نقطہ نظر

سفرنامہِ ہسپانیہ: ’اے گلستانِ اندلس۔۔۔‘ (پہلی قسط)

ہزاروں سال قدیم تاریخ رکھنے والے اس خطے نے بے شمار قوموں کا عروج و زوال دیکھا ہے۔

اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔


شمالی افریقہ کے ملک کینیا، صومالیہ، تنزانیہ، جنوب مشرقی ایشیا کے ملک فلپائن، تھائی لینڈ، ملائیشیا اور دیگر عرب ممالک کے سفر کے بعد ہسپانیہ (اسپین) اور ترکیہ کی سیاحت کی خواہش ایک عرصے سے دل میں نقش ہوچکی تھی۔

2018ء میں والدین کے ساتھ عثمانیوں کے عروج و زوال کے امین شہر استنبول اور اس کے بعد حجاز مقدس کے سفر کرنے کا موقع بھی رب کائنات نے میسر کیا۔ اب اس خوبصورت سفر کے بعد اندلس یعنی ہسپانیہ (اسپین) کو دیکھنے اور تاریخی مسجد قرطبہ کی خاموش اذانیں سننے کی خواہش دل میں امڈنے لگی۔ لیکن مالی پریشانیوں کی وجہ سے یہ خواہش پوری ہونے کے آثار دور دور تک نظر نہیں آرہے تھے۔ پھر بھی مجھے یقین تھا کہ میں وہاں ضرور جاؤں گا، کب جاؤں گا کیسے جاؤں گا اس کا جواب رب کائنات ہر چھوڑ دیا تھا۔

خوابوں کی تعبیر

اکتوبر 2019ء میں میرے قریبی سیاح دوست حاجی عبداللہ شاہ صاحب کی آفس آمد ہوئی۔ انہوں نے آتے ہی اسپین اور مراکش کے وزٹ کی خواہش کا اظہار کیا اور مجھے اپنے ساتھ چلنے کو کہا بلکہ میرے ساتھ جانے کی شرط پر ہی ویزا اپلائی کرنے کا کہا ساتھ ہی میرے سفری اخراجات کی ذمہ داری ایک سال کے لیے قرضہ کے طور پر ادا کرنے کی آفر کی۔

ہسپانیہ کی خاک چھاننے کی تڑپ مجھے 2 سالوں سے مجبور کر رہی تھی۔ سفر کے اخراجات کا معاملہ حل ہونے کے بعد یورپ کے اس خوبصورت ملک اور مسلمانوں کی تقریباً 800 سالہ عظیم سلطنت کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی آرزو پوری ہونے کی امید پیدا ہوگئی۔ عبد اللہ صاحب نے اپنے دوست افتخار علی صاحب کو بھی اس سفر میں ہم سفر بنا لیا تھا۔

کچھ دن بعد عبداللہ شاہ صاحب نے میرے ویزے کا اسکرین شاٹ بھیج کر سفر کی تیاری کرنے کی تاکید کرتے ہوئے دسمبر کے دوسرے ہفتے میں صرف ایک ہفتے کے لیے اسپین اور 10 دن عمرہ کا ٹور شیڈول بنانے کے لیے کہا۔ 7 دن تو بہت کم تھے، ایک ایسے ملک کے لیے جہاں ہر قدم پر تاریخ کے اوراق بکھرے پڑے ہوں۔ وہاں تو مہینوں کا ٹور ہونا چاہیے تھا۔ خیر ان کی کاروباری مصروفیات کی وجہ سے مجھے بھی اپنے ٹور کو ان کے شیڈول کے مطابق سیٹ کرنا پڑا۔

اسپین کا فضائی سفر

تقریباً ایک لاکھ 10 ہزار روپے کے عوض سعودی ایئر لائن کے دو طرفہ ٹکٹس لینے کے بعد 16 دسمبر کی رات 9 بج کر 15 منٹ پر اسلام آباد ایئرپورٹ سے سعودی ایئر لائن کے طیارے میں جدہ کی جانب روانہ ہوئے۔

میرے لیے 17 دن کا یہ سفر اس لیے بھی مختلف تھا کیونکہ اس سفر میں جو ہم سفر ساتھ تھے ان کی عمریں 60 سال سے اوپر تھیں۔ چونکہ حد سے زیادہ فوٹوگرافی کا میرا شوق میرے ساتھ سفر کرنے والوں کی برداشت ختم کر دیتا ہے تو مجھے لگا کہ شاید میں اس سفر میں فوٹوگرافی نہ کرسکوں گا۔ لیکن اسلام آباد ایئرپورٹ پر دونوں ہم سفر دوستوں کی تصویرکشی کے شوق کو دیکھ کر میرا یہ گمان بھی دور ہوگیا۔

