پاکستان

آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے کی کوشش میں حکومت کی بجٹ 2024 پر نظرِ ثانی

آئندہ مالی سال میں وفاقی حکومت نئے ٹیکس کی مد میں مزید 215 ارب روپے جمع اور اخراجات میں 85 ارب روپے کی کمی کرے گی، وزیر خزانہ اسحٰق ڈار

وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے کہا کہ وفاقی حکومت نے اپنے مالی سال 2024 کے بجٹ میں متعدد تبدیلیاں متعارف کرائی ہیں تاکہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ رکے ہوئے پیکیج کو حاصل کرنے کی آخری کوشش کی جائے۔

قومی اسمبلی میں اختتامی بجٹ تقریر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان اور آئی ایم ایف نے زیر التوا جائزہ کو مکمل کرنے کی آخری کوشش کے طور پر تفصیلی مذاکرات کیے تھے۔

انہوں نے کہا کہ آئندہ ماہ سے شروع ہونے والے مالی سال کے لیے وفاقی حکومت نئے ٹیکس کی مد میں مزید 215 ارب روپے جمع کرے گی اور اخراجات میں 85 ارب روپے کی کمی کرے گی، اس کے ساتھ ساتھ مالیاتی خسارے کو کم کرنے کے لیے کئی دیگر اقدامات بھی کیے جائیں گے۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ گزشتہ چند ماہ سے قوم سوال کر رہی تھی کہ آئی ایم ایف کا نواں جائزہ کامیاب ہوگا یا نہیں، میں اس معاملے پر عوام کو اعتماد میں لینا چاہتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے تمام پیشگی کارروائیاں مکمل کر لی ہیں اور فنڈ کے مطالبے کی تعمیل حاصل کر لی ہے لیکن بیرونی مالیاتی فرق کی وجہ سے پاکستان کا کیس اس کے سامنے نہیں رکھا جا سکتا تھا۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان جائزہ کو آگے بڑھانے کے لیے ’آخری حتمی دھکا‘ دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا، جس کے بعد نویں جائزے کو مکمل کرنے کے لیے گزشتہ تین روز میں آئی ایم ایف کے وفد کے ساتھ تفصیلی مذاکرات کیے گئے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ نئے ٹیکسوں میں 215 ارب روپے کی تجویز مذاکرات کے نتیجے میں سامنے آئی، اس بات کا خیال رکھا گیا کہ ٹیکس کا بوجھ غریب اور کمزور طبقات پر نہ پڑے۔

سپر ٹیکس کے انکم سلیب میں اضافہ

اسحٰق ڈار نے کہا کہ بجٹ کے حوالے سے اراکین پارلیمان کی جانب سے مختلف معاملات پر اہم تجاویز دی گئی ہیں، سینیٹ سے 169 تجاویز موصول ہوئیں جن میں سے 19 عمومی نوعیت کی، پوری کوشش کی گئی ہے مشکل حالات کے باوجود جن تجاویز پر عمل ممکن ہو انہیں مکمل یا جزوی طور پر شامل کرلیا جائے

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ٹیکس ریونیو میں اضافے کی شدید ضرورت ہے، سپر ٹیکس زیادہ آمدنی والے افراد پر لگایا جاتا ہے اور جو یہ ٹیکس ادا کرنے کی استطاعت رکھتے ہوں، صرف ان پر لاگو ہوتا ہے، اس لیے حکومت اسے ان تبدیلیوں کے ساتھ برقرار رکھ رہی ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے کہا ہے کہ سپر ٹیکس کے نفاذ کے انکم سلیب کو 30 کروڑ روپے سے بڑھا کر 50 کروڑ روپے کردیا جبکہ پنشن اصلاحات پر بھی کام شروع ہوگیا جس کے تحت ایک سے زائد اداروں سے پنشن وصول کرنے پر پابندی ہوگی ۔

ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ ٹیکس کی شرح کو بھی مزید پروگریسیو کیا ہے پہلے سیدھا 10 فیصد تھا جسے بتدریج 6، 8 اور 10 فیصد کردیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس اس ٹیکس کے نفاذ کے لیے خصوصی شعبے منتخب کیے گئے تھے اور ان پر 10 فیصد سپر ٹیکس لگایا گیا تھا لیکن اس تفریق کو ختم کردیا ہے اور سلیبز کو بڑھا دیا گیا ہے۔

اسحٰق ڈار نے کہا ہے کہ ہم نے گزشتہ سال ملکی معیشت کے حالات کے باعث درآمدت پر کافی پابندیاں عائد کی تھیں کیوں کہ ہماری ترجیح بیرونی ذمہ داریاں پوری کرنا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے ان تمام پابندیوں کو واپس لے لیا گیا ہے جس کے بعد کاروباری برادری کو درپیش مشکلات ختم ہوجائیں گی۔

انہوں نے کہا کہ نان فائلرز کے بینک سے رقم نکالنے پر 0.6 فیصد کی شرح پر میں واضح کردوں کہ یہ معیشت کو دستاویزی بنانے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا اہم قدم ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بعض اراکین نے بونس شیئر پر ٹیکس پر اعتراض اٹھائے، کمپنیاں شیئر ہولڈرز کو نقد یا بونس شیئر کی صورت میں منافع جاری کرتی ہیں، شیئر ہولڈرز جب اپنے شیئرز فروخت کرتے ہیں تو اس پر15 فیصد ٹیکس ادا کرتے ہیں لیکن بونس شیئر کی صورت میں منافع وصول کرنے پر کوئی ٹیکس لاگو نہیں ہوتا تھا اس لیے ہم نے دونوں پر ٹیکس عائد کردیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے تمام اقدامات کریں گے کہ کاروباری اعتماد متزلزل نہ ہو۔

پرانے پنکھوں پر ٹیکس کا نفاذ 6 ماہ کیلئے مؤخر

ان کا کہنا تھا کہ توانائی کی بچت کے منصوبے کے تحت کابینہ نے زیادہ توانائی کھینچنے والے پنکھوں پر 2 ہزار روپے فیڈرل ایکسائیز ڈیوٹی عائد کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس کے بعد وزیراعظم نے اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ متعدد اجلاس کیے جس کا مقصد ریونیو اکٹھا کرنا نہیں تھا بلکہ اس لیے تھا کہ کمپنی اپنی ٹیکنالوجی تبدیل کر کے نئی ٹیکنالوجی اپنالیں کیوں کہ وہ پنکھے بہت زیادہ بجلی خرچ کرتے ہیں۔

وزیر خزانہ نے کہا اس کے علاہ بجلی کے پرانے بلبوں کا بھی یہی معاملہ تھا جس کے بعد اشتہارات کے ذریعے صنعت کو اس تبدیلی کے لیے وقت دینے کی اپیلیں کی گئیں تا کہ وہ اپنی تیاری کرسکیں چنانچہ ہم انہیں 6 ماہ کی مہلت دے رہے ہیں اور یہ ٹیکس اب یکم جنوری 2024 سے نافذ ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کے تقریباً 32 کھرب روپے مختلف ٹیکس جوڈیشل فورم پر زیر التوا 62 ہزار مقدمات میں پھنسے ہوئے ہیں، جس کے جلد حل کے لیے آلٹرنیٹ ڈسپیوٹ ریزولوشن سی (اے ڈی آر) میں ٹیکس دہندگان کا ایک اور محکمے کا ایک نمائندہ شامل کرنے اور اس کی سربراہی ہائی کورٹ کے جج کو سونپنے کی تجویز دی گئی ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ اس سے حکومت نہ صرف واجب الادا ٹیکس وصول کرسکے گی بلکہ عدالتی فومرز پر بوجھ بھی کم ہوگا اور قانونی چارہ جوئی کی لاگت میں بھی کمی آئے گی۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ موجودہ حکومت نے عام آدمی کی ضروریات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے آئندہ مالی سال کے لیے یوٹیلیٹی اسٹور کارپوریشن کو رمضان پیکج کے تحت 5 ارب اور وزیراعظم ریلیف پیکج کے تحت سستی اشیا کے لیے 34 ارب روپے مختص کیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے آئندہ مالی سال کے لیے 450 ارب روپے رکھے تھے لیکن اب اس پر نظرِ ثانی کر کے 16 ارب روپے کا اضافہ کر کے 466 ارب روپے کردیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تمام تر مشکلات کے باوجود دفاعی بجٹ کے تحت مسلح افواج کو ضروری فنڈز کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا ہے اور اس سلسلے میں کوئی رکاوٹ آڑے نہیں آنے دی جائے گی، بجٹ میں مختص رقم کو وقت پر جاری کیا جائے گا۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی، زراعت کے فروغ، تحفظ خوراک کے لیے بجٹ میں ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، وفاقی حکومت اس ضمن میں صوبائی اسمبلیوں کے مشاورت سے اقدامات اٹھائے گی۔

