پاکستان

انسداد دہشت گردی عدالت: توہین مذہب کے الزام میں گرفتار چینی شہری کی ضمانت منظور

تینوں مدعیان اپنے الزامات کے حق میں نہ تو عدالت میں ثبوت پیش کر سکے، نہ ہی جے آئی ٹی کے سامنے الزامات ثابت کر سکے، عدالت

توہین مذہب کے الزام میں گرفتار چینی شہری کو ایبٹ آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت سے ضمانت ملنے کے بعد رہا کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جج نے 2 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کے بعد ملزم کی ضمانت کی درخواست منظور کی۔

درخواست گزار کو 16 اپریل کو ضلع بالائی کوہستان میں اس وقت گرفتار کیا گیا جب ایک ہجوم نے قراقرم ہائی وے کو بلاک کر دیا تھا، پراجیکٹ کی سائٹ پر نماز کے طویل وقفے کے باعث چینی شہری کی مزدوروں کے ساتھ بحث کے دوران توہین مذہب کا الزام لگایا گیا تھا۔

واقعے کی ایف آئی آر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295-سی اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 6/7 کے تحت کاملا پولیس اسٹیشن، بالائی کوہستان میں درج کی گئی تھی۔

عدالت میں درخواست گزار کی نمائندگی دو وکلا نے کی، چینی شہری کو سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر عدالت میں نہیں لایا گیا، کمرہ عدالت میں ڈپٹی پبلک پراسیکیوٹر بھی موجود تھے۔

وکلاء نے دعویٰ کیا کہ ان کا مؤکل بے قصور ہے اور اس کے خلاف توہین مذہب کا الزام جھوٹا ہے۔

معاملے کی تحقیقات کے لیے قائم کی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے الزام لگانے والوں اور چینی شہری کے بیانات کا ریکارڈ عدالت میں پیش کیا۔

کاملا تھانے کے ایس ایچ او اور کیس کے مرکزی شکایت کنندہ نصیر الدین ریکارڈ کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئے۔

جج نے اپنے حکم میں کہا کہ تین مزدوروں گلستان، شفیع، قادر اور ان کے ترجمان یاسر نے 15 اپریل کو مبینہ واقعے کے دو روز بعد 17 اپریل کو ایف آئی آر درج کرائی تھی۔

انہوں نے مشاہدہ کیا کہ تینوں مدعیان اپنے الزامات کے حق میں نہ تو عدالت میں ثبوت پیش کر سکے اور نہ ہی جے آئی ٹی کے سامنے اپنے بیانات میں الزامات ثابت کر سکے۔

جج نے اپنے حکم میں کہا کہ مترجم یاسر چینی شہری سے 35-40 فٹ دور تھا، اور صرف یہ فرض کیا گیا کہ چینی شہری نے توہین آمیز ریمارکس کہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ مقدمہ ’ٹھوس بنیادوں‘ کے زمرے میں نہیں آیا کیونکہ توہین مذہب کا الزام ’غلط فہمی کا نتیجہ‘ تھا اور کوہستان کے متعلقہ تھانے نے چینی شہری کے خلاف ’جھوٹا مقدمہ‘ درج کیا تھا۔

عدالت نے قرار دیا کہ ریکارڈ کے مطابق ملزم نے ایسا کوئی جرم نہیں کیا اس لیے اسے ضمانت پر رہا کیا گیا۔

مبینہ واقعے کے بعد علما کی جانب سے تشکیل دیے گئے علما جرگے کے رکن مولانا ولی اللہ توحیدی نے کہا کہ چینی شہری کی رہائی ایک عدالتی معاملہ ہے اور ’ہم اسے تہہ دل سے قبول کرتے ہیں۔

تاہم انہوں نے کہا کہ مترجم یاسر کے خلاف ’کوہستان کے لوگوں کو سڑکوں پر آنے کے لیے اکسانے‘ کے جرم میں مقدمہ چلایا جانا چاہیے

مولانا ولی اللہ توحیدی نے مزید کہا کہ ہم (کوہستانی) محب وطن پاکستانی ہیں اور ملک کے اندر یا باہر کسی کو بھی داسو منصوبے کو کسی بھی قیمت پر سبوتاژ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

اکانومسٹ کی پاکستان میں انتخابات اکتوبر، عمران خان کے کامیاب ہونے کی پیش گوئی

توشہ خانہ کیس کی تفتیش نیب کے ترمیم شدہ قانون کے مطابق کی جائے، اسلام آباد ہائیکورٹ

ایک ساتھ انتخابات کا معاملہ: حکومت، پی ٹی آئی کے مذاکرات کا پہلا دور ختم، بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق