پاکستان

’ بارش ہوئی تو جھونپڑیاں بھی ڈھے جائیں گی’، متاثرین سیلاب کے زخم سال بعد بھی تازہ

ٹنڈو اللہ یار سے 20 کلو میٹر دور اللہ رکھیو نامی گاؤں کے رہائشی مہینوں بعد بھی کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

گزشتہ سال جب سیلاب آیا تو ’قیامت جیسا منظر‘ تھا، اس ’سانحے‘ کو لگ بھگ ایک سال گزر گیا لیکن لوگ اس منظر کو آج تک نہیں بھولے۔

2010 میں آنے والے تباہ کن سیلاب کے تقریباً ایک دہائی بعد پاکستان کو ایک اور قدرتی آفت کا سامنا کرنا پڑا تھا، یہ بارشیں اور تباہی 2010 کے سیلاب سے کئی گنا زیادہ تھی۔

سال 2022 میں آنے والے سیلاب سے تقریباً 3 کروڑ افراد متاثر ہوئے، ملک بھر میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا صوبہ سندھ تھا، جہاں تقریباً 20 لاکھ افراد بے گھر ہوئے، اس صوبے کی بڑی تعداد آج بھی جھگیوں اور خیموں میں رہنے پر مجبور ہے۔

ایک سال قبل بھی ڈان نیوز نے سندھ میں سیلاب زدہ مختلف علاقوں کا دورہ کیا تھا اور ڈان ریلیف فنڈ کے ذریعے متاثرین میں راشن، خیمے و دیگر ضروری اشیا تقسیم کی تھیں۔

عیدالفطر کے تیسرے دن ہمیں صوبہ سندھ کے ضلع ٹنڈو اللہ یار جانے کا موقع ملا، اس ضلع کی آبادی تقریباً 10 لاکھ سے زائد ہے۔

اس ضلع سے تقریباً 20 کلو میٹر دور ’اللہ رکھیو‘ نامی ایک چھوٹا سا گاؤں آباد ہے، جس کی آبادی تقریباً 12 ہزار سے زائد ہے، یہ گاؤں شہر سے بالکل الگ ہے، اچھی بات یہ ہے کہ یہاں نکاسی آب کا بہترین نظام موجود ہے، جسے زیر زمین رکھا گیا ہے۔

اگست 2022 میں جب سیلاب آیا تو پانی نے اس علاقے کو بھی شدید متاثر کیا تھا، تیز آندھی اور بارشوں سے نہر کا پانی گھروں میں داخل ہوگیا تھا۔

اس گاؤں میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے وہ لوگ تھے جن کے گھر کچی مٹی سے بنے تھے یا پھر وہ لوگ جو جھگیوں میں رہتے تھے۔

وہاں بسنے والے لوگوں کے چہروں پر آج بھی پریشانی و یاسیت کا ڈیرہ تھا، انہیں دیکھ کر ایسا لگا کہ کئی ماہ گزر جانے کے بعد بھی یہ لوگ گزشتہ سال کے صدمے سے باہر نہیں آسکے۔

مقامی لوگوں نے بتایا کہ ہر سال بارشیں ہوتی ہیں اور پانی نالے سے گزرتا ہوا دریا اور نہر کے ذریعے فصلوں میں گرجاتا تھا لیکن اس بار کچھ مختلف ہوا، سہ پہر 12 بجے کے قریب نہر کا پانی گاؤں میں داخل ہوا، جن کے تھوڑے بہت گھر پکے تھے انہوں نے جیسے تیسے گزارا کرلیا، لیکن تمام کچے مکان زیرِ آب آگئے۔

سال بیتنے کے باوجود سیلاب کے اثرات آج بھی نظر آرہے ہیں، کئی لوگوں کے گھر ٹوٹے ہوئے نظر آئے، سڑکیں انتہائی خستہ تھیں، ہسپتال اور اسکول کی دیواریں شکستہ تھیں، ایسا لگ رہا تھا کہ انتظامیہ نے یہاں کا رُخ نہیں کیا۔

متاثرین سے بات کرنے جب ہم گاؤں میں پہنچے تو ہمارے پیچھے بچوں کا ہجوم اُمڈ آیا، ہم نے سوچا کہ ان سے تھوڑا حال احوال پوچھ لیا جائے۔

12 سالہ بچے نے بتایا کہ ’باجی، کچھ لوگ ایک، دو روز کا راشن دینے آئے تھے پھر کسی نے پلٹ کر نہیں دیکھا‘۔

اس گاؤں کے زیادہ تر لوگ کھیتی باڑی کے ذریعے پیسے کماتے ہیں اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں، کچھ لوگوں کی اپنی زمینیں بھی ہیں۔

سیلاب سے متاثرہ 30 سالہ ’کونج‘ نامی خاتون اسی علاقے کے کچی مٹی سے بنے 2 چھوٹے کمروں کے مکان میں رہتی ہیں، ان کے 4 چھوٹے بچے ہیں اور شوہر دل کے عارضہ میں مبتلا ہیں۔

کونج نے بتایا کہ جن دنوں تیز بارشیں ہورہی تھیں ان کا گھر پانی میں ڈوب چکا تھا، کمروں میں پانی کھڑا ہو گیا تھا، بدقسمتی سے اسی دوران ان کے شوہر کو دل کا دورہ پڑا، علاج کے لیے پیسے نہیں تھے تو مجبوراً گھر میں سولر کے پنکھے اور کچھ زیور بیچ کر شوہر کا علاج کروایا۔

انہوں نے بتایا کہ پانی کی وجہ سے گھر کا راشن اور گندم ضائع ہوگیا تھا، گھر میں کچھ باقی نہیں بچا جس کی وجہ سے انہیں 3 ماہ کے لیے یہ علاقہ چھوڑنا پڑا۔

’3 ماہ بعد واپس گھر واپس آئے تو چھت سے لٹکا پنکھا نظر آ رہا تھا، باقی کمرہ مٹی اور ملبے سے بھرا تھا، اب ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں کہ کسی سے تعمیر کروا سکیں اس لیے خود ہی گھر کی تعمیر شروع کی‘۔

’وہ کہتے ہیں ناں کہ غریب پر مشکل آتی ہے تو گنتی بھول جاتی ہے، اب ایسی صورت میں غریب انسان کیا کرے، کوئی حکومتی ادارہ ریلیف کے لیے نہیں آیا، یہاں تو بجلی بھی نہیں آتی، اور گرمی میں بیٹھا نہیں جاتا، سخت مشکل میں ہیں۔‘ کونج اس سانحے کو یاد کرتے ہوئے رو پڑیں۔

ہم تھوڑا آگے بڑھے تو کچھ جھگیاں دکھائی دیں، یہیں پر ہوتھی نامی 88 سالہ بزرگ کھیتی باڑی کرتے ہیں، ان کا تعلق بھی اسی گاؤں سے ہے اور ہندو برادری سے تعلق رکھتے ہیں، ان کا قصبہ بھی مون سون بارشوں کی وجہ سے زیر آب آچکا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ جن فصلوں میں وہ کھیتی باڑی کرتے تھے، تیز آندھی اور بارشوں کی وجہ سے تباہ ہوگئی تھیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’پیاز، کیلے اور گندم کی فصلیں برباد ہوگئیں ہیں، میری دو بھینسیں مر چکی تھیں، گھر زیرآب آچکا تھا، مجبوراً ہمیں اس علاقے سے جانا پڑا اور 3 ماہ تک نہر کے کنارے چھت کے بغیر زندگی گزارنا پڑی۔‘

انہوں نے نحیف آواز میں بتایا کہ ’آج بھی وہ اس نقصان کا صدمہ برداشت کر رہے ہیں، ’فصلوں کی پیداوار پہلے کی طرح نہیں رہیں، پانی تو نکل چکا ہے لیکن زمین زرخیز نہیں ہے‘۔

یاد رہے کہ سندھ حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق سیلاب سے 38 لاکھ ایکڑ زمین متاثر ہوئی تھی۔