انہوں نے کہا کہ مالی مشکلات کے باوجود عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کو عوام تک پہنچایا گیا اور آگے بھی اس کو جاری رکھا جائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ قومی بچت اسکیموں بہبود سرٹیفکیٹ اور شہدا فیملی ویلفیئر اکاؤنٹ کے تحت سرمایہ کاری کی حد کو 50 لاکھ سے بڑھا کر 75 لاکھ روپے کرنے کی تجویز دی گئی تھی جس کے بعد اراکین کی تجویز پر اس حد کو پینشنرز بینیفٹ اکاؤنٹ کی اسکیم میں بھی لاگو کیا جارہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 9 جون کے فنانس بل میں پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی میں اضافے کا اختیار وفاقی حکومت کو دینے کی تجویز تھی لیکن دونوں ایوانوں کے اراکین نے تجویز دی کہ وفاقی حکومت کو یہ اختیار لا محدود نہ دیا جائے اس لیے فیصلہ کیا گیا کہ یہ اختیار 60 روپے سے زائد نہیں ہوگا۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ سرکاری ملازمین کے لیے اعلان کردہ سادگی اور کفایت شعاری کی پابندیاں آئندہ مالی سال بھی جاری رہیں گی۔

’پنشن اصلاحات متعارف کرادی گئیں‘

انہوں نے کہا کہ وفاقی پینشن کے سالانہ اخراجات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور یہ ناقابل برداشت ہوچکے ہیں، اس میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے، چنانچہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں پنشن فنڈ قائم کردیا گیا ہے جس کے اصول و ضوابط پر کام بھی شروع ہوگیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس سسٹم میں کئی ہائی پروفائل لوگ متعدد پنشنز وصول کرتے ہیں جو ایک ادارے سے ریٹائر ہو کر دوسرے ادارے میں جاتے ہیں اور دونوں اداروں سے پنشن وصول کرتے ہیں ایسے بھی لوگ ہیں جو 3، 3 پنشنز وصول کررہے ہیں، ملک اس صورتحال کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ اس لیے اصلاحات کے تحت 17 گریڈ یا اوپر کا ایک سرکاری ریٹائر افسر صرف ایک ادارے سے پنشن وصول کرسکے گا، یہ اس کی صوابدید پر منحصر ہے کہ وہ کئی اداروں میں سے کس ادارے سے پنشن لینا چاہے گا۔

انہوں نے کہا کہ پنشن کے حساب کتاب کے وقت ایڈہاک پنشن الاؤنس کو کمپاؤنڈنگ کے بغیر نیٹ پنشن میں شامل کیا جائے جبکہ تیسری اصلاحات یہ ہوگی کہ پنشنر، اس کے شریک حیات کی وفات کے بعد ان پر انحصار کرنے والے فیملی ممبر 10 سال کے لیے پنشن وصول کرسکیں گے۔

وزیر خزانہ نے مزید بتایا کہ پنشن کا حقدار بن جانے کے بعد سرکاری افسر کے کسی دوسری ملازمت کرنے کی صورت میں پنشن یا تنخواہ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