نقطہ نظر

کراچی: صدیوں کی کتھا! (تیسری قسط)

ہمارا آج کا سفر سمندر کنارے اور ان پہاڑیوں کے جنگلات، آبشاروں، غاروں اور قدامت کی ان پگڈنڈیوں پر ہے جہاں سندھو گھاٹی کی قدیم تہذیب اور زرعی بستیاں آباد تھیں۔

اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔


یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی کا مُستقبل ماضی کے بغیر ہو؟ کیونکہ دن دن سے اور پل پل سے جُڑا ہوتا ہے۔ جس طرح ہم گزرے دن کو بھی کل کہتے ہیں اور آنے والے دن کو بھی کل کہتے ہیں، اس لیے کیونکہ کل اور کل میں جو آج ہے وہ ایک کڑی ہے جو دونوں کو آپس میں جوڑ کر رکھتی ہے۔ تو ہم اگر کبھی تنہائی میں کچھ پل نکال کر سوچیں کہ ہماری جتنی بھی زندگی گزری خواہ وہ 24 برس ہو، 64 کی یا 84 برس ہو، ہم یہ حیات اسی صورت میں گزار پاتے ہیں جب ہم اپنے گزرے برسوں اور شب و روز سے جُڑے رہتے ہیں۔

اگر لوگوں، قوموں اور تہذیبوں سے اُن کا ماضی چھین لیا جائے تو وہ شاید زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہ پائیں گی۔ اُن میں آگے بڑھنے کی چاہت ختم ہوجائے گی، تگ و دو کا جوہر ان سے چھن جائے گا بالکل ایسے جیسے کسی وجود کو الزائمر کی بیماری لگتی ہے اور اُس کی یادداشت کے خلیے بے جان ہونے لگتے ہیں۔ آپ یہ سمجھیں کہ یہ بیماری اُس سے اُس کا ماضی چھین لیتی ہے۔ اور وہ اِسی کیفیت میں زیادہ زندگی نہیں جی سکے گا اور اگر جیے گا بھی تو حیات کے اُن رنگوں، ذائقوں اور کیفیتوں کے ریگستان میں جہاں موت کی ویرانی کے سوا کچھ نہیں بچتا۔ نہ رنگوں کے پھول کھلتے ہیں، نہ ذائقوں کی خوشبو کا کوئی جھونکا آتا ہے اور نہ غم و خوشی کی کوئی فاختہ اُڑتی ہے اور نہ آسمان کی نیلاہٹ کے گہرے رنگ میں کشش کی کوئی ناؤ چلتی ہے۔ بس ایک بے رنگ اور بے ذائقہ حیات۔

ہمارا آج کا سفر بھی سمندر کنارے اور ان پہاڑیوں کے جنگلات، آبشاروں، غاروں اور قدامت کی ان پگڈنڈیوں پر ہی ہے مگر آج ہمیں ڈاکٹر عبدالرؤف کی کراچی ریجن پر کی گئی تحقیق اور اُس تحقیق پر پاؤلو بیگی کی تازہ تحقیق پر تفصیلی بات کرنی تھی، لیکن جیسے ہی ہم سفر کرنے کی تیاری میں تھے تو ہمارے ساتھیوں میں سے کسی نے دو تین سوال کر ڈالے کہ کھیرتھر کے اس پہاڑی سلسلے پر ارتقا کا عمل کتنا قدیم ہوسکتا ہے اور ڈاکٹر عبدالرؤف سے پہلے بھی کراچی پر اس حوالے سے تحقیق ہوئی ہے یا نہیں؟

یہ سوالات اپنی جگہ پر اہم ہیں اور ان سوالات کا جواب ڈاکٹر صاحب کی رپورٹ ’اینشیئنٹ سیٹلمنٹس ان کراچی ریجن‘ (Ancient Settlements in Karachi Region) میں ضرور موجود ہوگا۔ مگر میں یہاں ہربرٹ جارج ویلز (Herbert George Wells) کی مشہور تحقیقی کتاب ’دی آؤٹ لائن آف ہسٹری‘ سے دو نقشے آپ کے سامنے پیش کررہا ہوں جو آج سے 25 اور 50 ہزار سال پہلے کے جغرافیائی حالات کو ظاہر کرتے ہیں۔