تقریباً 5 گھنٹے اور 15 منٹ کی پرواز کے بعد ہمیں جدہ کے خوبصورت شہر کے آثار دکھائی دیے۔ اتنی اونچائی سے جدہ میں ہونی والی نئی تعمیرات اور جدہ کے قریب بحیرہ عرب کے ساحل کے دلکش مناظر بار بار مجھے موبائل کیمرا نکالنے پر مجبور کر رہے تھے۔

اتنے میں پائلٹ کی طرف سے اعلان ہوا کہ ہم سعودی عرب کے شہر جدہ پہنچنے والے ہے۔ چند منٹ بعد سعودی ایئرلائن کا یہ طیارہ رقبے کے لحاظ سے عرب دنیا کے سب سے بڑے ہوائی اڈے پر اتر چکا تھا۔ سب سے پہلے عمرہ زائرین کو 3 عدد بسوں کے ذریعے حج ٹرمینل روانہ کیا گیا جبکہ باقی مسافروں کو ٹرانزٹ لاؤنج شفٹ کیا گیا۔ ہماری اگلی پرواز 17 دسمبر کو دن کے 11 بجے روانہ ہونی تھی۔ اس لیے آرام کے لیے ہمارے پاس جدہ ایئرپورٹ کی مسجد ہی ایک بہترین آپشن تھی۔

وضو کرکے مسجد میں تہجد پڑھنے کے بعد ہم کچھ دیر کے لیے محو خواب ہوئے۔ فجر کی اذان کے ساتھ ہی ہماری آنکھ کھلی نماز پڑھنے اور ایئرپورٹ لاؤنج میں ناشتہ کرنے کے بعد ہم انتظار گاہ میں ایئرپورٹ کے فری انٹرنیٹ کے مزے لوٹنے لگے۔

11 بج کر 5 منٹ پر سعودی ایئرلائن کا جدید سہولیات پر مبنی طیارے اور ہسپانوی ومراکشی فضائی عملے کے ساتھ، ہم نے اپنی اگلی منزل جنوب مغربی یورپ کے خوبصورت ترین ملک اسپین کے دارالحکومت میڈریڈ کی جانب سفر کا آغاز کیا۔

کچھ راستہ بائیں جانب بحیرہ احمر اور دائیں جانب سیاہ مائل پہاڑوں کا سلسلہ دکھائی دیتا رہا۔ پھر سمندر میری نگاہوں سے اوجھل ہوتا گیا اور اب دونوں طرف کھلی وادیوں اور صحراؤں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوچکا تھا ان صحراؤں کے ارد گرد چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں بلوچستان کی خدوخال پیش کررہی تھیں۔ بہت کم مقامات ایسے تھے جہاں انسانی آبادی کے آثار دکھائی دیتے تھے۔

چلیے جتنی دیر میں ہم میڈریڈ شہر پہنچتے ہیں، ہم آپ کو اسپین کی تاریخ کے بارے میں آگاہ کردیں کیونکہ اسپین کی سیاحت سے پہلے آپ کے لیے سرزمین ہسپانیہ کا تاریخی اور جغرافیائی جائزہ لینا ضروری ہے تاکہ ہمارے سفر میں آنے والے مقامات اور اس کی تاریخ سے آپ کو پہلے سے آگاہی حاصل ہوسکے۔

ہسپانیہ (اسپین): منفرد تہذیبوں کی سرزمین

بحر اوقیانوس اور بحیرہ روم کے کنارے برِاعظم یورپ کے جنوب میں واقع اس پُرامن ملک اسپین کو ہسپانیہ بھی کہا جاتا ہے جس کے ایک صوبے کا نام اندلس ہے۔ ہزاروں سال قدیم تاریخ رکھنے والے اس خطے نے بے شمار قوموں کا عروج و زوال دیکھا ہے۔ یہ منفرد تہذیبوں، ثقافتوں اور بولیوں کا مسکن رہ چکا ہے۔ مسلمانوں کے دور میں عرب اسے اندلس جبکہ ہسپانوی لوگ اسے اندلوسیہ کہتے تھے۔ جرمن قوم نے اسے واندلس کے نام سے موسوم کیا تھا۔

انڈورا، فرانس، جبرالٹر، پرتگال، اور مراکش کے ساتھ سرحدیں رکھنے والا 4 کروڑ 66 لاکھ نفوس پر مشتمل اسپین آبادی کے لحاظ سے یورپی یونین کا 7واں جبکہ دنیا کا 30واں بڑا ملک ہے۔