ہوتھی کہتے ہیں کہ ’ظاہر ہے کہ سیلاب کی وجہ سے ہمارے مکان ٹوٹ چکے تھے، ہمارے پاس پیسے نہیں تھے کہ خود تعمیر کریں، اس لیے ہم جھگیوں میں رہ رہے ہیں، لیکن ڈر لگا رہتا ہے کہ دوبارہ جب بارشیں ہوئیں تو ہمارے کچے مکان دوبارہ ٹوٹ جائیں گے‘۔

ایسی بہت سی کہانیاں سننے کو ملیں جنہوں نے شکایت کے انبار لگا دیے۔

اسی گاؤں میں ایک چٹیل میدان دیکھا جہاں صرف ایک پانی کا نلکا لگا ہوا تھا، میرے سوال پوچھنے پر مقامی لوگوں نے دعویٰ کیا کہ یہ ایک گھر تھا اور یہاں بسنے والے لوگ گھر چھوڑ کر چلے گئے ہیں، یہاں 5 لوگ رہتے تھے، جب بارشیں ہوئی تھیں تو ان کا مکان ٹوٹ گیا تھا، جس کے بعد انہوں نے یہ علاقہ چھوڑ دیا۔

کچھ فاصلے پر کمہار رہتے تھے، جب میں 35 سالہ خاتون حمیدہ کے پاس گئی تو وہ اپنے آدھے ٹوٹے مکان کے باہر تپتی دھوپ میں ٹوٹی ہوئی چارپائی پر بیٹھی تھیں، ایک بیٹی مٹی کے چولہے پر لکڑیوں میں آگ جلانے کی کوشش کر رہی تھی، بیٹی نے بتایا کہ ان کی والدہ چلنے پھرنے سے معذور ہیں۔

حکومت سندھ کے مطابق صوبے بھر میں شدید بارشوں اور اچانک سیلاب کے دوران تقریباً 18 لاکھ گھر تباہ ہوئے۔

حمیدہ نے افسردہ لہجے میں ہمیں بتایا کہ ’سیلاب کے بعد ان کے گھر کی چھت ٹوٹ گئی، پورا سال محنت مزدوری کرکے آہستہ آہستہ اتنی مشکلوں سے گھر بناتے ہیں، ایک جھٹکے میں سب کچھ ختم ہوجاتا ہے، ہمارا تو سب اجڑ گیا، مکان کو دوبارہ تعمیر کرنے کی ہمت و سرمایہ نہیں ہے، بغیر چھت کے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں‘۔

حمیدہ کے شوہر مٹی کے برتن بیچ کر پیسے کماتے ہیں جبکہ ان کے گھر میں کُل 5 افراد ہیں، حمیدہ کہتی ہیں کہ ’کبھی رات کو روٹی کھاتے ہیں، کبھی بھوکے پیٹ سو جاتے ہیں، حکومت نے راشن دیا نہ صاف پانی، ہمارے پاس تو مچھر دانیاں بھی نہیں آئیں۔‘

گھروں کی تعمیر اور امداد سے متعلق جب ٹنڈو اللہ یار کے ڈپٹی کمشنر سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے متاثرین کے الزامات کا کوئی جواب نہیں دیا اور پی ایم ڈی اے کی ویب سائٹ سے ڈیٹا لینے کا مشورہ دے دیا۔

پی ڈی ایم اے کی ویب سائٹ کے مطابق ضلع ٹنڈواللہ یار میں پی ڈی ایم اے اور پاک فوج کی جانب سے 14 ہزار 411 پناہ گاہیں، 8 ہزار 600 ترپالیں، 57 ہزار 700 مچھر دانیاں، 9 ہزار 944 جانوروں کے لیے مچھر دانیاں، 39 ہزار 450 راشن بیگ، 225 چولہے، 41 ہزار کپڑے اور چادریں، 38 سینی ٹائزر، جبکہ صاف پانی کی بوتلیں، فرسٹ ایڈ، حفظان صحت کی کٹس، صحت و صفائی کا سامان فراہم نہیں کیا گیا۔

جبکہ ویب سائٹ میں گھروں کی دوبارہ تعمیر کے حوالے سے بھی کوئی تفصیل موجود نہیں تھی۔