50 ہزار برس پہلے والے نقشے کو دیکھیں گے تو آپ کو میدانی اور ریگستانی سندھ، پورا پنجاب، گنگا گھاٹی پانی کے نیچے نظر آئیں گے جبکہ سندھ کے مغربی اونچائی والے پہاڑی سلسلے اور بلوچستان آپ کو پانی سے آزاد نظر آئیں گے۔ جبکہ 35 سے 25 ہزار برس پہلے والے نقشے میں آپ کو سندھ کے میدانی اور ریگستانی حصے چولستان اور کَچھ پانی کے نیچے نظر آئیں گے اور باقی بہت سارے علاقوں سے پانی زمین کو چھوڑ چکا ہے۔ ایسے منظرنامے کو ذہن میں رکھ کر مانیک بی پٹھاوالا (Maneck B Pithawala) تحقیق پر مبنی اپنی تحریر میں لکھتے ہیں کہ یہ ماحول انسان کی خوراک اور ترقی کے لیے انتہائی شاندار تھا۔

ڈاکٹر عبدالرؤف صاحب سے پہلے ہیو ٹریور لیمبرک (Hugh Trevor Lambric) نے انتہائی تفصیل سے سندھ کی ارضیات اور اُس کی تاریخ اور تاریخی مقامات پر تحقیق کی۔ نانی گوپال ماجمدر (Nani Gopal Majumdar) نے اس پہاڑی سلسلے کی تاریخ سے پہلے کے مقامات کی کھدائی اور سروے کیا تھا۔ 1976ء میں کیمبرج یونیورسٹی سے پاکستان آرکیالوجی پر کام کرنے کے لیے آرکیالوجسٹ بریجٹ آلچن (Bridget Allchin) اپنے شوہر آلچن کے ہمراہ یہاں آئی اور اس نے تقریباً پورے پاکستان میں تحقیقی کام کیا۔

اس حوالے سے اس کی کتاب ’دی رائز آف سیویلائزیشن اِن انڈیا اینڈ پاکستان‘ شائع ہوئی جس میں اُنہوں نے پاکستان کی آرکیالوجی سائٹس کے حوالے سے انتہائی اہم تحقیق کی اور تحقیق کی بنیاد پر کہا کہ یہاں خاص طور پر سندھو گھاٹی کے جنوبی اور مغربی کنارے کے اطراف جن میں ملیر اور لیاری ندی کے بیچ اور اُس سے مغرب حب، لسبیلہ اور شمال بلوچستان میں، آخری پلائسیٹوسین پیلیولیتھک لوگوں کے رہنے کے لیے مناسب ماحول تھا کیونکہ یہاں کے جغرافیائی حالات جو دریائے سندھ کے بہاؤ کی وجہ سے تخلیق ہوئے تھے اُن میں جنوب مغرب میں میسولیتھک اور پیلیولیتھک صنعتیں موجود تھیں۔

دریائے سندھ کے بہاؤ کے مغرب میں سلیمان اور کھیرتھر کے پہاڑی سلسلے ہیں جبکہ اُس کے مشرق میں ریگستان کا ایک وسیع بیلٹ ہے۔ دریا نے ان دونوں کے بیچ میں اپنے بہاؤ کے ساتھ لائی ہوئی مٹی کی ایک زرخیز تہہ جمائی جو دونوں طرف رہنے والوں کے لیے ایک پُرکشش علاقہ بنا ہوگا کیونکہ میٹھے پانی کے ساتھ گھنے جنگلات، جنگلی حیات اور نباتات کی ایک وسیع کائنات اُس میں سمائی ہوئی تھی۔