دنیا کے نقشے پر موجود 21 ممالک نے اسپین سے آزادی حاصل کی تھی۔ اسپین کے موجودہ صوبے اندلس کے ساحل سمندر کے اُس پار براعظم افریقہ کے شمالی ممالک مراکش، لیبیا اور الجزائر کی سرحدیں ہیں۔ مراکش اور اسپین کی سرحدیں انتہائی نزدیک ہیں جو بعض مقامات پر 15 کلومیٹر جبکہ بعض پر 7 کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔ ان دونوں براعظموں کی تاریخ بھی ہمیشہ جنگوں اور ایک دوسرے کو زیرنگیں کرنے سے بھری پڑی ہیں اور صدیوں تک یہ ایک دوسرے کی تاک میں رہے ہیں اور موقع ملتے ہی ایک دوسرے کے شکار کے لیے آگے بڑھتے رہے ہیں۔ تاریخ کے اوراق میں کبھی ایک سرنگوں ہوا اور کبھی دوسرا۔

ایک زمانہ تھا جب یونان کو اپنے علم و طاقت کی بنیاد پر پوری دنیا میں سپر پاور کی حیثیت حاصل تھی۔ یونان نے جہاں اپنی طاقت کی بنیاد پر یورپ کے تمام ممالک کو اپنی ریاست میں شامل کیا وہاں اسپین سمیت سمندر پار افریقہ کے کئی ممالک میں بھی اپنی طاقت کا جھنڈا لہرایا۔ جب یونانیوں کا زوال ہوا تو ان کی جگہ رومن حکرانوں نے لے لی۔ رومن حکمرانوں نے جہاں برطانیہ سے لے کر اسپین تک کے علاقے اپنی فوج کے ذریعے فتح کیے تھے وہاں شمالی افریقی ممالک میں مراکش سے لے کر مصر تک اور بحیرہ روم کے کنارے آباد تمام ممالک کو زیر کیا تھا۔

رومیوں کے عروج کو بھی زوال جرمن قوم گاتھ کی وجہ سے نصیب ہوا۔ رومی ترکی، شام اور عراق تک محدود ہوگئے جبکہ اسپین سمیت یورپ کے دیگر علاقوں پر گاتھ حکمرانوں نے قبضہ جمالیا۔ جب اسلام کا سورج طلوع ہوا اور عرب کی سرزمین پر جہاں اور باطل قوتوں کا صفایا ہوا وہاں رومن حکمرانوں کا عروج بھی زوال میں تبدیل ہونے لگا اور قدرت کے اُصول ’ہر کمالے را زوال‘ کے مطابق وہ صفحہ ہستی سے مٹ گیا۔ آج بشمول اسپین دنیا کے کئی ممالک میں رومن حکمرانوں کے قلعے، سڑکیں اور پُل، رومن دور کی اس عظیم سلطنت کی یاد تازہ کرتی رہتی ہیں۔

اسپین میں گاتھ حکمرانوں کی حکومت کا دارالحکومت طلیطہ ( تولیدو) میں قائم تھا۔ فوجی حکمران راڈرک، گاتھ حکمران کاؤنٹ جولین کی بادشاہت کو بغاوت کے ذریعے ختم کرکے اسپین کی حکومت پر قابض ہوچکا تھا۔

راڈرک ایک انتہائی چلاک فوجی جنرل کے ساتھ ساتھ عیاش اور آوارہ انسان بھی تھا۔ اس نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت شاہی اور راجگان خاندان کے بچوں کی تعلیم و تربیت طلیطہ کے شاہی محل میں کرنے لگا اور راجگان کو اس پر قائل کیا کہ حکومت کے زیرِانتظام شاہی خاندان کے بچوں کی تعلیم و تربیت اعلیٰ اور شاہی روایات و اداب کے مطابق کی جائے گی۔ لیکن پس پردہ ان بچوں کے ذریعے راجگان شاہی خاندان کو دباؤ میں رکھنا تھا تاکہ اس کے جابرانہ حکومت کے خلاف راجگان خاندان بغاوت نہ کرسکے۔

