پاکستان

نیب ترامیم سے فائدہ اٹھانے والے سیاستدانوں کو انتخابات میں مسترد کیا جاسکتا ہے، سپریم کورٹ

بعض اوقات ایسے لگتا ہےکہ زور لگا لگا کر تھک گئے کہ نیب ترامیم آرڈیننس میں غلطی نکلے لیکن مل نہیں رہی، جسٹس سید منصور علی شاہ

جسٹس سید منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ بعض اوقات ایسا لگتا ہےکہ زور لگا لگا کر تھک گئے کہ نیب ترامیم آرڈیننس (این اے او) میں غلطی نکلے لیکن مل نہیں رہی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران انہوں نے ریمارکس دیے کہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ترمیم بعض سیاستدانوں اور ان کے خاندان کے افراد کو فائدہ پہنچانے کے لیے کی گئی ہیں، تو اس کا واحد دستیاب علاج یہ ہے کہ انہیں انتخابات میں مسترد کر دیا جائے اور نیب قوانین کو بہتر بنانے کی ترامیم لانے کے لیے نئی پارلیمنٹ کا انتخاب کیا جائے۔

جسٹس سید منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ انتخابات قریب ہیں، ایک ہی آپشن ہے کہ نئی پارلیمنٹ کا انتظار کیا جائے، جو قانون کا جائزہ لے اور بہتری لائے۔

انہوں نے زور دیا کہا کہ عدلیہ اور پارلیمنٹ کو اپنے اپنے کام کرنے دیں، آئین کی نمایاں خصوصیات میں سے ایک جمہوریت کو چلنے دینا ہے۔

انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ درخواست گزار کی جانب سے اپنے حلقے کو بغیر نمائندگی کے چھوڑنا خود بڑی خلاف ورزی ہے جبکہ انہیں اپنی قومی اسمبلی کی سیٹ سے استعفیٰ دے کر اسے خالی کرنا چاہیے تھا تاکہ ان کی جگہ کسی اور کو لایا جائے۔

قبل ازیں بینچ کی سربراہی کرنے والے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نیب کیس کی 52 ویں سماعت کو سمیٹنا چاہتے تھے لیکن ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمٰن کی جانب سے عدالت سے آدھے گھنٹے کا وقت اٹارنی جنرل آف پاکستان منصور عثمان اعوان کو دینے کی استدعا کے بعد اسے منگل تک ملتوی کرنا پڑا۔

جسٹس منصور علی شاہ کی آبزرویشن اس وقت سامنے آئی جب درخواست گزار کی جانب سے سینیئر وکیل خواجہ حارث احمد نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کو اہمیت دینا یا نہ دینا ان کے مؤکل کا سیاسی فیصلہ ہے، احتساب قانون میں ترامیم نے استغاثہ پر یہ ثابت کرنا لازم کیا ہے کہ ملزمان کے پاس موجود اثاثے کرپٹ ذرائع سے حاصل کیے گئے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ مجھے درخواست گزار کی نیک نیتی سے مسئلہ ہے، اپنے حلقے کو نمائندے کے بغیر رکھنے کا مطلب پورے جمہوری نظام کو تباہ کرنا ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال بندیال نے آبزرویشن دی کہ عدالت ایک سادہ خط پر بھی ازخود نوٹس لے سکتی ہے تو جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ کوئی بھی کارروائی کرنے سے پہلے عدالت کو خط لکھنے والے کے عزائم اور شناخت کا تعین کرنا چاہیے۔

چیف جسٹس نے افسوس کا اظہار کیا کہ لوگ ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں کیونکہ روزگار کے مواقع کم ہو رہے ہیں اور بدعنوانی سیاسی طور پر طاقتور افراد کو معاشی طور پر مضبوط بنا رہی ہے۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ درخواست گزار کو اپنی استدعا کو ریاستی ذمہ داری کے تصور سے جوڑنا ہوگا تاکہ انصاف پر مبنی ایک ایسا معاشرہ قائم کیا جا سکے جہاں لوگوں کی جان و مال کا تحفظ ہو اور جہاں مجرموں کو آزاد گھومنے کی اجازت نہ ہو۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ماضی میں نیب قانون کے صریح غلط استعمال کے سبب ترمیم شدہ نیب قانون کے تحت مخصوص طبقے کو چھوٹ دی گئی، اس لیے حکومتوں کو ریاست کے معاملات چلانے کے لیے اداروں اور سرکاری ملازمین کو تحفظ فراہم کرنا تھا لیکن اس سے نگرانی میں کمی آگئی۔

ترمیم شدہ قانون کے تحت دیے گئے استثنیٰ کا ذکر کرتے ہوئے، چیف جسٹس نے اس رجحان کو بدعنوانی کے الزامات کا سامنا کرنے والے افراد کو معافی دینے کے برابر قرار دیا۔

دریں اثنا نیب نے سپریم کورٹ کے سامنے ایک تازہ رپورٹ پیش کی جس میں یکم جنوری 2023 سے اب تک کرپشن ریفرنسز واپس ہونے سے متعلق تفصیلات پر روشنی ڈالی گئی، اس فہرست میں پارک لین کیس میں سابق صدر آصف علی زرداری کا نام نمایاں ہے، جن کے خلاف احتساب عدالت نے دائرہ اختیار نہ ہونے کی وجہ سے ریفرنس واپس کر دیا اور عدالتی عملے کو ریفرنس بک حوالے کرنے کی ہدایت کی۔

اسی طرح ایل این جی کیس میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کیس مزید کارروائی کے لیے اسپیشل جج (سینٹرل) اسلام آباد کو ٹرانسفر یا ریفر کردیا گیا۔

حسین لوائی کے خلاف کیس مزید کارروائی کے لیے کراچی کی خصوصی عدالت منتقل کر دیا گیا، خواجہ عبدالغنی مجید کو مزید کارروائی کے لیے کراچی کی انسداد بدعنوانی عدالت (ملیر) کو ریفر کردیا گیا۔

حلقہ بندیوں کے شیڈول میں تبدیلی جنوری میں انتخابات کرانے کیلئے کی گئی، الیکشن کمیشن

جوان نظر آنے کیلئے چوتھی بار بوٹوکس کے انجیکشن لگوائے ہیں، شگفتہ اعجاز

مغربی کنارے میں اسرائیلی فورسز کی فائرنگ سے فلسطینی نوجوان جاں بحق