پاکستان

ریاست کے ساتھ وفاداری اور حکومت سے وفاداری میں فرق ہونا چاہیے، لاہور ہائیکورٹ

حکمران جماعت سے ہر کسی کی نظریاتی ہم آہنگی نہیں ہوتی، اس لیے حکومتی پالیسیوں پر عدم اطمینان کے اظہار کی آزادی ہونی چاہیے، جسٹس شاہد کریم

لاہور ہائی کورٹ نے حکم دیا ہے کہ ریاست سے وفاداری حکومت سے وفاداری سے نمایاں ہونی چاہیے جہاں ایک سیاسی جماعت کی جانب سے افسران پر قبضہ کیا جاتا ہے اور ہر کسی کی حکمران جماعت سے نظریاتی ہم آہنگی نہیں ہوتی، اسی لیے حکومتی پالیسیوں پر عدم اطمینان کے اظہار کی آزادی ہونی چاہیے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے تعزیرات پاکستان (پی پی سی) 1860 کے سیکشن 124-اے کے تحت بغاوت کے جرم کے خلاف درخواست پر 48 صفحات پر مشتمل فیصلہ سنا دیا۔

جسٹس شاہد کریم نے فیصلے میں لکھا کہ ’کیوں ایک شہری یا پریس کے رکن کو وفاقی یا صوبائی حکومت پر نفرت کا اظہار، توہین یا عدم اطمینان پر بغاوت کا جرم عائد کیا جائے؟‘۔

لاہور ہائی کورٹ کے جج نے 30 مارچ کو مختصر فیصلے میں عوامی مفاد کی درخواست منظور کی تھی اور سیکشن 124-اے کو آئین میں شہریوں کو حاصل بنیادی حق سے محروم کرنے پر کالعدم قرار دیا تھا۔

شہری ہارون فاروق کی درخواست پر وکیل ابوذر سلمان نیازی نے عدالت میں دلائل دیے تھے۔

جسٹس شاہد کریم نے تفصیلی فیصلے میں وجوہات بتائے کہ بطور انسان ہم سب کسی نکتے پر اپنے جذبات کے اظہار کے لیے حساس ہوتے ہیں اور اس کو روکنے سے پاکستان کے شہری روبوٹ بن جائیں گے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ اس ملک کے عوام مالک ہیں اور حکومتی عہدیدار عوامی خدمت گار ہیں، سیکشن 124-اے میں تین بنیادی الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، توہین، نفرت اور عدم اطمینان۔

جج نے وضاحت کی کہ ایک مخصوص وقت اور مقدمے میں نامنظوری کے مضبوط احساسات پر اتنی توجہ نہیں دی جاسکتی اسی طرح دوسرے مقدمے میں مختلف حالات کے تحت ناگواری کا معمولی اظہار بھی جرم سے منسلک کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔

عدالت عالیہ کے جج نے کہا کہ ’ڈس انفیکشن‘ اطمینان یا خوش گواری سے خالی ہے اور یہ ناقابل فہم ہے کہ اس طرح کا معمولی رویہ جرم کا باعث ہوگا، ورچوئلی سیاسی مخالفین پر کوئی اثر نہیں ہوتا اور اور اسی طرح کسی بات کا اظہار کرتے ہیں تو موجودہ صورت میں سیکشن 124 عائد ہوگا۔

جسٹس شاہد کریم نے لکھا کہ سیکشن 124-اے موجودہ صورت میں تمام مخالف جماعتوں کو ان کے اراکین، شہریوں اور پریس کے ارکان سے اس وقت کی وفاقی اور صوبائی حکومت سے رواداری اور ہمدردی کا مطالبہ کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمدردی نہ کرنے اور دشمنی کے احساسات عدم اطمینان میں شامل کرلیے گئے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ کوئی بھی سیاسی مخالف یا مختلف سیاسی گروپ سے ہمدری رکھنے والا شہری ایسا کرتے ہوئے جرم کا ارتکاب کرتا ہے۔

جج نے کہا کہ ایک شہری کو وفاقی یا صوبائی حکومت پر عدم اطمینان پر نتائج کا سامنا ہوگا اور یہ خیال جمہوریت اور آئین کی عمل داری کے تصور کے خلاف ہے۔

انہوں نے کہا کہ کسی خاص لمحے پر تقریباً نصف آبادی بغاوت کا جرم کر رہی ہوگی۔

جسٹس شاہد کریم نے مزید کہا کہ بغاوت کا جرم پریس، اس کے مدیران وغیرہ کے خلاف بھی استعمال کیا جاسکتا ہے، اس طرح یہ اظہار آزادی کے حق کی خلاف ورزی ہے، عوام کو آگاہ کرنے کے لیے جو ضروری ہے وہ جاننے کا حق ہے اور سیاسی معاملات پر زیادہ باخبر فیصلے کرنے کے لیے آگاہ رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ آئینی جمہوریت اور قانون کی بالادستی کے لیے آزاد پریس کی موجودگی ضروری ہے، سیکشن 124-اے کے تحت بغاوت کا جرم آئین کے آرٹیکل 19 میں دی گئی حد سے باہر ہے، جس کا اس بے بنیاد خیال پر خلاصہ نہیں ہونا چاہیے کہ حکومت وقت سیاسی تقریر پر دباؤ ڈال سکتی ہے۔

جسٹس شاہد کریم نے قرار دیا کہ اگر سیکشن 124-اے کو موجودہ صورت میں برقرار رکھنے کی اجازت دی گئی تو میڈیا اور پریس کا اس کی غلطیوں اور سیاسی طرز کے معاملات پر عام عوام کو اپنی صلاحیت کے مطابق آگاہ کرنے کا کردار متاثر ہوگا، جو آزاد صحافت کے لیے آزادانہ طور پر لکھنے اور کسی خوف کے بغیر معلومات فراہم کرنے کے لیے مستقل خطرہ رہے گا۔

کوئٹہ: بارکھان سے برآمد لاشیں گراں ناز کے بیٹوں کی تھیں، ڈی این اے رپورٹ

چیزوں کی شناخت کے لیے مصنوعی ذہانت پر مبنی ماڈل تیار

ارسا نے خریف کی فصل کیلئے 37 فیصد قلتِ آب کی تصدیق کردی