پاکستان

عدالت نے پولیس کو 9 مئی کے پرتشدد مظاہروں کی کوریج کرنے والے صحافیوں کو ہراساں کرنے سے روک دیا

صحافیوں کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہ ہونے کی صورت میں انہیں ہراساں نہ کیا جائے، پولیس کو ضرورت ہو تو صحافی تحقیقات میں شامل ہوں، لاہور ہائی کورٹ

لاہور ہائی کورٹ نے پولیس کو چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی گرفتاری کے بعد 9 مئی کو ہونے والے پرتشدد مظاہروں کی کوریج کرنے والے صحافیوں کو ہراساں کرنے سے روک دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ حکم جسٹس انوارالحق پنوں نے ڈیجیٹل میڈیا جرنلسٹس کی ایک ایسوسی ایشن کی جانب سے دائر درخواست پر جاری کیا۔

درخواست گزار کی جانب سے ایڈووکیٹ اظہر صدیق نے مؤقف اختیار کیا کہ متعدد سوشل میڈیا صحافیوں اور سماجی کارکنوں کو احتجاج کے مقامات پر موجود ہونے کی وجہ سے غیر قانونی طور پر گرفتار کرلیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ صحافی صرف ان واقعات کی کوریج کر رہے تھے اور کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث نہیں تھے۔

ایڈووکیٹ اظہر صدیق نے کہا کہ پولیس نے 9 مئی کے فسادات کے ذمہ داروں کی شناخت کے لیے پریس کلب اور صحافتی تنظیموں سے مدد لینے کے بجائے صحافیوں کو غیر قانونی طور پر ہراساں کیا اور گرفتار کیا۔

انہوں نے عدالت سے مطالبہ کیا کہ پولیس کو تمام سوشل میڈیا ایکٹوسٹس/صحافیوں بشمول رپورٹرز اور کیمرہ پرسن اور غیر قانونی طور پر حراست میں لیے گئے دیگر افراد کو رہا کرنے کا حکم دیا جائے۔

انہوں نے استدعا کی کہ عدالت پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سوشل میڈیا جرنلسٹس کو گرفتار کرنے، حراست میں لینے یا ان کے خلاف کوئی بھی کارروائی کرنے سے اس وقت تک روک دے جب تک کہ معاملے کا فیصلہ نہیں ہو جاتا۔

جسٹس انوارالحق پنوں نے دلائل سننے کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے لا افسران کو 25 مئی تک جواب جمع کرانے کی ہدایت کی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حکم دیا کہ صحافیوں کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہ ہونے کی صورت میں انہیں ہراساں نہ کیا جائے، اگر پولیس کو ضرورت ہو تو صحافی تحقیقات میں شامل ہوں۔

200 سے زائد صحافیوں کو ہراساں کیے جانے کا دعویٰ

کئی صحافتی اداروں نے 9 مئی کے بعد سے صحافیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر حکام کی مذمت کی ہے، ہنگامہ آرائی کرنے والے مشتبہ افراد کے خلاف پولیس کا کریک ڈاؤن تیز ہونے کے ساتھ ساتھ کئی صحافیوں اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کو بھی گرفتار کرلیاگیا کیونکہ سیل فون کی لوکیشن اور فوٹیجز میں ان کی جائے وقوع پر موجودگی ظاہر ہوئی تھی۔

لاہور پریس کلب کے مطابق تقریباً 250 صحافیوں اور میڈیا ہاؤسز کے دیگر متعلقہ عملے کو پولیس کی جانب سے ہراساں کیے جانے اور اختیارات کے ناجائز استعمال کا سامنا کرنا پڑا۔

صدر لاہور پریس کلب اعظم چوہدری نے بتایا کہ یہ لوگ 9 مئی کو لاہور کے مختلف مقامات پر اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہے تھے، پولیس نے ان کے نام اُن مشتبہ افراد کی فہرست میں ڈال دیے جو فوجی تنصیبات، پولیس وین اور نجی عمارتوں پر حملوں میں ملوث تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پریس کلب نے نگران وزیر اطلاعات پنجاب عامر میر سے رابطہ کیا جنہوں نے یہ معاملہ وزیراعلیٰ کے سامنے رکھا، وزیراعلیٰ کی ہدایت پر محکمہ داخلہ پنجاب نے پنجاب جرنلسٹس پروٹیکشن کوآرڈینیشن کمیٹی کے نام سے 8 رکنی کمیٹی کا نوٹیفکیشن کر دیا۔

انہوں نے کہا کہ مذکورہ کمیٹی کے اراکین میں پنجاب پولیس کے ڈی آئی جی (لیگل)، لاہور پریس کلب کے صدور، پنجاب یونین آف جرنلسٹس، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس، وزارت اطلاعات و نشریات کے نمائندے وغیرہ شامل ہیں، تاہم ان اقدامات کے باوجود پولیس نے مزید صحافیوں کو گرفتار کیا اور ان پر تشدد کیا۔

القادر ٹرسٹ کیس: عمران خان نے ملک ریاض کے خلاف تحقیقات کے بغیر نیب کی کارروائی پر سوال اٹھادیا

ماؤنٹ ایورسٹ میں پھنسے پاکستانی کوہ پیما کی مدد کی اپیل

2022 میں مسلح تنازعات میں 43 ہزار افراد مارے گئے، سربراہ اقوام متحدہ