پاکستان

فیض آباد دھرنا ملکی تاریخ کا ایک اور سیاہ ترین باب ہے، شاہد خاقان عباسی

فیض آباد دھرنے کے بعد پی ٹی آئی نے تین سال اور مسلم لیگ(ن) نے 16 ماہ حکومت کی لیکن کسی نے بھی معاملے کی تحقیقات نہیں کیں، سابق وزیراعظم

سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے 2017 میں اپنے دور حکومت میں ہونے والے فیض آباد دھرنے کو ملکی تاریخ کا ایک اور سیاہ ترین باب قرار دیا ہے۔

اسلام آباد میں 20 دنوں تک (2 اکتوبر سے 27 نومبر 2017 تک) معمولات زندگی اس وقت درہم برہم ہو گئے تھے جب تحریک لبیک پاکستان، تحریک لبیک یارسول اللہ، تحریکِ ختم نبوت اور پاکستان سنی تحریک نے راولپنڈی اور اسلام آباد کو اسلام آباد ایکسپریس وے اور مری روڈ سے ملانے والے فیض آباد انٹرچینج پر قبضہ کر لیا تھا ۔

مشتعل افراد نے دعویٰ کیا کہ الیکشن ایکٹ 2017 کی منظوری کے دوران ایک بڑی سازش کے تحت ختم نبوت کے حلف میں جان بوجھ کر ترمیم کی گئی، حلف میں ترمیم کو حکومت کی طرف سے ایک ’علمی غلطی‘ سمجھا گیا اور بعد میں پارلیمنٹ کے ایک ایکٹ کے ذریعے اس کی اصلاح کی گئی۔

حکومت نے متعدد بار دھرنا ختم کرانے کے لیے مظاہرین کے ساتھ مذاکرات کی کوششیں کی تھیں جو بے سود رہی تھیں اور آخر کار مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ایک آپریشن شروع کیا گیا تھا جس میں کم از کم چھ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے تھے جبکہ ناکام آپریشن کے بعد حکومت نے مدد کے لیے فوج کو بلانے کا فیصلہ کیا تھا۔

تاہم مظاہرین کے ساتھ ایک بار پھر مذاکرات کیے گئے اور حکومت نے احتجاج ختم کرنے کے بدلے مظاہرین کے متعدد مطالبات تسلیم کر لیے تھے، معاہدے کی دستاویز پر اس وقت کے وزیر داخلہ احسن اقبال، ٹی ایل پی کے سربراہ خادم حسین رضوی اور اس وقت کے میجر جنرل نے دستخط کیے تھے۔

جمعہ کی رات جیو نیوز کے پروگرام ’آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما نے اپنی پارٹی کو مشورہ دیا کہ وہ اگر وہ سابق فوجی جرنیلوں کے خلاف کاررواءی کرنے میں سنجیدہ ہے تو وہ تقریروں اور بیان بازی کے بجائے ان کے خلاف باضابطہ شکایت درج کرائے۔

انہوں نے کہا کہ کسی ایک شخص یا افسر کے خلاف کارروائی نہیں کی جاسکتی بلکہ فیض آباد دھرنے کے تمام معاملے کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے معاملے کی مکمل تحقیقات کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو پورے معاملے کا جائزہ لینا پڑے گا، کس کی ذمہ داری تھی؟ کس نے وہ کیا جو نہیں ہونا چاہیے تھا اور کس نے وہ کیا جو ہونا چاہیے تھا؟۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ فیض آباد دھرنے کے بعد پی ٹی آئی نے کم از کم تین سال حکومت کی جبکہ مسلم لیگ(ن) نے تقریباً 16 ماہ حکومت کی لیکن دونوں میں سے کسی نے بھی اس معاملے کی تحقیقات نہیں کیں۔

انہوں نے کہا کہ اب ہماری نگران حکومت ہے، تو وہ بھی اس کی تحقیقات کر سکتے ہیں۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ فیض آباد دھرنا کے وقت احسن اقبال اور مریم اورنگزیب وزیر تھے، احسن اقبال وزیر داخلہ اور مریم اورنگزیب وزیر اطلاعات تھیں، ہم اپنے آپ کو کسی بھی تفتیشی ادارے کے سامنے پیش کرنے کے لیے تیار ہیں، ہم آئیں گے اور جو کچھ ہمیں یاد ہوگا وہ سب حقائق بتائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ دیکھیں یہ حقائق اور قانون کے بارے میں ہے، اگر کسی نے کچھ کیا ہے، اس کے خلاف کوئی شکایت اور شکایت گزار ہے، ثبوت ہے، تو آپ کو مقدمہ درج کرنا ہوگا اور جو انکوائری ہوتی ہے اس میں آپ کو قانون کا حوالہ دینا ہوگا، پھر معاملات آگے بڑھتے ہیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ ان کا پارٹی کو مشورہ ہے کہ وہ بیان بازی اور تقاریر کے بجائے مقدمہ درج کرائے تو سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ہاں، بالکل انہیں یہ کرنا پڑے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر پارٹی کے پاس ثبوت ہیں یا اگر میرے پاس ہیں، یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ثبوت پیش کریں اور شکایت گزار بنیں اور مقدمہ درج کریں، پھر تفتیش ہو گی۔

