پاکستان

سپریم کورٹ کا قیدیوں کی پروبیشن پر رہائی کے قوانین پر فوری عملدرآمد کا حکم

جسٹس اطہر من اللہ نے 5 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا کہ ملک بھر کی جیلوں میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔

سپریم کورٹ نے ملک بھر میں جیلوں میں موجود پروبیشن کی بنیاد پر رہائی کے حق دار قیدیوں کی رہائی کے لیے قوانین پر فوری عمل درآمد کا حکم دے دیا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان سےجاری 5 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس اطہرمن اللہ نے تحریر کیا ہے اور پروبیشن کی بنیاد پر قیدیوں کی رہائی کے لیے دائر کی گئی درخواست پر سابق چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

فیصلے میں وزیراعظم اور چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو کہا گیا ہے کہ وہ پروبیشن پر رہائی کے قوانین فعال کرنے کو یقینی بنائیں اور حکم دیا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں پروبیشن کے اہل تمام افراد کی رہائی یقینی بنائیں۔

انہوں نے کہا کہ پروبیشن کی بنیاد پر رہائی کے حق دار قیدیوں کو ان کا حق ملنا اور اس حوالے سے قوانین کا نفاذ ضروری ہے اور یہ ہر مستحق قیدی کا حق ہے وہ پروبیشن کی بنیاد پر آزاد ہو۔

مزید کہا گیا کہ حکام کی جانب سے قانون کے مطابق اپنے فرائض سرانجام دینے میں کوتاہی اور قانون پر عمل درآمد میں خلل، خاص طور پر جیلوں کے قیدیوں سے متعلق کوتاہی فرائض سے روگردانی ہے۔

خیال رہے کہ پروبیشن قانون کے تحت قیدیوں کو مشروط رہائی دی جاتی ہے یا متبادل سہولت دی جاتی ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ اپنے فرائض کی خلاف ورزی متعلقہ حکام اور ریاست کو بے نقاب کرسکتی ہے کہ جیلوں میں گنجائش سے زائد موجود قیدیوں کی طرف سے ہرجانے کا دعویٰ کیا جائے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ملک بھر کی جیلوں میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی ہونے کی وجہ سے آئینی حقوق کی فراہمی ناممکن ہوچکی ہے۔

عدالت عظمیٰ نے کہا کہ جیلوں میں عدم سہولیات کا شکار افراد کی اکثریت غریبوں کی ہے، غریب لوگوں کو ریاست بھی سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کے لیے کردار ادا نہیں کر رہی ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ فوجداری نظام بااثر افراد کے ہاتھوں کمزوروں کے استحصال اور انصاف کی عدم فراہمی کی اجازت دیتا ہے، آئین کے تحت چلنے والے معاشرے میں جیلوں کی ایسی حالت زار ناقابل برداشت ہے۔

جیلوں کی حالت زار پر بحث کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ جیل ان لوگوں کے لیے بحالی اور سماجی بہتری کے لیے اداروں کے طور پر موجود ہوتے ہیں جنہیں متعلقہ عدالت شفاف ٹرائل کے بعد سزا سناتی ہے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ہر قیدی کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرے اور قیدیوں کوآزادانہ نقل و حرکت کے علاوہ تمام آئینی حقوق حاصل ہوتے ہیں۔

فیصلے میں کہا گیا کہ یہ حکام کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ یقینی بنائیں کہ کوئی بھی قیدی آزادی کے حق سے غیرمنصفانہ طور پر محروم نہ ہو یہاں تک اگر اس سے پروبیشن کی بنیاد پر رہائی نہیں مل رہی ہو۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ قیدیوں کی دو اقسام ہوتی ہے، ایک جرم ثابت ہونے پر اور دوسرا جس پر جرم ثابت نہ ہوا ہو اور جرم ثابت نہ ہونے والے کو اس وقت تک بے گناہ تصور کیا جاتا ہے جب تک کوئی عدالت اس کو مجرم ثابت نہ کرے۔

مزید کہا گیا کہ جرم ثابت ہونے والے قیدی کو سزا کی مدت پوری کرنی ہوتی ہے، جس کا مقصد سزا پانے والوں اور دوسروں کو یہ احساس دلانا ہے کہ انہوں نے اپنے قول و فعل سے جو جرم کیا ہے وہ ناقابل قبول ہے اور سزا سے وہ آزاد نقل و حرکت سے محروم ہوتا ہے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر قیدی کا اس کے جرم کی نوعیت کو دیکھے بغیر خیال رکھے تاہم اس کی آزاد نقل و حرکت محدود کردی گئی ہے۔

چار سال میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد میں 2 کروڑ 10 لاکھ کا اضافہ

امریکی ویزا کی بڑھتی ہوئی درخواستیں، پاکستانیوں کے لیے اپائنٹمنٹس کے عمل میں تیزی

وزارت بین الصوبائی رابطہ کی پی سی بی کو چیئرمین، اراکین کے فوری انتخاب کی ہدایت