اس محقق جوڑے نے جنوبی بلوچستان میں بالاکوٹ، سندھ میں کراچی، گُجو، اونگر، حیدرآباد، عمرکوٹ، کوٹڈیجی، روہڑی، موہن جو دڑو، آمری، شمالی بلوچستان میں جھڈیر، مہرگڑھ، پیرک (سبی)، پنجاب میں ملتان سے دیرہ جات، گومل، لاہور، ٹیکسلا، پشاور تک تحقیقی کام کیا تھا اس لیے اُس کی رائے کی خاص اہمیت ہے۔

اس سفر میں ہم جب سندھو گھاٹی تہذیب اور زرعی بستیوں کی بات کریں گے تو ہمیں اُمید ہے کہ بریجٹ اور آلچن ہماری ضرور مدد کریں گے۔ اب ہم پروفیسر عبدالرؤف خان کی تحقیقی رپورٹ کی بات کرتے ہیں جو جنوبی سندھ کے سمندری کنارے اور برساتی ندیوں، یہاں قدیم انسان اور ماحول کے حوالے سے انتہائی اہم تحقیق ہے۔ چونکہ یہ ایک طویل رپورٹ ہے جس کو مکمل طور پر یہاں بیان کرنا ممکن نہیں ہے تو کوشش کرتے ہیں کہ اس کا لُب لباب یہاں بیان کیا جا سکے۔ اس تحقیق سے یہ سمجھنے میں آسانی رہتی ہے کہ منگھو پیر، مول، ملیر، لیاری، کھدیجی اور کھیرتھر پہاڑی سلسلے پر وہ کیا معروضی حالات تھے جن کی وجہ سے یہاں ابتدائی انسان کے رہنے کے لیے سازگار ماحول بنا۔

مسلسل ارضیاتی تبدیلیوں جن کا ذکر ہم ابتدا میں کرچکے ہیں، ان کی وجہ سے یہاں کا لینڈ اسکیپ اس طرح کا تخلیق ہوگیا تھا جس کے ایک طرف سمندر تھا، پانی کے چشمے تھے، پہاڑوں سے سمندر تک برساتی پانی کی ندیاں بہتیں اور یہاں گھنے جنگلات موجود تھے۔ ان تمام عناصر کی وجہ سے یہاں ایک ایسے ماحول نے جنم لیا جہاں میٹھے پانی، درختوں اور خوراک کی کمی نہیں تھی بالخصوص مچھلی اور دوسرے جانوروں کی بڑی تعداد یہاں موجود تھی۔

عبدالرؤف خان کہتے ہیں کہ چونکہ آج کے دور میں ہزاروں برس کا لینڈ اسکیپ تبدیل ہوگیا ہے مگر پھر بھی اس پہاڑی سلسلے پر ہزاروں خاندان اپنی زندگی گزار سکتے ہیں اور گزار بھی رہے ہیں۔ کراچی کے اطراف میں اب تک جو قدیم بستیاں ریکارڈ ہوئی ہیں اُن میں امیلانو، اورنگی، منگھوپیر، گجرو، نل بازار (الھڈنو بستی)، لسبیلو اور گُجو شامل ہیں جنہیں ’نیولیتھک دور‘ (2200 سے 1000 قبل از مسیح) کی قدامت کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے۔

