دنیا

بھارت: ماؤ نواز باغیوں کے حملے میں 10 پولیس اہلکار ہلاک

اہلکار ایک آپریشن سے واپس آ رہے تھے جب چھتیس گڑھ میں ان کی گاڑی کو نشانہ بنانے والا دھماکا ہوا، پولیس

بھارت کی وسطی ریاست چھتیس گڑھ میں پولیس کی گاڑی بارودی سرنگ سے ٹکرا گئی جس کے نتیجے میں 10 پولیس اہلکار اور ان کا ڈرائیور ہلاک ہو گئے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی خبر کے مطابق پولیس پر کیے گئے مہلک حملے کا الزام ماؤ نواز باغیوں پر عائد کیا گیا ہے۔

بھارت کی طویل عرصے سے جاری ماؤ نواز شورش 1960 کی دہائی میں شروع ہوئی تھی، اس سورش کے آغاز کے بعد کی دہائیوں میں ہزاروں جانیں ضائع ہو چکی ہیں جب کہ حالیہ برسوں کے دوران تشدد میں کافی حد تک کمی آئی ہے۔

آج ہونے والی ہلاکتیں سیکیورٹی فورسز کے لیے 2 سال سے زائد عرصے میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ہیں، اس حملے میں دور دراز ضلع دانتےواڈا میں باغی تحریکوں کے تحقیقاتی مشن سے واپس آنے والے پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا۔

چھتیس گڑھ پولیس کے سینیئر اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ اہلکار ایک آپریشن سے واپس آرہے تھے جب ان کی گاڑی کو نشانہ بنانے والا دھماکا ہوا۔

بھارتی نشریاتی ادارے ’این ڈی ٹی وی‘ پر نشر ہونے والی فوٹیج میں زمین میں کئی فٹ تک پھیلا ہوا ایک گڑھا دکھایا گیا جب کہ فوٹیج میں سیکیورٹی فورسز دھماکے سے تباہ گاڑیوں کا معائنہ کر رہی تھیں۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ٹوئٹر پر کہا کہ میں حملے میں ہلاک ہونے والے بہادر اہلکاروں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں، ان کی قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

چھتیس گڑھ کے وزیر اعلی بھوپیش بگھیل نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ حملہ انتہائی افسوسناک ہے، انہوں نے باغیوں سے نمٹنے کے لیے اپنی کوششوں کو دوگنا کرنے کا عزم کیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ لڑائی آخری مرحلے میں ہے اور ہم کسی بھی ماؤ باغی کو نہیں چھوڑیں گے، ہم نکسل ازم کو ختم کرنے کے لیے مناسب منصوبہ بندی کریں گے۔

ابھی تک کسی باغی گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔

ریڈ کوریڈور’

بھارت نے باغیوں سے لڑنے کے لیے ہزاروں فوجیوں کو باغیوں کے زیر اثر علاقے میں تعینات کیا ہے جب کہ ان علاقوں کو ’ریڈ کوریڈور‘ کہا جاتا ہے جو کئی وسطی، جنوبی اور مشرقی ریاستوں تک پھیلا ہوا ہے۔

باغی گروہوں کا کہنا ہے کہ وہ دیہاتی لوگوں اور غریبوں کے لیے لڑ رہے ہیں، خیال کیا جاتا ہے کہ یہ گروہ بھارت بھر کی 10 سے زیادہ ریاستوں میں موجود ہیں لیکن ملک کے اندرونی حصوں میں سب سے زیادہ سرگرم اور متحرک ہیں۔

وہ علاقے جو ان باغیوں کے گڑھ سمجھے جاتے ہیں وہ جہاں زیادہ تر آبادی غربت کا شکار اور اہم ضروریات زندگی تک رسائی سے محروم ہے۔

بھارت نے قبائلی برادریوں کے زیر تسلط دور دراز علاقوں میں انفراسٹرکچر کی ترقی کے لیے بھی لاکھوں ڈالر خرچ کیے ہیں اور 2020 میں مسلح عسکریت پسندوں کو 53 اضلاع تک محدود رکھنے کا دعویٰ کیا جو کہ 2010 میں 96 سے کم ہے۔

2021 میں انتہائی بائیں بازو کے باغیوں کے ساتھ مسلح تصادم میں بائیس پولیس اور پیراملٹری اہلکار مارے گئے۔

مارچ 2020 میں چھتیس گڑھ میں 300 سے زیادہ مسلح باغیوں کے حملے میں 17 پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے۔

مغربی ریاست مہاراشٹر میں ایک بم حملے میں 16 کمانڈوز بھی مارے گئے تھے جب کہ اس کا الزام ماؤ نواز باغیوں پر 2019 میں ہونے والے بھارتی انتخابات سے قبل لگایا گیا تھا۔

انتخابات فنڈز: اسپیکر کا چیف جسٹس کو خط، عدالت پر ’تحمل کا مظاہرہ‘ پارلیمنٹ کے قانون سازی کے دائرہ کار کے احترام پر زور

پاکستان، نیوزی لینڈ ورلڈ کپ سے قبل اہم ون ڈے سیریز کیلئے تیار

’صلاح الدین ایوبی‘ اس سال ترکیہ، اگلے سال پاکستان میں ریلیز ہوگا، ہمایوں سعید