طلیطہ کے سابق حکمران کاؤنٹ جولین کی بیٹی فلورنڈا بھی محل میں زیرِتعلیم تھی۔ فلورنڈا انتہائی خوبصورت تھی۔ جس کے حسن کا راڈرک جلد ہی شکار ہوگیا۔ ایک رات راڈرک نے شراب کے نشے میں دُھت جولین کی بیٹی فلورنڈا ریپ کیا، فلورنڈا نے اگلے دن اپنے باپ کو اپنے ساتھ ہونے والے ظلم سے آگاہ کیا۔ جس پر جولین نے راڈرک سے بدلا لینے اور اس کو سبق سکھانے کے لیے سمندر پار شمالی افریقہ میں مسلمانوں کے حکومت کے گورنر موسیٰ بن نصیر سے راڈرک کے خلاف مدد مانگی۔ اس نے موسیٰ بن نصیر کو اپنے ساتھ ہونے والے اور طلیطہ میں راڈرک کی طرف سے روا رکھے جانے والے ظلم کے بارے میں آگاہ کیا۔

جولین نے موسی بن نصیر کو قائل کرلیا کہ اسپین کے لوگ بادشاہ اور پادریوں کے گرفت میں اذیت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ملک کے تمام وسائل اور زمینوں پر پادریوں اور بادشاہ کا قبضہ ہے۔ انہوں نے اپنے بنائے ہوئے قانون کے تحت عام انسانوں کا جینا محال کردیا ہے۔ عام رعایا اب کسی غیبی مسیحا کی تلاش میں ہے اور ایسے میں اگر آپ ہمارے مدد کے لیے آگے بڑھتے ہیں تو راجگان سمیت ہسپانیہ کے عوام آپ کے ساتھ ہر قسم کے تعاون کے لیے تیار ہیں۔

موسٰی بن نصیر نے جولین کی پیشکش پر غور کیا اور اپنی فوج کے طریف ابن ملوک نامی سپہ سالار کو 300 فوجیوں کے ہمراہ اسپین کی صورتحال کا جائزہ لینے اور حقائق معلوم کرنے کے لیے روانہ کیا۔ طریف اسپین کے جنوبی ساحل پر لنگرانداز ہوا۔ جس مقام پر طریف نے اپنے لشکر کے ساتھ اسپین کی سرزمین پرقدم رکھا، وہ مقام آج بھی Tarif کے نام سے جانا جاتا ہے۔

طریف نے واپس آکر موسیٰ بن نصیر کو حقائق سے آگاہ کیا۔ یورپ کی طرف سے ہمیشہ افریقہ کو زیر کرنے کے لیے حملے کیے جاتے رہے لیکن اب شمالی افریقہ کی باری تھی۔ موسیٰ بن نصیر نے اسپین پر حملے کے لیے اپنے سب سے قابل اعتماد جنرل طارق بن زیاد کا انتخاب کیا۔

طارق بن زیاد 29 اپریل 711ء بروز بدھ کو اسلامی لشکر لے کر جبلِ طارق پر اترے اور قدوس شہر کے قریب دریائے الکبیر کے کنارے آباد شریش نامی قصبہ میں راڈرک کی ایک لاکھ فوج کے ساتھ پہلی لڑائی ہوئی جس میں راڈرک کی فوج کو بری طرح شکست ہوئی۔ اس طرح طارق بن زیاد اور بعد میں موسیٰ بن نصیر کی فوج کے ساتھ مل کر آگے بڑھتے ہوئے ہسپانیہ کے باقی علاقوں میں فتح حاصل کرنے کے بعد یورپ کی سرزمین پر اسلامی تہذیب وتمدن پر مبنی اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی۔ اس منظر کو شاعرِ مشرق علامہ اقبال نے کچھ بیان کیا تھا:

مغرب کی وادیوں میں گونجی اذاں ہماری

تھمتا نہ تھا کسی سے سیل رواں ہمارا

اے گلستان اُندلس، وہ دن ہیں یاد تجھ کو

تھا تیرے ڈالیوں میں جب آشیاں ہمارا

اندلس میں مسلمانوں کی حکومت (711ء میں طارق بن زیاد کی آمد سے لےکر 754ء تک) میں جہاں فتوحات کا سلسلہ جاری رہا وہاں وہ دور مدنی، یمنی، مضری، اور بربر قبائل کی آپس میں قبائلی چپقلش میں بھی گزرا۔ اس دوران دمشق کی اسلامی حکومت کی طرف سے یہاں حاکم نامزد ہوتے رہے۔ کسی نے چند سال، کسی نے چند ماہ اور کسی نے چند دن حکومت کی۔ ہسپانیہ کی اس خوبصورت سرزمین پر مسلمانوں سے پہلے کوئی مستحکم حکومت نہیں گزری۔

754ء میں عبد الرحمٰن اول اندلس کے حاکم بنے۔ وہ اپنے آپ کو سلطان کہتے تھے اور یہ سلسلہ عبدالرحمٰن سوم تک جاری رہا۔ عبدالرحمٰن سوم اندلس کا پہلا حکمران تھا جس نے خلافت قائم کی اور اپنے آپ کو خلیفہ کہلوانا شروع کیا۔

