پاکستان

ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے پرویز الہٰی کے خلاف جاری ایم پی او آرڈر واپس لے لیا

اسلام آباد ہائی کورٹ کو ڈی سی اسلام آباد نے ایم پی او آرڈر واپس لینے سے متعلق آگاہ کیا جس پر عدالت نے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کی درخواست نمٹا دی۔
|

ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو آگاہ کیا ہے کہ مینٹیننس آف پبلک آرڈر (ایم پی او) آرڈیننس کے تحت سابق وزیراعلیٰ پنجاب و صدر پی ٹی آئی پرویز الہٰی کے لیے جاری کیا گیا نظربندی کا حکم واپس لے لیا گیا ہے۔

یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ نے چوہدری پرویز الہٰی کی گرفتاری پر توہین عدالت کی درخواست پر ہونے والی سماعت میں طلبی کے باوجود پیش نہ ہونے پر انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس اسلام آباد ڈاکٹر اکبر ناصر خان کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے تھے۔

یکم ستمبر کو لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے کرپشن کیس میں رہائی کے حکم کے چند گھنٹے بعد پرویز الہٰی کو اسلام آباد پولیس نے ایم پی او کے تحت دوبارہ گرفتار کر لیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کے بعد عدالت نے پرویز الہٰی کی ایم پی او کے تحت نظربندی معطل کر دی تھی اور ان کی رہائی کا حکم دیا تھا لیکن چند گھنٹوں بعد انہیں دہشت گردی کے مقدمے میں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا تھا، اس کیس میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب اس وقت جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں جو 22 ستمبر کو مکمل ہوگا۔

آج اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس طارق محمود جہانگیری نے ایم پی او کے تحت نظربندی کے خلاف پرویز الہٰی کی درخواست پر سماعت کی، اس موقع پر ڈی سی اسلام آباد عرفان نواز میمن عدالت میں پیش ہوئے۔

گزشتہ سماعت پر ڈی سی عرفان نواز میمن اور پرویز الہٰی دونوں کو آج عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا گیا تھا، تاہم پرویز الہٰی عدالت میں پیش نہ ہو سکے کیونکہ وہ اس وقت دہشت گردی کے مقدمے میں اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔

سماعت کے آغاز پر ڈی سی عرفان نواز میمن نے عدالت کو بتایا کہ پرویز الہٰی کے خلاف ایم پی او حکم واپس لے لیا گیا ہے، جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے پرویز الہٰی کی درخواست نمٹا دی۔

بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈی سی کو ہدایت دی کہ وہ عدالت کو ایف آئی آر کے بارے میں آگاہ کریں جس کی بنیاد پر پرویز الہٰی اس وقت حراست میں ہیں۔

پرویز الہٰی کی گرفتاری اور مقدمات

پرویز الہٰی پی ٹی آئی کے ان متعدد رہنماؤں اور کارکنوں میں شامل ہیں جنہیں 9 مئی کو ہونے والے ہنگاموں کے بعد پی ٹی آئی کی قیادت کے خلاف ریاستی کریک ڈاؤن کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔

انہیں پہلی بار یکم جون کو اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ (اے سی ای) نے ان کی لاہور رہائش گاہ کے باہر سے ترقیاتی منصوبوں میں مبینہ طور پر رشوت لینے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔

اگلے ہی روز لاہور کی ایک عدالت نے انہیں مقدمے سے ڈسچارج کر دیا تھا لیکن اے سی ای نے انہیں گوجرانوالہ کے علاقے میں درج اسی طرح کے ایک مقدمے میں دوبارہ گرفتار کر لیا تھا۔

اس کے بعد گوجرانوالہ کی ایک عدالت نے انہیں 3 جون کو فنڈز کے غبن سے متعلق بدعنوانی کے دو مقدمات میں بری کر دیا تھا۔

