پاکستان

چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کے دیگر ججوں کو ’غیرضروری کشمکش‘ میں الجھا دیا، جسٹس فائز عیسیٰ

ہم دونوں ایک دوسرے کے نقطہ نظر کا احترام کرتے ہیں، سپریم کورٹ کے سب سے سینیئر جج ہونے کے ناطے سمت درست رکھنا میرا فرض ہے، نامزد چیف جسٹس

سپریم کورٹ کے نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو یقین ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے سپریم کورٹ کے دیگر ججوں کو غیر ضروری کشمکش میں الجھا دیا ہے حالانکہ سپریم کورٹ کے سربراہ ہونے کے ناطے انہیں ایسا کرنے سے گریز کرنا چاہیے تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اردو میں جاری 30 صفحات پر مشتمل ایک بیان میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے افسوس کا اظہار کیا کہ ان کے پاس اس بات پر زور دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ سپریم کورٹ جیسے آئینی اداروں کو کسی فرد کی خواہشات پر چھوڑ کر اسے ’ون مین شو‘ نہیں بننے دیا جانا چاہیے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اس بیان کے ساتھ اس سے پہلے کے نوٹس اور احکامات بھی منسلک کیے گئے ہیں، یہ وہی بیان ہے جو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جمعرات (22 جون) کو عدالت میں اُس 9 ججوں پر مشتمل بینچ پر اعتراضات کا اعلان کرنے سے پہلے پڑھ کر سنایا تھا جس کا وہ خود حصہ تھے۔

جمعرات کو یہ بیان پڑھنے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی نشست سے کھڑے ہو گئے تھے اور کہا تھا کہ وہ بینچ سے دستبردار نہیں ہو رہے لیکن وہ بینچ میں بیٹھیں گے بھی نہیں۔

ذرائع کے مطابق جسٹس فائز عیسیٰ کا یہ بیان سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیا گیا تھا تاہم بعد میں اسے ہٹا دیا گیا، اس میں کہا گیا کہ یہ وضاحت کرنا ضروری ہے کہ جب سے 14 اپریل کو سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کا نفاذ معطل کیا گیا ہے، میں نے بینچ میں نہ بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے اور خود کو چیمبر کے کام میں مصروف کرلیا۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے مشاہدہ کیا کہ چونکہ میں قانون کی معطلی کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کرنا چاہتا، اس لیے جب تک عدالت قانون کی خلاف ورزیوں کے بارے میں فیصلہ نہیں کرتی، میں بینچوں پر نہیں بیٹھوں گا۔

انہوں نے کہا کہ کہ اگر میں 9 ججوں پر مشتمل بینچ کا حصہ ہونے کے ناطے (فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کے خلاف) موجودہ کیس سنتا ہوں تو میں خود اس قانون کی خلاف ورزی کر رہا ہوں گا۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کا سیکشن 2 صرف چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے 2 سینیئر ترین ججوں پر لاگو ہوتا ہے اور یہی وجہ تھی کہ جسٹس سردار طارق مسعود نے بھی شروع میں بنچوں پر بیٹھنے سے گریز کیا تھا جب یہ قانون بنایا گیا تھا۔

لیکن بعد میں جسٹس سردار طارق مسعود نے مقدمات کی سماعت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا کیونکہ مقدمات کا بیک لاگ بڑھ رہا تھا تاہم انہوں نے ایسے مقدمات کی سماعت نہ کرنے کا فیصلہ کیا جو آئین کے آرٹیکل 184(3) کو استعمال کرتے ہوئے دائر کیے گئے تھے جوکہ بنیادی حقوق کے نفاذ سے متعلق ہے۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا ہم دونوں ایک دوسرے کے نقطہ نظر کا احترام کرتے ہیں، سپریم کورٹ کے سب سے سینیئر جج ہونے کے ناطے سمت درست رکھنا میرا فرض ہے۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج تک چیف جسٹس نے میرے مؤقف کی تردید نہیں کی بلکہ انہوں نے تو میری رائے کا جواب دینا بھی گوارہ نہ کیا۔

بیان میں آڈیو لیکس کی انکوائری کے لیے 19 مئی کو جسٹس فائز عیسیٰ کی تین رکنی عدالتی کمیشن کے سربراہ کے طور پر تعیناتی کا بھی حوالہ دیا گیا تھا لیکن چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے اس کی کارروائی روک دی تھی، جبکہ اس حقیقت کے باوجود کہ ایک آڈیو لیک کا تعلق چیف جسٹس کے ایک رشتہ دار سے بھی ہے، اس کیس کی دوبارہ سماعت 31 مئی کو ہوئی لیکن بعدازاں سماعت کی نئی تاریخ مقرر کیے بغیر ملتوی کر دی گئی۔

چونکہ کمیشن کو نوٹس بھی جاری کیا گیا تھا، اس لیے اس کے سیکریٹری کے ذریعے بینچ کے سامنے ایک جامع بیان پیش کیا گیا جس میں پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے سیکشن 2 پر روشنی ڈالی گئی، اس میں بینچوں کی تشکیل کا معاملہ چیف جسٹس کی صوابدید پر چھوڑنے کے بجائے اس مقصد کے لیے 3 سینیئر ججز پر مشتمل کمیٹی قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے وضاحت کی کہ چیف جسٹس نے مجھے ایک مخمصے میں ڈال دیا ہ، اس مخمصے سے تب ہی نکلا جاسکتا جب پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے خلاف دائر درخواستوں کا فیصلہ ہو جائے یا کم از کم اس قانون کے نفاذ کے خلاف حکم امتناع واپس لے لیا جائے۔

زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کے باوجود درآمدات پر عائد پابندیاں ختم کرنے کا فیصلہ

خلیل الرحمٰن قمر نے عورتوں کے بہترین کردار لکھے ہیں، حنا خواجہ بیات

’غیرضروری، گمراہ کن‘، پاکستان نے امریکا بھارت مشترکہ بیان کو سفارتی اصولوں کے منافی قرار دے دیا