اندلس میں عبدالرحمٰن اول اور ان کے خاندان نے (754ء سے 1009ء تک) 250 سال حکومت کی اور یہ ایک ایسا دور تھا جس میں جہاں ہسپانیہ کے کونے کونے میں اسلامی اقدار کا بول بالا تھا وہاں فنی تعمیر کا شاہکار مسجدِ قرطبہ اور مدینہ الازہر نامی شہر بھی تعمیر ہوا۔

بنو امیہ کی حکومت ختم ہوتے ہی اندلس کی عظیم سلطنت 30 سے زائد چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہوگئی۔ غلاموں وزیروں سے لے کر سردان عرب اور بربر قبائل نے اپنے اپنے علاقوں میں خودمحتار حکومتیں قائم کیں۔ صدیوں سے تاک میں بیٹھے عیسائی حکمرانوں نے مسلمانوں کی یہ حالت دیکھ کر شمال کی جانب سے کمزور ریاستوں پر حملے شروع کیے اور کئی ریاستوں پر قبضہ کرنا شروع کردیا۔ یہ طوائف الملوکی کا دور تھا۔ اس زمانے میں اشبیلیہ کے حکمران دوسروں کی نسبت بہتر تھے۔ اشبیلیہ کے اُس وقت کے حکمران عباد بن ابوقاسم نے عیسائی فوج کے خلاف شمالی افریقہ کے بادشاہ یوسف بن تاشفین سے مدد طلب کی۔ یوسف بن تاشفین نے 1086ء میں اندلس پر حملہ کرکے عیسائی افواج کو شکست دی۔

اس کے بعد یوسف بن تاشفین نے 1091ء میں تمام مقامی ریاستوں کو ختم کرکے پورے اندلس کو ایک بار پھر اسلام کے جھنڈے تلے جمع کیا۔ جبکہ اندلس کو شمالی افریقہ میں شامل کرکے دارالحکومت کو مراکش منتقل کردیا۔ 1104ء میں یوسف بن تاشفین کی وفات کے بعد اس کا بیٹا علی ابن یوسف حکمران بنا لیکن اس کی گرفت اپنے باپ کی طرح نہ رہی اور 1145ء میں جب اس خاندان کی حکومت مراکش، الجزائر اور لیبیا سے ختم ہوئی تو وہ اندلس سے بھی محروم ہوگئے۔

اس کے بعد اندلس پر موحدین کا دور آیا جو کہ 1249ء عیسوی تک جاری رہا۔ موحدین بادشاہوں کے دور کے بعد مسلمان قبائل نے ایک بار پھر پورا ملک ٹکڑوں میں بانٹ دیا۔ یہاں تک کہ چھوٹی چھوٹی ریاستوں نے عیسائی بادشاہوں کے ساتھ دفاعی معاہدے کرلیے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمان آخر میں اپنے تمام علاقوں سے محروم ہوتے ہوتے غرناطہ تک محدود ہوگئے۔ اندلس میں مسلمانوں کا آخری دور 1238ء سے 1492ء تک رہا جبکہ غرناطہ کی حکومت بھی آخرکار 2 جنوری 1492ء میں چھن گئی۔

چلیے اب اسپین کی جانب اپنے سفر کی رُوداد جاری رکھتے ہیں۔ تقریباً 6 گھنٹے اور 25 منٹ کی پرواز کے بعد جبلِ طارق (جبرالٹر) کے چھوٹے ملک کے اوپر ہمارا طیارہ پرواز کررہا تھا۔ جی ہاں جبلِ طارق اسپین کا وہ ساحلی جزیرہ ہے جو آج برطانیہ کے زیرِانتظام ایک علیحدہ ملک ہے۔

جبلِ طارق سے گزرتے ہوئے ہمارا طیارہ بادلوں کو کاٹتا ہوا ایک وسیع آبادی کے اوپر سفر کرنے لگا۔ یہ آثار اسپین (ہسپانیہ) کے دارالحکومت میڈریڈ شہر کے دکھائی دے رہے تھے۔ اتنے میں طیارے کے پائلٹ نے میڈریڈ شہر پہنچنے کی نوید سنائی اور تھوڑی دیرمیں ہم میڈریڈ کے ہوائی اڈے ADOLFO SUAREZ BARAJAS پر لینڈ کرچکے تھے۔

(جاری ہے۔)

عظمت اکبر

عظمت اکبر سماجی کارکن ہیں۔ آپ کوسیاحت کا صرف شوق ہی نہیں بلکہ اس کے فروغ کے لیے پُرعزم بھی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