بعد ازاں شو میں جب شاہد خاقان عباسی سے اس معاملے پر آگے بڑھنے سے متعلق سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے بیان کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ شاید سب کچھ اللہ پر چھوڑ دینا ہی معاملہ ختم کرنے اور آگے بڑھنے کا طریقہ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ملک کے ان مسائل کو ایک طرف رکھنے کے ساتھ ساتھ ان سے سیکھنے اور ملک کے مستقبل کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما کا موقف تھا کہ ٹیلی ویژن پر ایسے معاملات پر بات نہیں ہونی چاہیے، اگر مجھے طلب کیا گیا تو میں ان کے سامنے تمام حقائق رکھوں گا اور احسن اقبال بھی رکھیں گے۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اس معاملے پر آگے بڑھنے کا اختیار مسلم پارٹی اور مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کے پاس ہے، اس کا آغاز 2021 کے گوجرانوالہ کے جلسے سے ہوا تھا، اگر ہم اس کی پیروی کرنا چاہتے ہیں تو ایک رسمی شکایت درج کی جانی چاہیے۔

دھرنے سے حکومت کی سُبکی ہوئی

فیض آباد دھرنے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اس وقت کے وزیراعظم نے مزید کہا کہ ہماری حکومت کو اس پر بہت ذلت کا سامنا کرنا پڑا تھا کیونکہ اس وقت کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل فنڈ ریزنگ مہم کے لیے بیرون ملک تھے اور انہیں ملک میں اس وقت کی صورتحال کے حوالے سے بیرون ملک بہت سے سوالات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ اسلام آباد کو پاکستان سے ملانے والی سڑکیں بند تھیں، لوگ ہوائی اڈوں تک پہنچنے یا آگے پیچھے سفر کرنے سے قاصر تھے، وکلا بھی عدالتوں میں نہیں پہنچ پا رہے تھے، یہ افراتفری تھی۔ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک مجھے یاد ہے فیض آباد میں دو الگ الگ دھرنے ہوئے اور جب میں وزیر اعظم تھا تو یہ دوسرا دھرنا تھا، کچھ لوگ ایک پل پر جمع ہوئے اور ہم نے ان سے بات کی لیکن بات چیت جاری رہی تھی۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ یہاں تک کہ سی سی ٹی وی کیمرے بھی منقطع تھے، یہ مہارت کے بغیر ممکن نہ تھا، ہم نے منصوبہ بنایا تھا کہ ہم انہیں خوراک کی فراہمی روک دیں گے لیکن اگلے روز درخواست دائر کر دی گئی اور آئی جی اور دیگر حکام کو طلب کر لیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے معاملہ خوش اسلوبی سے حل کرنے کا فیصلہ کیا تھا، میں اس سب کا گواہ ہوں، پولیس نے جس طرح کارروائی شروع کی وہ قابل ستائش ہے، میں نے ہیلی کاپٹر سے سب کچھ دیکھا، پنجاب پولیس کے پاس 30ہزار اہلکار موجود تھے لیکن ان کے پاس ایک بھی گاڑی نہیں تھی، صرف 250 افسران تھے، میں وہاں سے لاہور چلا گیا تھا۔

سابق وزیراعظم کا موقف تھا کہ اس دن حکومت مفلوج تھی اور کوئی اقدام کرنے کی پوزیشن میں نہ تھی۔

انہوں نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ دارالحکومت کی پولیس کوئی کارروائی کرنے کے لیے تیار نہیں تھی اور نیم فوجی دستے دستیاب نہیں تھے، ہم نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے بات کی اور انہوں نے نشاندہی کی کہ فوج کا مقصد ایسے معاملات کو ہینڈل کرنا نہیں ہے، ان کے پاس صرف بندوقیں ہیں، معاملہ بعد میں کسی طرح طے ہوا لیکن ریاست کی رٹ متاثر ہوئی۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ بعد میں یہ روایت بن گئی کہ ملک کے دارالحکومت کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے مفلوج کر دیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب پولیس کسی جانی نقصان کے خدشے کے پیش نظر کارروائی سے گریز کرتی رہی، اسلام آباد پولیس کارروائی کے لیے آئی تو وہ بری نیت سے آئی تھی، مظاہرین نے درحقیقت دارالحکومت کی پولیس کا پیچھا کیا تھا، اگلے ہفتے کے آغاز تک مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے عدالتی حکم جاری کیا گیا تھا جو حکومت کی خواہش نہیں تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ احسن اقبال نے کمشنر اور آئی جی اسلام آباد سے پوچھا تو انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں ایکشن لینا ہوگا ورنہ توہین کا سامنا کرنا پڑے گا، پھر ہم نے ایک میٹنگ کی اور احتجاج کو محدود کرنے کا فیصلہ کیا لیکن اگلے دن ایک درخواست دائر کی گئی اور پولیس کارروائی کے بعد حکم جاری کیا گیا، میں اس بات کا گواہ ہوں کہ پولیس کی جانب سے کس طرح غیر ارادی کارروائی کی گئی۔

