے تاکہ میں اس پیغام کو اس حد تک نظرانداز کرسکوں جب تک میرا ذہن اس کا مسئلہ حل کرنے یا اسے جواب دینے کا اہل نہ ہوجائے۔

اگر آپ کی زندگی میں مسائل کم ہیں تو واٹس ایپ کے گروپس ان میں اضافہ کردیں گے۔ اب آپ کے پاس آپ کے باس اور تمام لوگ گروپ میں ’مدعو‘ ہیں اور یہ جونیئر افراد سے لے کر انتظامیہ کے تمام ملازمین کے لیے مسئلہ بن چکا ہے۔ ان گروپس میں آفس کی ٹیم کے لوگ یا کلائنٹ کو شامل کرلیں اور پھر آپ کی زندگی میں افراتفری میں اضافہ ہوجائے گا۔

جونیئر ملازمین کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ چونکہ ان گروپس میں اعلیٰ پوزیشن کے افسران بھی شامل ہوتے ہیں اس لیے وہ اس انداز میں کھل کر بات نہیں کرسکتے جیسے وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ سینیئر لوگ جو عموماً گفتگو میں شامل نہیں ہوتے، ان کے قہر سے بچنے کے لیے بات کو تول کر بولا جاتا ہے۔ لیکن وہ کسی وقت بھی گفتگو میں شامل ہوکر رائی کا پہاڑ بنا سکتے ہیں۔ ان گروپس میں چند سینیئر لوگ نام نہاد ’نگرانی‘ کرنے کی پالیسی اپناتے ہیں اور تمام گفتگو پر گہری نظر رکھتے ہیں کہ گویا جیسے وہ معیار کنٹرول کرنے کے ذمہ دار ہوں۔

میں کام سے متعلق 52 واٹس ایپ گروپس کا حصہ ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ گروپس پر آنے والے پیغامات کو دیکھنا تو دور کی بات، میں ان میں سے کسی گروپ کا حصہ بھی نہیں بننا چاہتا تھا۔ مجھے ایک طرح سے یرغمال بنا لیا گیا ہے کیونکہ اگر میں ان گروپس کو چھوڑوں گا تو یہ بات لوگوں کو بری لگے گی۔

ان گروپس کی وجہ سے متعدد ناخوشگوار واقعات بھی پیش آتے ہیں۔ ہم میں سے کون ہوگا جس نے نجی گروپ سمجھ کر اپنے باس کے لیے نامناسب الفاظ غلطی سے آفس کے گروپ میں نہیں بھیجے ہوں گے؟ آپ یہ سوچتے ہوں گے کہ شکر ہے ’ڈیلیٹ فار آل‘ کا فیچر واٹس ایپ میں ہے لیکن ذرا رکیں، اس سے معاملہ زیادہ مشکوک لگتا ہے۔ اگر کسی نے آپ کے میسج کا اسکرین شاٹ لے لیا ہے تو اب آپ کی خیر نہیں۔ اب تو واٹس ایپ اسکرین شاٹس قہر ڈھا سکتے ہیں۔

درحقیقت اگر آپ پاکستانی مارکیٹنگ صنعت میں کام کررہے ہیں تو آپ یہ جانتے ہی ہوں گے کہ واٹس ایپ گروپس ہمارے کاروبار کے لیے کتنے اہم بن چکے ہیں۔ یہ جملہ کہ ’آئیے ایک گروپ بناتے ہیں اور وہاں گفتگو شروع کرتے ہیں‘، سروس لیول ایگریمنٹ یا کسی معاہدے کی طرح ہماری کاروباری مصروفیات کا اہم ستون بن چکا ہے۔

میٹا میں موجود لوگ انتہائی ذہین ہیں کیونکہ وہ اس میں شاندار فیچرز کا اضافہ کرتے رہتے ہیں تاکہ لوگ اسے دنیا میں کاروباری ذرائع کے طور پر استعمال کرتے رہیں۔ اب ہمارے پاس ایک اچھا ڈیسک ٹاپ ٹول ہے لیکن یہ دیگر عام ٹولز جیسے ای میل یا ٹیمز یا سلیک کے ساتھ اچھا نہیں چلتا۔ آخر ایک اے پی آئی (ایپلی کیشن پروگرامنگ انٹرفیس) بنانا اور اسے پلگ ان کرنا کتنا مشکل ہوگا؟

