پاکستان

جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف ریفرنسز: جوڈیشل کونسل کا اجلاس بلانے کیلئے جسٹس فائز عیسیٰ، جسٹس طارق مسعود کا خط

سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس بلا کر تعین کیا جائے جسٹس مظاہر نقوی پر الزامات درست ہیں یا غلط، الزامات درست ہیں تو کارروائی کی جائے، خط کا متن
|

سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے ساتھی جسٹس سردار طارق مسعود نے عدالت عظمیٰ کے ایک اور جج جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر ریفرنس پر غور کرنے کے لیے کونسل کا اجلاس بلانے کے لیے خط لکھ دیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود کی جانب سے خط سپریم جوڈیشل کونسل کے سر براہ چیف جسٹس پاکستان، جسٹس احمد علی شیخ، جسٹس امیر محمد بھٹی کو لکھا گیا ہے۔

سپریم جوڈیشل کونسل کے ارکان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود نے اپنے خط میں کہا گیا ہے کہ کونسل کا اجلاس بلا کر تعین کیا جائے کہ جسٹس مظاہر نقوی پر الزامات درست ہیں یا غلط ہیں۔

خط میں کہا گیا ہے کہ اگر جسٹس مظاہر نقوی پر عائد الزامات غلط ہیں تو عدالت عظمیٰ کے جج کی عزت بحال کی جائے اور اگر ان کے خلاف لگائے الزامات درست ہیں تو آئین کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے۔

خط کے متن میں کہا گیا ہے جج کو الزمات کے سائے میں رکھنے سے جج اور عدلیہ کی عزت پر حرف آ رہا ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ عدلیہ کی آزادی اور اس پر عوام کے اعتماد کے لئے ضروری ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس فوری بلایا جائے۔

واضح رہے کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کا نام ایک آڈیو لیک میں سامنے آنے کے بعد ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) میں متعدد شکایتی درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔

مسلم لیگ (ن) لائرز فورم پنجاب کی جانب سے جمع کرائی گئی درخواست میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پر ججوں کے ضابطہ اخلاق کی سنگین خلاف ورزیوں کا الزام لگایا گیا تھا۔

اسی طرح سے لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل میاں داؤد نے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر کے ان کے اثاثوں کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔

دائر کردہ ریفرنس میں کہا گیا تھا کہ جج نے اپنے بیٹوں اور بیٹی کی بیرون ملک تعلیم اور ایک تاجر زاہد رفیق سے ’مالی فائدہ‘ حاصل کرنے کے لیے اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کیا،’جج، پی ٹی آئی اور اس کے رہنما عمران خان کے ساتھ اپنے تعلقات کو کھلے عام ظاہر کرتے ہیں‘، وہ اپنی ذاتی رنجشوں کی وجہ سے دوسری سیاسی جماعتوں کے خلاف خطرناک ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔

شکایت گزار کے مطابق ’سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی نے نجی گفتگو کے دوران اعتراف کیا ہے کہ جسٹس مظاہر علی نقوی پی ٹی آئی کی حمایت کرتے ہیں‘۔

ساتھ ہی میاں داؤد نے ایک لیک ہونے والی آڈیو گفتگو کا ٹرانسکرپٹ جمع کرایا، جس میں مبینہ طور پر جسٹس مظاہر نقوی اور پرویز الٰہی کے درمیان گفتگو ہوئی تھی۔

مبینہ آڈیو لیک

چند روز قبل سوشل میڈیا پر زیر گردش تین آڈیو ٹیپس میں بظاہر چوہدری پرویز الہٰی مختلف افراد سے گفتگو کر رہے ہیں، جن میں سے ایک کے بارے میں دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ وہ ایک جج ہیں۔

پہلی آڈیو میں مبینہ طور پر پرویز الہٰی کسی جوجا صاحب سے بات کی اور ان سے پنجابی زبان میں مخاطب تھے اور جج کا نام لے کر کہہ رہے تھے کہ ’جوجا صاحب، ۔۔۔۔۔کے پاس لگوانا، محمد خان کا کیس‘۔

