نقطہ نظر

کیا انتخابات کے نتیجے میں مضبوط حکومت بن سکے گی؟

کمزور مینڈیٹ والی متزلزل مخلوط حکومت معیشت کو بحران سے نکالنے کے لیے درکار جرات مندانہ اور فیصلہ کن اقدامات کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔

موجودہ قومی اسمبلی کی مدت پوری ہونے میں دو ماہ سے بھی کم وقت باقی رہ گیا ہے جس کے بعد پی ڈی ایم اتحاد اقتدار چھوڑنے کا پابند ہوگا اور اس کی جگہ نگراں حکومتیں لے لیں گی، جو انتخابات کے انعقاد کے لیے ضروری ہیں۔ لیکن انتخابات کے حوالے سے اب بھی غیریقینی کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ وزرا کی جانب سے مبہم موقف اختیار کرنے کی وجہ سے قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ آیا انتخابات وقت پر ہوں گے یا نہیں۔

بے یقینی میں اضافہ حال ہی میں ہونے والی ڈیجیٹل مردم شماری نے کیا ہے۔ خبریں کے مطابق انتخابات کی تاریخ اکتوبر سے آگے بڑھ سکتی ہے کیونکہ اس کی بنیاد پر حلقہ بندیاں ہوں گی۔ جبکہ دوسری جانب معیشت کا مستقبل بھی واضح نہیں ہے۔

آئینی طور پر طے شدہ تاریخ سے ہٹ کر انتخابات کی تاریخ سے کھلواڑ کی کوئی بھی کوشش ملک کے لیے تباہ کن ثابت ہوگی۔ پی ڈی ایم حکومت کی معاشی بحران سے نمٹنے میں ناکامی کو دیکھا جائے تو انتخابات میں تاخیر کے لیے وہ معیشت کو مشکل سے ہی بہانے کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں۔ عارضی اقدامات کرکے حکومت نے اصل بحران سے نمٹنے کے بجائے اسے ٹالا ہے جبکہ بحران کے ساختی ذرائع کے حل کے لیے بہت کم موثر اقدامات لیے ہیں۔

آئی ایم ایف بیل آؤٹ پیکج کو بحال کرنے میں ان کی ناکامی سے حکومت کی بدانتظامی واضح ہوتی ہے۔ انتخابات کے امکانات کے پیش نظر، اصلاحات مخالف حکومت خطرناک معاشی حالات سے موثر انداز میں نمٹنے کے لیے ضروری اقدامات کرنے سے گریز کررہی ہے۔

سیاسی خدشات کو مستحکم معیشت پر فوقیت دے کر بجٹ جیسا اہم موقع بھی گنوا دیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف نے آمدنی اور اخراجات دونوں طرف اقدامات کے فقدان پر تنقید کی۔ اس کے نتیجے میں معاہدہ ہونے کے امکانات مزید کم ہوگئے ہیں۔

بے یقینی صرف معیشت تک محدود نہیں۔ اس نے انتخابی میدان کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا ہے۔ اب اس صورتحال میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انتخاب لڑنے کی اجازت کس کو ہوگی اور کس کو نہیں، اور کیا پی ٹی آئی چیئرمین کو ان کے خلاف کسی ایک قانونی مقدمے میں نااہل قرار دے دیا جائے گا۔

سینیئر وزرا الزام لگارہے ہیں کہ 9 مئی کے تشدد کی اجازت پارٹی اور اس کی ہائی کمان نے دی تھی۔ ایسے میں پی ٹی آئی کی قسمت بھی غیر واضح ہے۔ اس بات سے قطع نظر کے کہ انتخابی عمل کی ساکھ کے لیے اس کا کیا مطلب ہو سکتا ہے، مائنس پی ٹی آئی انتخابات کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔

پی ٹی آئی کے زیادہ تر دوسری سطح کی قیادت پر مشتمل ایک نئی پارٹی، استحکامِ پاکستان کو ایسے نتائج کی راہ ہموار کرنے کے لیے بنایا کیا گیا ہے تاکہ ووٹرز کو دو روایتی جماعتوں سے ہٹ کر انتخاب کی پیشکش کی جاسکے اور مقابلے کو کافی حد تک حقیقی بنانے کی کوشش کی جاسکے۔ لیکن کیا یہ پارٹی واقعی مقابلہ کرپائے گی؟ یہ فیصلہ ووٹرز کریں گے۔ گیلپ پاکستان کے تازہ ترین سروے سے نے انکشاف کیا ہے کہ صرف ایک چوتھائی پاکستانیوں نے آئندہ انتخابات کے منصفانہ ہونے پر اعتماد کا اظہار کیا۔

ووٹر ٹرن آؤٹ اس بات کا کلیدی اشارہ ہوگا کہ ووٹر کس حد تک انتخابی عمل کو آزاد اور منصفانہ سمجھتے ہیں۔ اگرچہ انتخابات کے راستے میں بہت سے نامعلوم عناصر ہیں، لیکن یہ یقین کے ساتھ کیا کہا جاسکتا ہے کہ کم ٹرن آؤٹ کے بعد جیتنے والی حکومت کے مینڈیٹ پر سوالیہ نشان ضرور اٹھیں گے۔ گزشتہ انتخابات میں ٹرن آؤٹ 51 فیصد (2018ء)، 53 فیصد (2013ء)، 44 فیصد (2008ء) اور 41 فیصد (2002ء) کے درمیان رہا۔ 2002ء میں سب سے کم ٹرن آؤٹ فوجی حکومت کے تحت ہونے والے انتخابات کے بارے میں رائے دہندگان کے ردعمل کی عکاسی کرتا ہے اور اس لیے اسے آزاد یا منصفانہ نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔

اگر ووٹرز ٹرن آؤٹ مذکورہ بالا انتخابات سے بھی کم ہو جاتا ہے تو جو لوگ کم ٹرن آؤٹ پر اقلیتی ووٹ کے ذریعے عوامی عہدہ حاصل کریں گے، ان کا عوامی نمائندگی کا مینڈیٹ بھی کمزور ہوگا۔ اس سے ان کی جیت کی ساکھ پر شکوک پیدا ہوں گے اور یہ ان کی قانونی حیثیت کو بھی کمزور کرے گا۔

عوامی عدم اعتماد کے اس ماحول میں ایک کمزور مینڈیٹ حاصل کرنا، جس میں رائے دہندگان کی اکثریت ووٹ ڈالنے سے گریز کرسکتی ہے، اس سے نہ تو حقیقی اختیارات حاصل ہوں گے اور نہ ہی یہ کمزور جمہوریت کو بااختیار بنائے گی۔

یقیناً یہ اس بات پر بھی منحصر ہوگا کہ دونوں روایتی جماعتیں کس طرح اپنے پروگرام یا پالیسی سے ووٹ ڈالنے کے لیے عوام کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ ان کے موجودہ طرزِ عمل سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ جماعتیں اور ان کی قیادت، پی ٹی آئی کو بدنام کرنے میں حد سے زیادہ مصروف ہیں۔

دونوں جماعتوں پر حکومت کا بوجھ بھی ہے خاص طور پر ملک کو درپیش بدترین معاشی بحران کی روشنی میں، مہنگائی نے بڑے پیمانے پر عوامی عدم اطمینان کو ہوا دی ہے۔ دونوں جماعتوں کے پاس مستقبل کے لیے کوئی وژن نہیں ہے اور نہ ہی یہ بتایا جارہا ہے کہ آخر وہ ملک کو درپیش چیلنجز سے کیسے نمٹیں گی۔ اب تک عوام تک ان کی پیغام رسانی پیچیدہ، منفی اور بے سمت ہے۔

یہ ووٹرز بالخصوص نئے ووٹرز کو پُرجوش کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔ 2018ء کے بعد، 5 سالوں میں ووٹر لسٹوں میں 2 کروڑ نئے ووٹرز کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ مجموعی ووٹرز کے تناسب کا 16 فیصد ہے۔

ووٹرز ٹرن آؤٹ کے علاوہ ایک اور منظرنامے کو بھی مدنظر رکھا جانا چاہیے اور وہ یہ ہے کہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار پی ٹی آئی کو مائنس عمران خان کے فارمولے کے تحت انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی جائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پنجاب میں انتخابی معرکہ منفرد شکل اختیار کرلے گا جہاں قومی اسمبلی کی نشستیں 4 جماعتوں (مسلم لیگ ن، پی ٹی آئی، استحکامِ پاکستان پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی) میں تقسیم ہوجائیں گی حالانکہ صوبے میں مؤخر الذکر کی حمایت کافی عرصے سے کم ہو چکی ہے۔ ایسے میں کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے مجموعی اکثریت حاصل کرنا مشکل ہوسکتا ہے۔

کمزور مینڈیٹ والی اتحادی حکومت معیشت کو بحران سے نکالنے کے لیے درکار جرات مندانہ اور فیصلہ کن اقدامات کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔ معیشت کو ٹھیک کرنے کے تقاضوں سے مطابقت نہ رکھنے والے سیاسی نتائج کا امکان انتہائی تشویش کا باعث ہونا چاہیے۔

یہ سب کچھ اس لیے ہے کیونکہ معیشت کو متعدد منفی رجحانات کا سامنا ہے، جو آنے والے مہینوں میں تبدیل ہونے کے امکانات بھی نہیں ہیں۔ اندرونی اور بیرونی مالیاتی عدم توازن بہ دستور وسیع ہے، زرمبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہوچکے ہیں، مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے، ملکی اور غیر ملکی قرضے غیر مستحکم سطح پر پہنچ چکے ہیں، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں ریکارڈ کمی واقع ہوئی ہے، ترقی جمود کا شکار ہے، برآمدات میں کمی آئی ہے، بیرون ملک ترسیلاتِ زر میں کمی آئی ہے اور براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کم ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔

پاکستان بیرونی قرضوں کے جال میں پھنس چکا ہے۔ اسے جولائی سے شروع ہونے والے مالی سال میں تقریباً 23 ارب ڈالرز کے بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کا سامنا ہے جبکہ اس وقت ہمارے پاس صرف 4 ارب ڈالر کے ذخائر موجود ہیں۔

قرضوں کی بڑھتی ہوئی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ قرض لینے سے بچنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ قرضوں پر ریلیف حاصل کیا جائے۔ لیکن ایسا اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک ایک مضبوط اصلاح پسند حکومت نہ ہو اور وہ ایک طویل المدتی پالیسی منصوبے تحت ساختی اقدامات کرنے کے لیے پُرعزم ہو۔ کیا انتخابات سے ایسی حکومت وجود میں آئے گی؟


یہ مضمون 19 جون 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ملیحہ لودھی

لکھاری پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