پاکستان

پی ٹی آئی نے’اسرائیل کے ساتھ مبینہ تجارت’ پر حکومت سے وضاحت مانگ لی

دفتر خارجہ نے صرف ایک مبہم بیان جاری کیا ہے کہ پاکستان کے اسرائیل کے ساتھ کوئی سفارتی اور تجارتی تعلقات نہیں ہیں، ڈاکٹر شہزاد وسیم
|

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز نے سینیٹ میں حکومت سے اسرائیل کے ساتھ مبینہ تجارتی تعلقات پر وضاحت طلب کر لی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینیٹ میں اس معاملے کو اٹھاتے ہوئے سینیٹر محسن عزیز نے ایک پاکستانی نژاد یہودی تاجر فشیل بن خالد کی جانب سے اسرائیل کو اشیائے خورونوش برآمد کرنے کی خبروں کا حوالہ دیا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان فلسطین کے عوام کے ساتھ کھڑا ہے اور جہاں تک اسرائیل کے مسئلے کا تعلق ہے تو اس حوالے سے پاکستان کا ایک اصولی مؤقف ہے، پاکستان نے کبھی بھی اسرائیل کو ایک قوم کے طور پر تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی اس کے ساتھ کوئی سفارتی اور تجارتی تعلقات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کو اس معاملے پر اپنے مؤقف کی وضاحت کرنے کی ضرورت ہے۔

خیال رہے کہ یہ معاملہ ایک پاکستانی نژاد یہودی تاجر کی جانب سے اسرائیل کو برآمد کیے گئے سامان کی ایک ویڈیو شیئر کرنے کے بعد سامنے آیا، کراچی میں مقیم پاکستانی یہودی فشیل بن خالد نے پاکستان کی خوردنی اشیا کی پہلی کھیپ اسرائیل کی منڈی میں برآمد کرنے کے بارے میں ٹوئٹ کیا۔

پی ٹی آئی نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت ان رپورٹس کے ردعمل میں سینیٹ میں پالیسی بیان جاری کرے کہ پاکستان نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات نہ ہونے کے باوجود تجارت کا آغاز کردیا ہے۔

سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ براہ راست تجارت نہ بھی ہو تب بھی پاکستانی مصنوعات اسرائیل پہنچی ضرور ہیں اور یہ تجارت بند ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ فلسطین کے حوالے سے ہمارا اصولی مؤقف ہے اور مستقبل میں بھی ایسا ہی رہے گا، ہم اس مؤقف میں کوئی نرمی برداشت نہیں کریں گے۔

پیپلز پارٹی کے سینیٹر یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ دفتر خارجہ نے ایک بیان میں اسرائیل کے ساتھ براہ راست تجارت کی سختی سے تردید کی ہے اور ایسے کسی بھی واقعے کو مسترد کر دیا ہے، اس کے بعد مزید وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔

قائد حزب اختلاف ڈاکٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ دفتر خارجہ نے صرف ایک مبہم بیان جاری کیا ہے کہ پاکستان کے اسرائیل کے ساتھ کوئی سفارتی اور تجارتی تعلقات نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’مسئلہ یہ ہے کہ ایک پاکستانی نے اپنے طور پر پاکستانی مصنوعات اسرائیل بھیجی ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا کوئی پاکستانی شہری ریاست سے بالاتر ہے، اگر حکومت کی پالیسی کے خلاف کوئی شہری اپنے طور پر کام کرے تو ریاست کا ردعمل کیا ہونا چاہیے؟‘انہوں نے سوال کیا کہ غیر ملکی وفد کے ساتھ ایک پاکستانی اسرائیل گیا تھا، اُس کے خلاف کیا کارروائی ہوئی؟

اسرائیل کیلئے ویزا کے اجرا پر پی ٹی آئی کی وضاحت

پی ٹی آئی کی سینیئر نائب صدر ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں بیت المقدس جانے کے لیے پاسپورٹ کے اجرا کو اسرائیل کے ساتھ تجارت کے آغاز سے نہیں جوڑنا چاہیے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ پاکستانی شہریوں کو اُن کے عقیدے کی بنیاد پر اسرائیل میں مذہبی مقامات کی زیارت کے لیے ویزے جاری کیے گئے تھے، تاہم ریاستی پالیسی کو بلڈوز کرکے دونوں ممالک کے درمیان تجارت شروع کرنا بالکل الگ چیز ہے۔

شیریں مزاری نے کہا کہ ’رجیم چینج‘ کی سازش کے تمام کردار بے نقاب ہو چکے ہیں اور ان کے پاس معلومات کی بھی کمی ہے، پی ٹی آئی کے دورِحکومت میں پاکستانی شہریوں کو ان کی مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے ویزے جاری کیے گئے تھے، سفارتی تعلقات کے بغیر 2 ممالک کے درمیان سفر اور تجارت میں بہت بڑا فرق ہے’۔

واضح رہے کہ پاسپورٹ کے اجرا کے وقت حکومتِ پاکستان کی جانب سے اِس پر واضح طور پر درج کیا جاتا ہے کہ ’اس پاسپورٹ پر اسرائیل کے علاوہ کسی بھی ملک کا سفر کیا جاسکتا ہے‘۔

ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ کسی بھی شہری کے لیے حکومت کی رضامندی کے بغیر اسرائیل کے ساتھ تجارت کرنا ناممکن ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’اس سب کے پیچھے ایک سیاسی ایجنڈا ہے، ماضی قریب میں ایک پاکستانی شہری احمد قریشی نے اسرائیل کا دورہ کیا، اس وقت ہم نے حکومت سے سوال کیا تھا کہ کیا اسرائیل کے حوالے سے پالیسی تبدیل کی گئی ہے؟ لیکن حکومت نے اس معاملے پر مکمل خاموشی اختیار رکھی‘۔

پی ٹی آئی رہنما نے مزید کہا کہ ’ماضی قریب میں ہونے والے واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کا اسرائیل کے بارے میں مؤقف درست تھا، اسی لیے حکومت کی تبدیلی کی سازش رچی گئی اور پی ٹی آئی حکومت کو ہٹانے کے بعد اب ایک بار پھر موجودہ حکومت اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کوشش کر رہی ہے‘۔

حکومتی اتحاد کے اندر سے سیاسی ’کشیدگی میں کمی‘ کیلئے آوازیں

ریپ سے متعلق ’انتہائی نامناسب‘ بیان دینے پر نبیل گبول کو شدید تنقید کا سامنا

برطانوی حکومت کے تین شہریوں کی گرفتاری پر طالبان سے مذاکرات