دوسری طرف سے پرویز الہیٰ کو جواب دیا گیا کہ ’اچھا چلو، آج وہ اسلام آباد چلا جائے گا، وہ کہہ رہے تھے ہم ان کو اسلام آباد بھیج دیں گے، پھر اس کے بعد جو پروسیس ہوتا ہے اس پر کوشش کریں گے‘۔

پرویز الہٰی نے مبینہ طور پر کہا کہ ’کرو ناں جی، کوشش کرو، دوسری طرف سے آواز آتی ہے کہ جی کوشش کروں گا سر‘۔

دوسری طرف سے بات کرنے والے آدمی نے ایک دفعہ پھر جج کا نام لے کر وضاحت کی اور بظاہر پرویز الہیٰ نے جواب دیا کہ ’ہاں‘ تو دوسرا آدمی کہتا ہے ’بس ٹھیک ہے جی، پرویز الہٰی کہتا ہے بڑا دبنگ ہے‘ جبکہ جوجا کہتا ہے کہ ’آنیں ہے، جانتا ہوں‘۔

پرویز الہٰی دوسری مبینہ آڈیو میں کسی وکیل سے بات کر رہے تھے اور جج کا نام لے کر کہہ رہے تھے کہ ’—کے پاس لگوانا ہے‘، وکیل پوچھتے کہ ’فائل کردیا انہوں نے‘ تو پرویز الہٰی مبینہ طور پر کہا کہ ’فائل کردیا ہے جوجا صاحب سے پوچھ لیں وہ کر رہا ہے‘، جس پر دوسرے طرف سے آواز آئی کہ ’میں جوجا صاحب سے معلوم کرتا ہوں، کل بات کی تھی تو کل تک نہیں ہوا تھا تو میں چیک کرلیتا ہوں‘۔

آڈیو میں مبینہ طور پر پرویز الہٰی کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ ’وہ کام ٹھیک ہوجائے گا آپ ذرا کرلینا‘، جس پر وکیل نے کہا کہ ’میں کرلیتا ہوں، بہت بہتر سر‘، جس پر سابق وزیراعلیٰ کہتے ہیں ’کسی کو بتانا نہیں‘۔

وکیل نے مبینہ طور پر کہا کہ ’صحیح ہے میں سمجھ گیا سر، اچھا سر ایک کام اور ہے سر، پرسوں 14 تاریخ کو ڈوگر کا کیس بھی لگا ہوا بینچ میں دوبارہ سر اور اس میں بھی —صاحب ہیں‘۔

پرویز الہٰی نے کہا ’ڈوگر کون سا‘ تو وکیل کہہ رہے ہیں کہ ’غلام محمد ڈوگر، سی سی پی او کا جو کیس کر رہا تھا نا سر، جو سی سی پی او ہوتا تھا وہ بھی لگا ہوا ہے سر پرسوں، کیونکہ دیکھیں آپ ، ان کو ہٹا دیا گیا تھا، ری پلیس کردیا لیکن کیس ابھی بھی ہے سر، پرسوں لگا ہوا ہے 14 کو سر‘، پرویز الہٰی نے وکیل کو جواب دیا کہ ’چلو میں بات کرتا ہوں‘۔

سوشل میڈیا پر تیسری آڈیو ٹیپ بھی زیر گردش رہی، جس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ مبینہ طور پر چوہدری پرویز الہٰی کے ساتھ بات کرنے والے ایک جج ہیں۔

اس آڈیو میں مبینہ جج چوہدری پرویز الہٰی کو سلام کرتے ہیں اور جوابی سلام کے بعد وہ پوچھتے ہیں ’کیا حال ہیں ٹھیک ہو‘ تو بظاہر پرویز الہٰی جواب دیتے ہیں کہ ’مجھے بڑا افسوس ہوا کہ میں خود آرہا ہوں، محمد خان ادھر ہے، تمہارے ساتھ ہیں، میں وہی آرہا ہوں‘۔

لارجر بینچ تشکیل نہیں دیا جاتا تو آئینی بحران سے ایمرجنسی یا مارشل لا کا خدشہ ہے، وزیر خارجہ

ریپ سے متعلق ’انتہائی نامناسب‘ بیان دینے پر نبیل گبول کو شدید تنقید کا سامنا

’ٹیکن کے پاکستانی بادشاہ‘ ارسلان ایش نے تیسری بار عالمی اعزاز اپنے نام کرلیا