دنیا

مہسا امینی کی برسی، احتجاج کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کی تیاریاں

انسانی حقوق کے کارکنوں نے ممکنہ مظاہروں کو روکنے کے لیے حکومت کی جانب سے ایک اور کریک ڈاؤن کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔

ایران میں پولیس حراست کے دوران جاں بحق ہونے والی مہسا امینی کی پہلی برسی منائی جا رہی ہے جہاں انسانی حقوق کے کارکنوں نے ممکنہ مظاہروں کو روکنے کے لیے حکومت کی جانب سے ایک اور کریک ڈاؤن کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔

خبر ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق 22سالہ مہسا امینی کو ڈریس کوڈ کی مبینہ خلاف ورزی کے الزام میں مذہبی پولیس نے گرفتار کیا تھا اور اس گرفتاری کے چند دن بعد وہ انتقال کر گئی تھیں، ان کے اہل خانہ کا مؤقف ہے کہ ان کی موت سر پر چوٹ لگنے سے ہوئی لیکن ایرانی حکام نے اس دعوے کو مسترد کر دیا تھا۔

ان کی موت کے بعد ملک بھر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے پھوٹ پڑے تھے اور خواتین نے ایران کے نظام حکومت کو کھلا چیلنج کرتے ہوئے دوران احتجاج اپنے اسکارف بھی پھاڑ دیے تھے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق کئی ماہ تک جاری رہنے والے اس احتجاج میں 551 افراد کی ہلاکت اور 22 ہزار افراد کی گرفتاری کے بعد حکومتی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں یہ تحریک دم توڑ گئی تھی جس کی وجہ سے 1979 کے انقلاب کے بعد ایران کو سب سے بڑے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ ان مظاہروں کے دوران درجنوں سیکیورٹی اہلکار بھی مارے گئے تھے جبکہ سات افراد کو احتجاج سے متعلق مقدمات میں سزا سنائے جانے کے بعد پھانسی دے دی گئی تھی۔

احتجاج اور مظاہرے کرنے والوں کا کہنا ہے کہ حکام نے مہسا امینی کی برسی کے موقع پر ایک مرتبہ پھر کریک ڈاؤن کی تیاری کر لی ہے اور احتجاج میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین پر دباؤ ڈالا گیا ہے کہ وہ بولنے سے باز رہیں۔

نیویارک میں قائم ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ کریک ڈاؤن میں مارے گئے یا پھانسی پانے والے کم از کم 36 افراد کے خاندان کے افراد سے پوچھ گچھ کی گئی، انہیں گرفتار کیا گیا، مقدمہ چلایا گیا یا انہیں جیل بھیج دیا گیا۔

ہیومن رائٹس واچ کی سینئر ایرانی محقق تارا سپہری فار نے کہا کہ ایرانی حکام دوران حراست ہلاک ہونے والی مہسا امینی کی پہلی برسی کے موقع پر عوام کو اس دن کو منانے سے روکنے کے لیے اختلاف رائے پر پابندی لگانے کی کوشش کر رہی ہے۔

مہسا امینی کیس کی سب سے زیادہ رپورٹنگ کے ساتھ ساتھ انہیں ہسپتال لے جانے اور یہاں تک کے جنازے کی مکمل کوریج کرنےوالے رپورٹرز نیلوفر حمیدی اور الٰہی محمدی تقریباً ایک سال سے جیل میں قید ہیں جبکہ مہسا کے والد امجد کا انٹرویو کرنے والی ایک اور رپورٹر نازیلہ معروف کو متعدد بار گرفتار کیا جا چکا ہے۔

امجد امینی نے ایران سے باہر مقیم فارسی میڈیا کو بتایا کہ وہ اس ہفتے مغربی ایران میں کرد آبادی کے حامل آبائی شہر ساقیز میں اپنی بیٹی کی یاد میں ایک تقریب منعقد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

پراگ میں قائم ریڈیو فردا سمیت مختلف خبر رساں اداروں کے مطابق اس اعلان کے بعد انہیں انٹیلی جنس حکام نے طلب کیا تھا، انہیں گرفتار نہیں کیا گیا لیکن مہسا امینی کے ایک چچا صفا ایلی کو 5 ستمبر کو ساقیز میں حراست میں لیا گیا تھا۔