ڈاکٹر عبدالرؤف ایک بستی ’گزکل‘ کا بھی ذکر کرتے ہیں جو کراچی سے سیوہن جانے والے قدیم راستے پر امیلانو سے فقط 5 میل اور الھڈنو بستی سے 3 میل کے فاصلے پر ہے۔ اس بستی کے قریب ایک طویل گبر بند (گبربند اُس خاص پشتے کو کہا جاتا ہے جو ارتقائی انسان پتھروں سے اس لیے بناتے تھے تاکہ پہاڑیوں سے آنے والے برساتی پانی کو روک کر اُس پانی کو اپنی مرضی سے استعمال کیا جا سکے، خاص طور پر زراعت کے لیے اور پانی کو طویل عرصے محفوظ رکھنے کے لیے ایسا کیا جاتا تھا۔ اس طرح کے قدیم پشتے کراچی سے جیکب آباد تک دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ انہیں ایران کے زرتشتیوں سے جوڑا جاتا ہے کیونکہ انڈس ویلی اور ایران کے آپس میں انتہائی قدیم اور دلچسپ رابطے رہے ہیں بلکہ ایک زمانے میں سندھ ایران کا صوبہ بھی رہا ہے۔ گبربند (پشتہ) ایک دلچسپ ایجاد تھی جس سے متعلق ہم آنے والے دنوں میں ضرور تفصیل سے بات کریں گے) کا ذکر کیا ہے جو ’تڑ واری‘ برساتی بہاؤ پر بنایا گیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کراچی کے قرب و جوار میں 6 ایسے پشتوں کی بات کرتے ہیں۔ کچھ محققین کا کہنا ہے کہ ان کی تعداد 6 سے زائد ہے۔

کھدیجی آبشاروں کے اوپر ایک قدیم انسانی بستی ہے جہاں پتھروں کی ایک دیوار موجود ہے جس کو مقامی لوگ کوٹاری (کوٹ والی) مقام کے نام سے بلاتے ہیں۔ دوسری بستی کونکر میں تھدھو ندی کے قریب کارو جبل کے پاس ہے۔ مگر کوٹاری مقام کی اپنی ایک الگ اہمیت ہے۔ یہ چھوٹی سی بستی اُس پہاڑی پر تھی جہاں سے کھدیجی وادی پر دُور دُور تک نظر رکھی جا سکتی ہے جبکہ اس مقام کے نیچے ایک خوبصورت آبشار ہے جس کا پانی وادی سے بہتا آگے جا کر مول ندی میں مل جاتا ہے۔ یہ بات بھی ممکن ہے کہ پرانے زمانے میں اس آبشار میں کافی پانی بہتا ہو اور بہتا ہوا ڈملوٹی تک پہنچتا ہو کیونکہ ملیر میں ڈملوٹی سے نکلنے والے پانی کا مرکزی مقام کھدیجی ہی رہا ہے۔

کھدیجی کی پہاڑیاں اور وادیاں وادی سندھ کی تہذیب سے پہلے کے آثار ہیں جس کو ہم ارتقائی انسان کی بستیوں میں شامل کرتے ہیں اس لیے کیونکہ وہاں وہ سارے اسباب موجود تھے جن میں ارتقائی انسان پنپ سکتا تھا جیسے شب و روز گزارنے کے لیے غاریں جو زیادہ ٹھنڈ، بارش، شدید گرمی، جانوروں کے حملے سے تحفظ فراہم کرتی تھیں، پانی کی فراوانی مطلب خوراک اور تحفظ فطری طور پر وہاں موجود تھا اس لیے اس کو یقینی طور پر نیولیتھک زمانے کی قدیم بستی کا اعزاز دے سکتے ہیں۔

محترم عبدالرؤف خان سندھ اور بلوچستان کے جنوبی حصے پر اور بھی تفصیل سے باتیں کرتا ہے جو دلچسپی سے خالی نہیں ہیں وہ میگالتھک (اس سے مراد وہ بڑے پتھر ہیں جو مرنے والوں کی یاد میں گاڑے گئے یا پتھریلا اسٹرکچر تعمیر کیا یا بنایا گیا، یہ انسان کی ترقی کی ایک اور منزل تھی جس کا زمانہ 2500 قبل از مسیح سے 200ء تک مانا جاتا ہے) بھاری پتھروں کی قبروں کی بھی بات کرتا ہے جو کراچی کے آس پاس ہیں اور جنوبی ہندوستان کے تسلسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ مول وادی کی کچھ محفوظ قبروں کا ذکر کرتا ہے جنہیں بھاری لمبے پتھر سے ڈھانپا گیا ہے ان میں سے کچھ قبریں 8 فٹ تک لمبی ہیں۔