مسلم لیگ(ن) کے رہنما نے کہا کہ میں نے اس وقت کے وزیر اقبال سے کہا تھا کہ وہ معاہدے پر دستخط نہ کریں، انتباہ دیا کہ یہ بعد میں روایت بن جائے گا، “پھر فوج اور احسن اقبال میں گفتگو ہوئی تھی اور پھر مجھ سے بات کرنے کے بعد احسن اقبال نے اس معاہدے پر دستخط کیے تھے کیونکہ اس وقت انہوں نے اس پر دستخط کرنا ضروری سمجھا تھا، اگر آپ گہرائی میں جائیں تو صورتحال کافی مشکل تھی۔

انہوں نے کہا کہ انٹر سروسز انٹیلی جنس بھی مذاکرات کا حصہ تھی اور تمام دستخطوں کی منظوری ان کی طرف سے دی گئی تھی، معاہدے پر ان کی جانب بالخصوص ادارے کے اعلیٰ عہدیداروں کے دستخط غیرمعمولی بات تھی، عام طور پر ڈسٹرکٹ کمشنر جیسا افسر اس طرح کے معاہدوں پر دستخط کرتا ہے۔

سیاہ باب

انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی کونسل کے اجلاس ہوئے اور ایک اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ اس وقت کے وزیر قانون زاہد حامد کا استعفیٰ پیش کیا جائے گا، میں یہ نہیں کہوں گا کہ یہ کسی کے کہنے پر ہوا تھا لیکن کہا گیا کہ اس معاملے کو سلجھانے کے لیے استعفیٰ ضروری ہے، ایسا کرنا بدقسمتی تھی اور یہ ہماری تاریخ کے سیاہ بابوں میں سے ایک ہے۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ابتدائی طور پر زاہد حامد نے معاملے کو سلجھانے کے لیے مجھے خود استعفے کی پیشکش کی تھی، میں یہ نہیں کہوں گا کہ یہ کسی کی خواہش تھی لیکن مشاورت کے بعد کہا گیا کہ معاملہ ختم کرنے کے لیے استعفیٰ ضروری ہے اور اس سے پہلے ختم نہیں ہوگا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ چھ سال گزرنے کے بعد یہ کہنا مشکل ہو گا کہ یہ پری پول دھاندلی تھی یا کسی کی سازش تھی، خادم رضوی اب ہمارے درمیان نہیں ہیں، وہ جانتے ہوں کہ اصل میں کیا ہوا تھا۔

دھرنے کے دوران نیوز چینلز کی بندش

سابق وزیراعظم عباسی نے واضح کیا کہ انہیں دھرنے کے دوران ٹی وی چینلز کی بندش کا علم نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ جب پاکستان میں چینلز بند ہوتے ہیں تو پیمرا یا حکومت اس کے پیچھے نہیں ہوتی، آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ کس کی ہدایت پر بند کیے جاتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے کبھی بھی چینلز کو بند کرنے یا اس کے ساتھ ساتھ کھولنے میں حصہ نہیں لیا، مریم اورنگزیب وزیر اطلاعات تھیں، اس وقت یہ ان کا کام تھا، میرا نہیں۔

مسلم لیگ(ن) کی آئندہ کی حکمت عملی

جب مسلم لیگ ن کی مستقبل کی حکمت عملی کے بارے میں پوچھا گیا تو شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ میں پارٹی کے موقف کا دفاع کرنے کے پابند نہیں اور صرف پارٹی صدر ہی ایسا کرنے کے مجاذ ہیں، انہیں جواب دینا چاہیے، اگر ہمارا بیانیہ بدل گیا ہے تو کیوں بدل گیا؟، یہ باتیں سنجیدہ ہیں، اگر کل ہمارے پاس ایک بیانیہ تھا اور آج ہم نے اسے بدل دیا تو ہمیں عوام کو بتانا پڑے گا کہ ہم اس سے کیوں دور ہو گئے۔

انہوں نے کہا کہ تمام نکتے ایک نقطہ سے جڑے ہوئے ہیں کہ 2018 کے انتخابات چوری کیے گئے تھے، آج ملک اس حال میں کھڑا ہی 2018 کے انتخابات کی وجہ سے ہے۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ میری پارٹی کی 16 ماہ کی کارکردگی کا اثر یقیناً اس کے ووٹ پر پڑے گا، ووٹر ہم سے ایسے سوالات پوچھتا ہے جن کے جواب ہمارے پاس نہیں ہوتے اور یقینی طور پر اس کا اثر انتخابات پر پڑے گا۔

جنرل باجوہ

سابق وزیر اعظم عباسی نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ کس طرح جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ نے خود تسلیم کیا تھا کہ انہوں نے ایک ہائبرڈ نظام بنایا تھا، انہوں نے یہاں تک کہا کہ انہوں نے عمران خان کی حکومت کو تحریک اعتماد میں مطلوبہ نمبر دلوائے اور یہ تمام چیزیں ریکارڈ پر ہیں۔