واٹس ایپ یہ فیچر فراہم کیوں نہیں کرتا جس کے تحت میں ان ایپلی کیشنز کو اپنے پروجیکٹ مینجمنٹ سافٹ ویئر میں شامل کرسکوں؟ واٹس ایپ کے لیے اسکرین شیئرنگ کی سرحد عبور کرنا ہی باقی رہ گیا ہے جس کے بعد فوری طور پر زوم کا استعمال بھی ختم ہوجائے گا۔ شاید میٹا کو فیس بک کے تحت چلنے والے ورک پلیس کو ختم کرکے واٹس ایپ پر ہی کاروباری پلیٹ فارم بنا لینا چاہیے۔

صرف میسجز سے کام نہ بن رہا ہو تو ہمیں وائس نوٹ بھیجنے کا بھی بہت شوق ہے۔ میں چند لوگوں کو جانتا ہوں جو وائس نوٹس کے ذریعے اپنے کاروباری معاملات سنبھالتے ہیں۔ میرے لیے وائس نوٹس پر کام کے معاملات دیکھنا کسی اذیت سے کم نہیں۔ وائس نوٹ سننے کی رفتار تیز کرنے کا فیچر کچھ مددگار ثابت ہوتا ہے۔ وائس نوٹس میں ابہام کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں اس لیے یہ ردِعمل دینے کے لیے اچھا ذریعہ نہیں ہے۔ میں یہ اعتراف کرتے ہوئے شرمندہ ہوں کہ میں نے اکثر دوسروں سے کہا ہے کہ میرے لیے ان وائس نوٹس کو سن کر الفاظ میں تبدیل کردیں تاکہ میں انہیں پڑھ کر درست طریقے سے جواب دے سکوں۔

چونکہ یہ ایک غیررسمی پلیٹ فارم ہے اس لیے مجھے کبھی کبھار اپنے دوست احباب کے واٹس ایپ میسجز آتے ہیں جوکہ برانڈ کے مسائل کے حوالے سے تخلیقی مشورے کے طالب ہوتے ہیں (جوکہ میرا ذریعہِ معاش ہے)، یہ مفت میں مشورہ طلب کرنے کا ذریعہ بن چکا ہے۔ وہ لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ اگر انہوں نے مجھے ای میل کرکے مشورہ طلب کیا ہوتا تو یہ رسمی ہوتا جس کے لیے انہیں فیس ادا کرنی پڑتی۔ میں پاکستانی ایجنسی میں کام کرتا ہوں تو میں یہاں کے روایتی کام اور مفت مشوروں سے نا آشنا نہیں ہوں لیکن کاروباری ماحول میں واٹس ایپ ان طریقوں کو ایک طرح سے مدد فراہم کررہا ہے۔

اس سے قبل کہ آپ اس بہترین سافٹ ویئر (چونکہ میٹا ہمارا کلائنٹ بھی ہے) کے حوالے سے میرے نظریات سے تنگ آجائیں میں اس پورے معاملے کو درست انداز میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ مسئلہ واٹس ایپ کے ساتھ نہیں ہے۔ واٹس ایپ کو دیکھا جائے تو وہ آپ کی ذاتی اور کام کی زندگیوں میں امتیاز نہیں کرتا۔ یہ ہمارا ورک کلچر ہے جس کی کوئی حدود نہیں اور اس نے واٹس ایپ کو ہمارے لیے مسئلہ بنادیا ہے۔

تو براہِ کرم واٹس ایپ پر مجھ سے رابطہ کرنے سے قبل ضرور ہچکچایا کریں۔ اور اگر آپ کے پاس میرا نمبر پہلے سے موجود ہے تو مجھے میسج کرنے سے قبل میرے ’اسٹیٹس‘ پر بھی نظر ڈال لیا کریں اور چاہیں تو یہ آرٹیکل واٹس ایپ پر آپ اپنے دوست کے ساتھ بھی شیئر کرسکتے ہیں؟


یہ مضمون 7 مارچ 2023ء کو ڈان اورورا میں شائع ہوا۔

عمیر قاضی

لکھاری 'اشتہاری' میں پارٹنر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