کاروبار

برآمدات، ترسیلات زر میں کمی کے سبب ملک کو 7 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان

یہ نقصان ایسے وقت میں ہوا جب آئی ایم ایف سے ایک ارب 10 کروڑ ڈالر قرض حاصل کرنا پی ڈی ایم حکومت کے لیے چیلنج بن چکا ہے۔

پاکستان کو برآمدات اور ترسیلات میں کمی کی وجہ سے مالی سال 2023 کے ابتدائی 11 ماہ کے دوران 7 ارب 15 کروڑ ڈالر کا نقصان ہوا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ معاشی نقصان ایسے وقت میں ہوا جب عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے محض ایک ارب 10 کروڑ ڈالر قرض حاصل کرنا پی ڈی ایم حکومت کے لیے چیلنج بن چکا ہے۔

حال ہی میں اختتام پذیر ہونے والے مالی سال کے اہداف حاصل نہ ہونے کے باوجود حکومت نے مالی سال 2024 کے لیے برآمدات اور ترسیلات زر کے زیادہ تخمینے طے کیے ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ مالی سال 2023 کے جولائی تا مئی کے دوران برآمدات 3 ارب 491 کروڑ ڈالر یا 12 فیصد کم ہو کر 25 ارب 38 کروڑ ڈالر رہ گئیں جوکہ گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے دوران 28 ارب 87 کروڑ ڈالر تھیں۔

اسی طرح ترسیلات زر رواں مالی سال کے ابتدائی 11 ماہ کے دوران 12.8 فیصد کم ہو کر 24 ارب 83 کروڑ ڈالر تک آگئیں، جس سے 3 ارب 65 کروڑ ڈالر کا نقصان ہوا۔

ان دونوں شعبوں کا نقصان مجموعی طور پر اس رقم سے کہیں زیادہ ہے جو پاکستان آئی ایم ایف، کمرشل بینکوں یا دیگر قرض دینے والی ایجنسیوں سے لینے کا خواہاں ہے۔

ایک سینئر بینکر نے کہا کہ برآمدات اور ترسیلات زر کو بڑھانے کے لیے وقت صرف کرنے کے بجائے حکومت نے اپنی تمام تر کوششیں آئی ایم ایف اور دیگر ذرائع سے قرض لینے میں لگا دیں۔

حکومت نے آئی ایم ایف سے ایک ارب 10 کروڑ ڈالر حاصل کرنے کے لیے سعودی عرب سے 3 ارب ڈالر اور متحدہ عرب امارات سے 2 ارب ڈالر کی یقین دہانی حاصل کرنے کی سخت کوشش کی۔

معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ پالیسی سازوں کے پاس صورتحال پر قابو پانے کے لیے واضح حکمت عملی کا فقدان ہے کیونکہ زیادہ تر وقت قرض لینے کی حکمت عملی پر صرف ہوتا ہے۔

اس کے ساتھ ہی حکومت نے آئندہ مالی سال 2024 کے بجٹ میں برآمدات اور ترسیلات زر کو بڑھانے کے لیے کچھ غیر حقیقی توقعات شامل کی ہیں جبکہ اس کی کوئی دلیل بھی تاحال پیش نہیں کی۔

تجزیہ کاروں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ نئے مالی سال کا آغاز کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے دباؤ کے ساتھ ہوگا جس کا تخمینہ مالی سال 2023 کے لیے 6 ارب ڈالر لگایا گیا، حکومت نے 6 ارب ڈالر کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا بجٹ بھی مختص کیا ہے جس میں تجزیہ کاروں کے مطابق ترسیلات زر میں مسلسل کمی کی وجہ سے اضافہ ہوگا۔

دنیا بھر میں کرنسی کے رجحانات پر نظر رکھنے والی کمپنی ٹریس مارک کے سی ای او فیصل مامسا نے کہا کہ حکومت نے 6 ارب ڈالر کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کا بجٹ بھی رکھا ہے، جس میں تجزیہ کاروں کے مطابق ترسیلات زر میں مسلسل کمی کی وجہ سے اضافہ ہوگا لیکن حکومتی اعداد و شمار پر ہی انحصار کریں تو وہ بھی ہر ماہ 30 کروڑ ڈالر سے 70 کروڑ ڈالر کا خسارہ ظاہر کرتے ہیں۔

اگر آئی ایم ایف معاہدے (کُل مالیت 7 ارب ڈالر) کے لیے 30 جون کی ڈیڈ لائن گزر جاتی ہے تو نئے مالی سال میں صورتحال مزید مشکل ہو جائے گی۔

نئے مالی سال 2024 کے بجٹ میں حکومت نے برآمدات میں 7.2 فیصد اضافے کی پیش گوئی کی ہے، تاہم یہ تخمینہ حقیقت سے بہت دور ہے کیونکہ پاکستان کی برآمدات میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے اور عالمی سطح پر تجارت میں سست روی میں آئندہ 12 ماہ کے دوران کوئی بہتری آنے کی توقع نہیں ہے۔

ترسیلات زر (جو اوسطاً 33 کروڑ 20 لاکھ ڈالر ماہانہ کم ہو رہی ہیں) میں 8.5 فیصد اضافے کا تخمینہ لگایا گیا ہے، حالانکہ ترسیلات زر میں کمی حکومت کی ہی ایک پالیسی کی وجہ سے ہو رہی ہے جو درآمد کنندگان کو درآمدات کے لیے غیر قانونی ’گرے مارکیٹ‘ سے ڈالر خریدنے کی اجازت دیتی ہے۔

گرے مارکیٹ سرکاری بینکنگ ریٹ سے 20 روپے سے 25 روپے فی ڈالر زیادہ کی شرح پیش کرتی ہے، گرے مارکیٹ کی اس لین دین سے ترسیلات زر بھیجنے والوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے اور توقع ہے کہ یہ صورتحال آئندہ مالی سال کے دوران برقرار رہے گی، جس کے نتیجے میں ترسیلات زر میں 8.5 فیصد کی متوقع نمو کے بجائے کمی واقع ہوگی۔

مالی سال 2023 کے ابتدائی 10 ماہ کے دوران پاکستان کو براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی مد میں صرف ایک ارب 10 کروڑ ڈالر موصول ہوئے، تاہم حکومت کو مالی سال 2024 میں 2 ارب 80 کروڑ ڈالر ملنے کی توقع ہے حالانکہ حکومت کی جانب سے اس متوقع نمو کا کوئی جواز فراہم نہیں کیا گیا ہے۔

پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے خدشات پر سابق گورنر اسٹیٹ بینک کا اظہارِ تشویش

’مسلمان ایسے نہیں ہوتے‘ بولڈ تصویر شیئرکرنے پرسنجیدہ شیخ کو تنقید کا سامنا

ایران کے ساتھ تعلقات کی بحالی، سعودی وزیر خارجہ اہم دورے پر تہران پہنچ گئے