مقدمے سے ڈسچارج ہونے کے باوجود اینٹی کرپشن اسٹیبلمشنٹ نے پھر پرویز الہٰی کو پنجاب اسمبلی میں ’غیر قانونی بھرتیوں‘ کے الزام میں دوبارہ گرفتار کر لیا تھا۔

9 جون کو ایک خصوصی انسداد بدعنوانی عدالت نے اے سی ای کو غیر قانونی تعیناتیوں کے کیس کا ریکارڈ پیش کرنے کا ’آخری موقع‘ دیا تھا۔

اسی روز قومی احتساب بیورو حرکت میں آیا اور گجرات اور منڈی بہاالدین میں ترقیاتی منصوبوں میں مبینہ طور پر غبن میں ملوث ہونے پر صدر پی ٹی آئی کے خلاف ایک اور انکوائری شروع کردی گئی۔

12 جون کو سیشن عدالت نے غبن کیس میں جوڈیشل مجسٹریٹ کی جانب سے پرویز الہٰی کی بریت کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا تھا جس کے اگلے روز لاہور ہائی کورٹ نے سیشن کورٹ کے مذکورہ حکم کو معطل کردیا اور جوڈیشل مجسٹریٹ نے انہیں دوبارہ جوڈیشل لاک اپ بھیج دیا۔

20 جون کو پرویز الہٰی نے بالآخر لاہور کی انسداد بدعنوانی عدالت سے ریلیف حاصل کر لیا لیکن جیل سے رہا نہ ہو سکےکیونکہ ان کی رہائی کے احکامات جیل انتظامیہ کو نہیں پہنچائے گئے تھے۔

اسی روز ایف آئی اے نے ان پر، ان کے بیٹے مونس الہٰی اور تین دیگر افراد کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزام میں مقدمہ درج کیا۔

جس کے اگلے روز ایف آئی اے نے انہیں جیل سے حراست میں لے لیا اور منی لانڈرنگ کیس میں انہیں روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا۔

24 جون کو لاہور کی اسپیشل کورٹ سینٹرل نے سابق وزیراعلیٰ کی منی لانڈرنگ کیس ضمانت منظورکی تھی۔

تاہم 26 جون کو لاہور کی ایک ضلعی عدالت نے منی لانڈرنگ کیس کے سلسلے میں انہیں دوبارہ 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا، جس کے فوراً بعد ایف آئی اے نے انہیں کیمپ جیل کے باہر سے گرفتار کیا۔

12 جولائی کو لاہور کی سیشن عدالت نے غیر وضاحتی بینکنگ ٹرانزیکشنز کے کیس میں پرویز الہٰی کے جسمانی ریمانڈ سے انکار کے خلاف ایف آئی اے کی درخواست خارج کردی تھی۔

اس کے دو روز بعد لاہور ہائی کورٹ نے پولیس اور اے سی ای کو پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ کو کسی بھی نامعلوم کیس میں گرفتار کرنے سے روک دیا تھا۔

بعد ازاں 15 جولائی کو بینکنگ جرائم کی ایک عدالت نے منی لانڈرنگ کیس میں چوہدری پرویز الہٰی کی کیمپ جیل سے رہائی کے احکامات جاری کیے تھے۔

تاہم انہیں رہا نہیں کیا گیا تھا اور پولیس نے بتایا کہ پی ٹی آئی رہنما کے خلاف غالب مارکیٹ تھانے میں دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

یکم ستمبر کو چوہدری پرویز الہٰی کو لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے رہا کیے جانے کے بعد گھر جاتے ہوئے پولیس نے دوبارہ گرفتار کرلیا تھا، بعدازاں 2 ستمبر کو پرویز الہٰی کو اٹک جیل منتقل کر دیا گیا تھا۔

سائفر کیس کی سماعت اٹک جیل منتقل کرنے کے خلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ

پاکستان میں 35 فیصد خواتین ڈاکٹرز ملازمت نہیں کرتیں، سروے

اسرائیلی وفد کا سعودی عرب کا پہلا اعلانیہ دورہ