پاکستان

خیرپور:گھریلو ملازمہ کی پراسرار موت، قبرکشائی کیلئے 4 رکنی میڈیکل بورڈ تشکیل

تشدد کے الزامات کے حوالے سے قانونی راستہ اختیار کیا جائے اور قتل کی منصفانہ اور شفاف انکوائری کی جائے، ہیومن رائٹس کمیشن

حکومت سندھ نے خیرپور کی تحصیل رانی پور میں پراسرار طور پر جاں بحق ہونے والی بچی کا پوسٹ مارٹم کرانے کے سلسلے میں قبر کشائی کے لیے 4 رکنی میڈیکل بورڈ تشکیل دے دیا۔

خیرپور کے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس روحل کھوسو نے ڈان کو بتایا کہ اس کیس میں اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) امیر علی چانگ، محکمہ صحت کے ملازم ڈاکٹر فتح میمن اور ایک کمپاؤنڈر کو بھی تفتیش کے لیے حراست میں لیا گیا ہے۔

ایک روز قبل سوبھوڈیرو ٹاؤن کے ایک سول جج نے ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز سندھ کو ہدایت کی تھی کہ بچی کی قبر کشائی کے لیے ایک میڈیکل ٹیم تشکیل دیں۔

محکمہ صحت سندھ کی جانب سے آج جاری کردہ نوٹی فکیشن کے مطابق اسپیشل میڈیکل بورڈ کی سربراہی پیپلز میڈیکل کالج (پی ایم سی) ہسپتال نوابشاہ کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کریں گے۔

بورڈ میں پی ایم سی ہسپتال نوابشاہ کے ایک پیتھالوجی پروفیسر، پیپلز یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز فار ویمن کے فرانزک ماہر اور نوشہرو فیروز ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفس کی ایک خاتون میڈیکل افسر بھی شامل ہیں۔

نوٹی فکیشن میں پی ایم سی ہسپتال نوابشاہ کے پولیس سرجن کو جلد از جلد قبرکشائی کی تاریخ طے کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

علاوہ ازیں سابق وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی شیری رحمٰن نے کہا کہ انہیں اس معاملے میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی اور پوسٹ مارٹم کی کارروائی کے بارے میں آگاہ کیا گیا ہے۔

انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر کہا کہ چاہے بچی پر تشدد کرنے والے ہوں، جعلی میڈیکل رپورٹس ہوں یا جھوٹے بیانات ریکارڈ کرنے والے ایس ایچ او، کسی کو بخشا نہیں جائے گا۔

خیال رہے کہ رانی پور تحصیل کے ایک مقامی بااثر پیر اسد شاہ کی حویلی میں گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرنے والی 10 سالہ فاطمہ پراسرار حالات میں گھر میں مردہ پائی گئی تھیں۔

اس کے بعد فاطمہ کی والدہ شمیم خاتون کی شکایت پر رانی پور تھانے میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 اور 34 کے تحت مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی گئی۔

خیرپور پولیس نے 17 اگست کو کیس کے ایک اہم ملزم کو گرفتار کیا، بعدازاں عدالت نے ملزم کو پولیس کی تحویل میں دے دیا۔

ایف آئی آر میں سنگین خامیاں

دریں اثنا سندھ ہیومن رائٹس کمیشن نے کیس کی ایف آئی آر میں سنگین خامیوں کی نشان دہی کی اور بچوں کے تحفظ اور جبری مشقت سے متعلق قوانین کے سیکشنز بھی شامل کرنے کا مطالبہ کیا۔

سندھ ہیومن رائٹس کمیشن کے چیئرپرسن اقبال ڈیتھو نے پراسرار حالات میں لڑکی کی موت کے بارے میں بڑے پیمانے پر رپورٹ ہونے والے واقعے کا از خود نوٹس لیا۔

انہوں نے کہا کہ ایف آئی آر سیکشن 302 اور 34 پی پی سی کے تحت درج کی گئی ہے اور کمیشن نے کہا کہ جبری مشقت اور تشدد سے متعلق سیکشنز جیسا کہ 370 اور 374 کو جان بوجھ کر لاگو نہیں کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ان سیکشنز میں سندھ بانڈڈ لیبر سسٹم (ابولیشن) ایکٹ 2015 کے سیکشن، سندھ پروبیشن آف امپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ 2017 کی دفعہ 3 اور 14، سندھ چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی ایکٹ 2011 کی دفعہ 2 اور 17 شامل ہیں۔

انہوں نے ایس ایس پی کو ہدایت کی کہ تشدد کے الزامات کے حوالے سے قانونی راستہ اختیار کیا جائے اور قتل کی منصفانہ اور شفاف انکوائری کی جائے، اگر مذکورہ بالا جرائم کے تحت مقدمہ تفتیش کے دوران سامنے آیا تو انسانی حقوق کے وسیع تر مفاد میں ایف آئی آر میں ان دفعات کو شامل کیا جائے۔

انہوں نے اس معاملے کی سماعت 21 اگست کو مقرر کرتے ہوئے کہا کہ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کے عہدے سے نیچے کا افسر رپورٹ کے ساتھ پیش ہوں۔

لڑکی کے والد ندیم علی فریرو نے دعویٰ کیا تھا کہ لڑکی کو پیٹ سے متعلق کسی بیماری کا سامنا تھا اور انہیں ہسپتال لے جایا گیا اور بعد ازاں ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے بعد لڑکی اپنے گھر میں دم توڑ گئیں۔

واضح رہے کہ تشدد کے نتیجے میں بچی کے ’قتل‘کے دعوے اس وقت منظر عام پر آئے جب لڑکی کی تشدد والی ویڈیوز وائرل ہوئیں۔

ویڈیوز وائرل ہونے کے بعد پولیس نے معاملے کا نوٹس لیا اور ڈی ایس پی قدوس کلوار نے لڑکی کے والدین سے ملاقات کی۔

ایران کے وزیر خارجہ کی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات

پہلی فلم اتنی فلاپ ہوئی کہ لوگ مارنے کے لیے ڈھونڈتے رہے، جاوید شیخ

خبردار! (ن)گرانی بڑھ سکتی ہے