پاکستان

ججوں کا حلف کہتا ہے ہمیں اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر ہونا چاہیے، جسٹس منصور علی شاہ کا نوٹ

مجھے شدید تحفظات تھے کہ اس کیس کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دینا چاہیے، سپریم کورٹ کے تمام جج پاکستان میں موجود تھے، جسٹس منصور علی شاہ

فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کے خلاف سپریم کورٹ میں جاری سماعت کے دوران بینچ سے الگ ہونے والے جسٹس منصور علی شاہ نے نوٹ میں کہا ہے کہ ججز کا حلف کہتا ہے کہ ہمیں اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر ہونا چاہیے۔

چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں سماعت کرنے والے 7 رکنی بینچ سے علیحدگی کے بعد 3 صفحات پر مشتمل جاری نوٹ میں جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نظام عدل کی بنیاد عوامی اعتماد ہے، درخواست گزار سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ میرے رشتہ دار ہیں۔

سپریم کورٹ کے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل نے وفاقی حکومت کی ہدایات پر جسٹس منصور علی شاہ پر اعتراض اٹھایا کہ ان کی درخواست گزار سابق چیف جسٹس سے رشتہ داری ہے۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ جسٹس منصور علی شاہ نے اعتراض کا جائزہ لے کر بینچ سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا تاہم بینچ کے درخواست پر 6 رکنی نیا لارجر بینچ تشکیل دیا گیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے نوٹ میں کہا کہ انصاف نہ صرف ہونا چاہیے بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے، میں نے خود کھلی عدالت میں بھی جواد ایس خواجہ کے ساتھ رشتہ داری کا بتا دیا تھا لیکن اٹارنی جنرل سمیت تمام وکلا نے میری بینچ میں موجودگی پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔

بینچ سے علیحدگی پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کا حلف کہتا ہے کہ ہمیں اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے عوامی مفاد میں سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، موجودہ زیر سماعت کیس سے جواد ایس خواجہ کسی طرح بھی متاثر نہیں ہوئے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ فوجی عدالتوں کے خلاف کیس سننے والے بینچ سے میں نے خودعلیحدگی اختیار نہیں کی، میں نے آئین پاکستان کے دفاع اور حفاظت کا حلف اٹھا رکھا ہے، اس کیس میں شفاف ٹرائل، بنیادی انسانی حقوق، انسانیت کی تکریم اور آزادی کا سوال ہے۔

بینچ کی تشکیل پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مجھے شدید تحفظات تھے کہ اس عوامی مفاد کے کیس پر سماعت کے لیے فل کورٹ بینچ تشکیل دینا چاہیے تھا اور سپریم کورٹ کے تمام جج پاکستان میں موجود تھے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میرے تحفظات کے باوجود میں فوجی عدالتوں کے خلاف کیس کی سماعت کرنے والے بینچ کا حصہ بنا اور اٹارنی جنرل نے آج سماعت کے آغاز پر کہا وفاقی حکومت کا اعتراض ہے کہ میں بینچ میں نہ بیٹھوں۔

سپریم کورٹ کے جسٹس نے کہا کہ جب ایک جج پر اعتراض اٹھایا جائے تو اسی جج نے فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ بینچ میں بیٹھے یا انکار کرے، جب ایک جج پر اعتراض ہو تو یہ دیکھتا ہے کہ عوامی اعتماد کو ٹھیس تو نہیں پہنچ رہا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے نوٹ میں بتایا کہ اعتراض کی صورت میں جج کے ساتھ ساتھ ادارے کی ساکھ کا بھی معاملہ ہوتا ہے، انصاف کی فراہمی کی غیر جانب داری مصنوعی نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں ہونی چاہیے، ظاہری اور حقیقی غیر جانب دارانہ انصاف عوامی اعتماد اور قانون کی حکمرانی کے لیے ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدالتی غیر جانب داری سے عوامی اعتماد، شفاف ٹرائل، قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی بقا برقرار رہتی ہے، عدالتی نظام میں غیر جانب داری اخلاقی نہیں بلکہ عملی ہونی چاہیے۔

جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ عدالتی نظام میں حقیقی غیر جانب داری سے جمہوری روایات، شہریوں کی بنیادی حقوق کی حفاظت ہوتی ہے، اگر کسی جج پر اعتراض کی معقول وجہ ہو تو عوامی اعتماد برقرار رکھنے کے لیے بینچ سے الگ ہو جانا چاہیے۔

اپنے اوپر ہونے والے اعتراض پر وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں تسلیم کرتا ہوں کہ جواد ایس خواجہ میرے عزیز ہیں، ایک عام شہری کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ درخواست گزار نے درخواست عوامی مفاد میں دائر کی یا ذاتی مفاد میں، میں اعتراض کو ترجیح دیتے ہوئے خود کو بینچ سے علیحدہ ہو رہا ہوں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ وفاقی حکومت کے اعتراضات کی روشنی میں خود کو بینچ سے الگ کرتا ہوں۔

خیال رہے کہ قبل فوجی عدالتوں میں آرمی ایکٹ کے تحت عام شہریوں کے مقدمات چلانے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں پر آج 7 رکنی بینچ نے سماعت کا آغاز کیا تھا۔

7 رکنی لارجر بینچ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل تھا۔

سماعت کے آغاز پر وفاقی حکومت نے جسٹس منصور علی شاہ کے بینچ میں شامل ہونے پر اعتراض اٹھا دیا، اٹارنی جنرل نے روسٹروم پر آ کر بینچ کے حوالے سے وفاقی حکومت کی ہدایات سے عدالت کو آگاہ کیا۔

اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ ایک درخواست گزار جسٹس منصور علی شاہ کے رشتہ دار ہیں، اس لیے ان کے کنڈکٹ پر اثر پڑ سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ آپ کی خواہش پر بینچ نہیں بن سکتے، حکومت عدلیہ کی تضحیک نہ کرے، حکومت ہمیں ہم خیال ججز کا طعنہ دیتی ہے، آپ کس بات پر اس عدالت کے معزز جج پر پر اعتراض اٹھا رہے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میرا ذاتی طور پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا تھا کہ ہم نے ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کیا، ہم نے عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد نہ کرنے والوں کو سزا نہیں سنائی، عدالت کے فیصلوں پر عمل درآمد اخلاقی ذمہ داری ہے، ہمارے پاس فیصلوں پر عمل کے لیے کوئی چھڑی نہیں، بہت سے لوگوں کے پاس چھڑی ہے لیکن ان کے پاس اخلاقی جواز کیا ہے؟

سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کا وضاحتی بیان

اس سے قبل سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرنے کے حوالے سے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے وضاحتی بیان جاری کر دیا اور کہا کہ فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل سے متعلق میرا مؤقف نیا نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ 2015 میں بھی رائے تھی کہ عام شہریوں کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہو سکتا، میری درخواست کو ذاتی یا خانگی معاملات کے تحت قرار دینے والے یا مجھ سے ناواقف ہیں یا گمراہ کر رہے ہیں۔

سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ میری درخواست چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حمایت میں نہیں، حامد خان سے میری رفاقت 46 برس پرانی ہے اور حامد خان سے ان درخواستوں کے بارے میں کوئی مشورہ نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی سے میری گزشتہ 50 سال سے کوئی ملاقات نہیں،15 سال پہلے عمران خان سے ملاقات ایک شادی میں ہوئی تھی۔

جسٹس ریٹائرڈ جواد ایس خواجہ نے کہا کہ میری درخواست مفاد عامہ میں دائر کی گئی ہے۔

پاکستان کی یونان میں کشتی حادثے کے بعد مہاجرین سے متعلق پالیسی پر تنقید

کرکٹ ورلڈ کپ ٹرافی کی منفرد انداز میں رونمائی

امریکا: بدترین طوفان سے 3 افراد ہلاک، درجنوں گھر تباہ