پاکستان

’لاکھوں روپے کی ادائیگی کے باوجود عازمین حج کو سہولیات فراہم نہیں کی گئیں‘

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے 25 لاکھ روپے فیس لینے کے باوجود مناسب سہولیات فراہم نہ کرنے والے پرائیویٹ آپریٹرز کے خلاف کارروائی کا انتباہ دیا۔

سرکاری اخراجات کی نگرانی کرنے والی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے صدر عارف علوی اور اس وقت حج کرنے والے قانون سازوں پر زور دیا ہے کہ وہ سرکاری اسکیم کا استعمال کرتے ہوئے دیگر پاکستانی عازمین کی حالت زار پر غور کریں۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق کمیٹی نے ان نجی آپریٹرز کے خلاف بھی سخت کارروائی کا انتباہ دیا جو حاجیوں سے 25 لاکھ روپے یا اس سے زائد فیس لینے کے باوجود مناسب سہولیات فراہم کرنے میں ناکام رہے۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین نور عالم خان نے منگل کو ایک میٹنگ میں کہا کہ ہمیں حکومت کی سرکاری اسکیم کے تحت حج کرنے والے عازمین کی طرف سے شکایات موصول ہوئی ہیں کہ انہیں ناکافی سروسز، بدترین رہائش، ناقص خوراک اور ٹرانسپورٹ کی ابتر سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان حجاج کرام نے مقدس سفر پر جانے کے لیے 12 لاکھ روپے سے زیادہ کی ادائیگی کی ہے، رکن قومی اسمبلی نے کہا کہ ہم صدر پاکستان اور اس وقت حج کرنے والے ارکان پارلیمنٹ سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ سعودی عرب میں حجاج کرام کے خدشات کو دور کریں۔

یہ معاملہ اس وقت اٹھایا گیا جب کمیٹی سال 20-2019 کے لیے وزارت تجارت سے متعلق آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لے رہی تھی۔

انہوں نے کہا کہ یہ بات بھی ہمارے علم میں آئی ہے کہ پرائیویٹ حج آپریٹرز نے عازمین سے 25 لاکھ روپے سے زائد فیس وصول کی ہے لیکن انہیں تسلی بخش سہولیات نہیں دے سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم عازمین سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی/حکومت کو لکھیں، اپنی شکایات کو سامنے لائیں جس کے بعد ان کی اس شکایت کو قانونی کارروائی کے لیے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کو بھیج دیا جائے گا، ایسے پرائیویٹ حج آپریٹرز کے لائسنسوں کو معصوم حاجیوں کو رلانے کے لیے منسوخ کر دینا چاہیے اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی وزارت مذہبی امور کا اجلاس بلا کر عازمین حج کو درپیش مسائل کے بارے میں پوچھے گی۔

کمیٹی نے ایف آئی اے اور نیب کو اراکین قومی اسمبلی اور سینیٹرز کے خلاف مقدمات کی مکمل فہرست ایک ہفتے میں فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ دونوں محکموں کو ہدایت کی کہ وہ کسی بھی جرم کے مرتکب ارکان پارلیمنٹ کے خلاف قانونی کارروائی کریں۔

نور عالم خان نے کہا کہ جو اراکین بے قصور ہیں انہیں ہراساں نہیں کیا جانا چاہیے اور انہیں عدم اعتراض سرٹیفکیٹ (این او سی) جاری کیا جانا چاہیے، یہ حاضر یا ریٹائرڈ اراکین قومی اسمبلی، سینیٹرز اور اراکین صوبائی اسمبلیوں کے سیاسی طور پر نشانہ بننے سے بچنے کے لیے ضروری ہے۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین نے وزارت داخلہ کو اسلحہ لائسنس فروخت کرنے والوں کی جانب سے شہریوں سے پیسے بٹورنے کے معاملے پر غور کرنے کی بھی ہدایت کی۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے علم میں آیا ہے کہ راولپنڈی اور لاہور میں حکومت کے سرٹیفائیڈ اسلحہ فروش اپنی سروسز کے عوض عوام سے 40 ہزار سے 60 ہزار روپے تک وصول کر رہے ہیں، ان کی اجارہ داری ختم ہونی چاہیے۔

فلم مداری: ’چلیے کسی نے اس شہر کا درد بیان کرنے کی کوشش تو کی‘

بلوچستان کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے بھی چیئرمین پی سی بی کا انتخاب روک دیا

25 لاکھ سے زائد عازمین حج وقوف عرفہ کیلئے میدان عرفات میں جمع