پاکستان

بار بار تبادلوں سے تنگ آ کر کراچی پولیس کے کانسٹیبل کی خودکشی، انکوائری کا حکم

پولیس میں موجود منشی اور کلرک مافیا بھائی کی موت کے ذمہ دار ہیں، ٹرانسفر کیلئے رقم کا مطالبہ کرتے تھے، متوفی کے بھائی کا دعویٰ

کراچی پولیس کے کانسٹیبل نے بار بار تبادلوں سے تنگ آ کر خودکشی کر لی جس پر سٹی پولیس چیف نے معاملے کی انکوائری کا حکم دیا ہے۔

متوفی کانسٹیبل کے اہل خانہ نے الزام لگایا کہ کانسٹیبل نعمت اللہ محکمے میں اپنے ساتھیوں کو رشوت نہ دینے کی وجہ سے کیے جانے والے بار بار تبادلوں سے تنگ آ گیا تھا۔

33 سالہ نعمت اللہ حبیب نے جمعرات کو صفورا کے قریب رحیم سوسائٹی میں اپنے گھر میں خود کو گولی مار کر زندگی کا خاتمہ کر لیا۔

سچل کے ایس ایچ او راجا تنویر نے جمعرات کو ڈان کو بتایا کہ آج کل ہر کوئی بڑھتی ہوئی مہنگائی سے پریشان ہے، کانسٹیبل کو بھی ’مالی مشکلات‘ کا سامنا تھا اور اس نے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔

تاہم متوفی کانسٹیبل کے بھائی نے میڈیا کو بتایا کہ پولیس میں موجود منشی اور کلرک مافیا ان کے بھائی کی موت کے ذمہ دار ہیں۔

ان کے بھائی نے ٹی وی چینلز کو بتایا کہ میرے بھائی نے بظاہر خودکشی کی تھی لیکن یہ ایک قتل تھا۔

کانسٹیبل کے بھائی نے بتایا کہ نعمت اللہ گلشن حدید میں رہتا تھا جہاں وہ بھی ساتھ تعینات تھے لیکن نعمت کو سائٹ سپر ہائی وے انڈسٹریل ایریا پولیس میں منتقل کر دیا گیا، 35ہزار ماہانی تنخواہ کے ساتھ ان کا بھائی حدید سے سپر ہائی وے تک روزانہ 700 روپے صرف پیٹرول پر خرچ کرتا تھا تاکہ موٹر سائیکل چلا کر اپنی ڈیوٹی سرانجام دے سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ نعمت نے اپنے ساتھیوں سے واپس ٹرانسفر کی درخواست کی لیکن انہوں نے مبینہ طور پر اس سے رشوت طلب کی۔

بھائی نے بتایا کہ بڑھتے ہوئے اخراجات کے سبب کانسٹیبل نعمت اللہ گلشن حدید سے صفورا کے قریب عبداللہ شاہ غازی گوٹھ میں شفٹ ہونے پر مجبور ہو گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ جب منشی کو معلوم ہوا کہ میرا بھائی اپنے گھر کے قریب ڈیوٹی سرانجام دے رہا ہے، تو اس نے اسے قیوم آباد میں سی پی ای سی ہیڈ کوارٹر منتقل کر دیا۔

متوفی کانسٹیبل کے بھائی نے بتایا کہ ان کے بھائی نے اس وقت کے ایس ایس پی ملیر(انوسٹی گیشن) عرب مہر سے شکایت کی کہ اس کے ساتھ ناانصافی کی جارہی ہے لیکن اس شکایت نے منشی کو مزید مشتعل کر دیا اور اس نے میرے بھائی کا سکھر تبادلہ کر دیا۔

بھائی کی موت پر غمزہ نوجوان نے کہا کہ میرے بھائی نے سوچا کہ اس کے پاس نوکری چھوڑنے یا اپنی زندگی ختم کرنے میں سے کوئی ایک آپشن ہے اور اس نے زندگی ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ میرے بھائی کا خیال تھا کہ اگر اس نے نوکری چھوڑ دی تو اس کے بچے بھوک سے مر جائیں گے لیکن اگر اس نے خودکشی کی تو اس کے بچوں کو محکمہ سے کچھ رقم ملتی رہے گی۔

دریں اثنا، پولیس ترجمان نے ڈان کو بتایا کہ کراچی کے ایڈیشنل آئی جی پولیس جاوید عالم اوڈھو نے پولیس اہلکار کی خودکشی کی انکوائری کا حکم دیتے ہوئے ڈی آئی جی شرقی مقدوس حیدر کو انکوائری افسر مقرر کیا ہے۔

کراچی پولیس چیف کے مطابق اس معاملے کی مکمل تحقیقات کی جائیں گی اور اگر کوئی پولیس اہلکار اس معاملے میں پایا گیا تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