حکومت نے مغربی ایران کے علاقے ساقیز اور دیگر قصبوں میں اضافی سیکیورٹی فورسز بھیجی ہیں اور یہ مقامات احتجاج کا مرکز بن سکتے ہیں جبکہ مہسا امینی کے خاندان کی رہائش گاہ کے ارد گرد بھی فورسز تعینات کیے جانے کی اطلاعات ہیں۔

انسانی حقوق کے گروپس نے بعد میں رپورٹ کیا کہ امجد کو ان کی بیٹی کی موت کی پہلی برسی کے موقع پر سیکیورٹی فورسز نے مختصر وقت کے لیے حراست میں لیا تھا۔

کردستان ہیومن رائٹس نیٹ ورک نے کہا کہ امجد امینی کو رہائی سے پہلے خبردار کیا گیا کہ وہ اپنی بیٹی کی برسی منانے سے باز رہیں۔

ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا نے امجد امینی کی گرفتاری کی تردید کی ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ آیا انہیں مختصر وقت کے لیے حراست میں لیا گیا تھا یا نہیں۔

انسانی حقوق کے گروپس کے مطابق بدامنی کے پیش نظر ہفتے کے روز ایران کے زیادہ تر کرد علاقوں میں سیکیورٹی فورس کی بڑی تعداد تعینات کی گئی ہے۔

ایران کے صوبہ کردستان کے متعدد شہروں میں وسیع پیمانے پر ہڑتال کی بھی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

تاہم سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا کے مطابق مہسا امینی کے آبائی شہر ساقیز میں صورتحال مکمل طور پر پرامن ہے اور کرد علاقوں میں ہڑتال کی کال سیکیورٹی اور فوجی دستوں کی موجودگی کی وجہ سے ناکام ہو گئی۔

سرکاری ایجنسی نے صوبہ کردستان کے ایک اہلکار کے حوالے سے کہا کہ افراتفری پھیلانے کی منصوبہ بندی میں ملوث انقلابی گروہوں سے وابستہ متعدد ایجنٹوں کو آج صبح سویرے گرفتار کر لیا گیا۔

اگرچہ چند خواتین اب بھی سر کے اسکارف کے بغیر عوامی مقامات پر چلتی ہوئی نظر آتی ہیں لیکن ایرانی پارلیمنٹ اس حوالے سے ایک مسودہ قانون پر غور کر رہی ہے جس کی تعمیل نہ کرنے پر کہیں زیادہ سخت سزائیں دی جائیں گی۔

اقوام متحدہ کے فیکٹ فائنڈنگ مشن کی سربراہ سارہ حسین نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اپنے شہریوں کے خلاف جبر اور انتقامی کارروائیوں کو دوگنا کر رہا ہے اور نئے اور مزید سخت قوانین متعارف کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے جو خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کو روندنے کے مترادف ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایران کے حکام پر الزام عائد کیا کہ وہ اقتدار پر اپنی آہنی گرفت کو لاحق کسی بھی چیلنج کو ختم کرنے کے لیے بین الاقوامی قوانین کے تحت جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں اور اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ مہسا امینی کی موت یا کریک ڈاؤن کے بارے میں کسی ایک اہلکار سے بھی تفتیش نہیں کی گئی۔

ایران کے شدید مخالف امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں بشمول برطانیہ اور یورپی یونین نے برسی کے موقع پر احتجاج کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن پر اسلامی جمہوریہ پر نئی پابندیاں عائد کر دیں۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے ان اقدامات کا اعلان کرتے ہوئے امینی کی برسی کے موقع پر ایرانیوں سے یک جہتی کا اظہار کیا اور کہا کہ ایرانی تنہا اپنے ملک کی تقدیر کا تعین کریں گے لیکن امریکا ان کے ساتھ کھڑا ہے۔

ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنانی نے اس حوالے سے ایک بیان میں مغربی ممالک کے غیر قانونی اور غیر سفارتی اقدامات کی شدید مذمت کی۔

ایشیا کپ فائنل: سری لنکا اور بھارت فتح کے ساتھ ورلڈ کپ میں شرکت کے خواہاں

واٹس ایپ پر ’چینلز‘ نامی نئے فیچر کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

عوام کو تلخ فیصلوں میں حکومت کے ساتھ تعاون کرنا پڑے گا، چیئرمین نیپرا