دنیا

امریکا: سینئر سفارت کار آزادی اظہار، اقلیتوں کے حقوق پر بات چیت کیلئے بھارت کا دورہ کریں گی

امریکی سفارت کار کا متوقع دورہ جون میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے دورہ امریکا کے بعد ہونے جا رہا ہے جہاں امریکی صدر جو بائیڈن نے ریڈ کارپیٹ بچھا کر ان کا استقبال کیا تھا، رپورٹ

سینئر امریکی سفارت کار چند روز بعد بھارت کا دورہ کریں گی جہاں وہ سول سوسائٹی کے ساتھ آزادی اظہار رائے اور اقلیتوں کی پسماندگی کے بارے میں بات کریں گی۔

غیرملکی خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے حالیہ دورہ امریکا کے موقع پر ملک میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ بدسلوکی کی تردید کے بعد سینئر امریکی سفارت کار چند دنوں میں بھارت کا دورہ کریں گی۔

رپورٹ کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے امریکی انڈر سیکریٹری برائے ریاست عذرا ضیا بھارتی حکومت کے عہدیداروں سے ملاقات کریں گی جہاں وہ عالمی چیلنجز، جمہوریت، علاقائی استحکام اور انسانی امداد پر تعاون پر تبادلہ خیال کریں گی۔

امریکی سفارت کار کا متوقع دورہ جون میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے دورہ امریکا کے بعد ہونے جا رہا ہے جہاں امریکی صدر جو بائیڈن نے ریڈ کارپٹ استقبال کیا تھا حالانکہ انسانی حقوق کے کارکنان نے تشویش کا اظہار کیا تھا کہ نریندر مودی کی حکومت میں بھارت کے اندر اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا جا رہا ہے۔

صدر جو بائیڈن اور نریندر مودی نے دفاع اور تجارت کے معاہدوں پر زور دیا جس کا مقصد چین کے عالمی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنا ہے۔

جو بائیڈن نے کہا تھا کہ انہوں نے مودی کے ساتھ انسانی حقوق پر تبادلہ خیال کیا لیکن اس موضوع پر نریندر مودی، ان کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) یا حکومت پر عوامی طور پر تنقید نہیں کی۔

امریکی سفارت کار آج سے 14 تاریخ تک بنگلہ دیش کا دورہ بھی کریں گی۔

امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ دونوں ممالک میں انڈر سیکریٹری سول سوسائٹی کی تنظیموں کے ساتھ اظہار رائے کی آزادی، ایسوسی ایشن، خواتین اور لڑکیوں، معذور افراد اور پسماندہ مذہبی اور نسلی اقلیتوں سمیت کمزور طبقات پر بات کریں گی۔

امریکا کا دورہ کرتے وقت نریندر مودی نے ملک میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کی تردید کی تھی۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ نے بھارت میں انسانی حقوق پر متعدد بار تشویش کا اظہار کیا ہے لیکن دونوں ممالک کے درمیان قریبی اقتصادی تعلقات اور چین کا مقابلہ کرنے کے لیے بھارت کی اہمیت کی وجہ سے امریکا کی جانب سے اس پر تنقید کم ہوتی ہے۔

رواں برس انسانی حقوق اور مذہبی آزادی پر جاری ہونے والی رپورٹس میں محکمہ خارجہ نے مسلمان، ہندو دلت، مسیحی اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک پر تشویش کا اظہار کیا تھا جبکہ صحافیوں اور مظاہرین کے خلاف بھی کریک ڈاؤن کا حوالہ دیا تھا۔

خیال رہے کہ بھارت اس سال عالمی پریس فریڈم انڈیکس میں 161 ویں نمبر پر آگیا ہے جبکہ عالمی سطح پر سب سے زیادہ انٹرنیٹ بند کرنے کی فہرست میں بھی پہلے نمبر پر ہے۔

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق تنظیم نے 2019 کے شہریت کے قانون سے مسلم تارکین وطن کو خارج کرنے کو بنیادی طور پر امتیازی سلوک قرار دیا تھا۔

ناقدین نے مذہب تبدیلی کے مخالف قانون سازی کی طرف بھی اشارہ کیا تھا جس میں عقیدہ کی آزادی کے آئینی طور پر محفوظ حق اور 2019 میں مسلم اکثریتی کشمیر کی خصوصی حیثیت منسوخ کرنے کو بھی چیلنج کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ بھارت میں غیر قانونی تعمیرات ہٹانے کے نام پر مسلمانوں کی ملکیتی املاک کو مسمار کرنے اور کرناٹک میں کلاس رومز میں حجاب پہننے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

وہ اہم فیچر جو اب تک ’تھریڈز‘ کا حصہ نہیں

کرکٹ ورلڈ کپ 1992 کی فتح پر دستاویزی فلم تیار

بھارت: مغربی بنگال میں بلدیاتی انتخابات کے دوران جھڑپوں میں 7 افراد ہلاک