عبدالرؤف خان کے مطابق یہ ڈملوٹی والی پتھروں کے زمانے کی قبروں سے مختلف ہیں اور ساتھ میں وہ حب وادی میں بڑے بھاری پتھروں سے بنائے ہوئے دائروں کی بھی بات کرتا ہے۔ ہمارے نصیب شاید اچھے ہیں کہ میگالتھک زمانے کے سندھ اور بلوچستان کی ان یادگاروں پر تحقیقی کام کرنے والے محترم ذوالفقار کہلوڑو صاحب بھی اس سفر میں ہمارے ساتھ شامل ہیں۔ ڈاکٹر عبدالرؤف صاحب اور بیگی صاحب کی تحقیق کے بعد ہم کلہوڑو صاحب سے اس زمانے کے متعلق ضرور تفصیلی بات کریں گے کیونکہ جس تسلسل کے ساتھ ہم آگے بڑھ رہے ہیں اُس میں یہ انتہائی اہم ہے کہ ہم انسانی ترقی کے ہر زمانے کے متعلق جانتے ہوئے آگے بڑھیں۔

سمندر کے ساحلی حصے اور قدیم پتھر کے زمانے پر بحث کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب جغرافیائی تبدیلیوں کا ذکر کرنا انتہائی ضرور سمجھتے ہیں۔ اُس کی مطالعہ اور تحقیق کے مطابق دلچسپ اور اہم بات اس خطے میں مائیکرولیتھس کی موجودگی ہے جن کا تعلق پہاڑیوں کی وادیوں اور اُن میں پانی کی چھوٹی چھوٹی گہرائیوں میں سے اُڑتی ہوئی پُرانی ریت سے ہے۔ جھیلوں کی طرح چھوٹے چھوٹے بہاؤ کی یہ گہری نشانیاں آخری برفانی زمانے کی بھی ہوسکتی ہیں۔

میسولیتھک اور آخری پیلیولیتھک دور کی ہمیں جو بستیاں ملی ہیں وہ گڈانی سے دھابیجی اور جنگشاہی تک پھیلی ہوئی ہیں۔ ان میں پہاڑیوں سے بہنے والے بہاؤ، کَلو، رن پٹیانی، کھدیجی، مول، تھدھو اور دوسری بارشی ندیوں کے قریب بہت بستیاں ملتی ہیں۔ ایک بستی یونیورسٹی کیمپس کے قریب تھی اور ایسی بستیوں کا سلسلہ حب ڈیم سے منگھوپیر پہاڑیوں تک پھیلا ہوا ہے ان پہاڑیوں میں اب بھی 12 سے زائد پانی کے چشمے ہیں جن میں سے کچھ خشک ہوچکے ہیں۔

ان بستیوں سے جو اوزار ملے ہیں اُن کے متعلق سماجی ارتقا کی بنیادوں پر آرکیالوجی کے ماہرین یہ رائے دیتے ہیں کہ سندھ اور بلوچستان کے میسولیتھک یقینی طور پر مچھلی اور جانوروں کے شکاری تھے، سمندر کے کناروں پر انہیں بھوک مٹانے کے لیے بہت سی آبی خوراک باآسانی سے مل جاتی ہوں گی جیسے سیپیاں، کچھوے، کیکڑے وغیرہ۔ ممکن ہے کہ اور بھی دیگر آبی مخلوقات بھی انہیں باآسانی کناروں پر سے مل جاتی ہوں جو اُن کے لیے پروٹین سے بھری شاندار خوراک ثابت ہوتی ہوں گی اور کم پانی والی جھیلوں سے وہ اپنی خوراک کے لیے مچھلیاں پکڑ لیتے ہوں گے۔

اس کے علاوہ کچھ بستیوں سے مختلف جانوروں کی ہڈیاں بھی دریافت ہوئی ہیں۔ اور ان حقائق کی وجہ سے یہ امکان بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ شکار کے بہت سے ہتھیار لکڑیوں سے بنائے گئے ہوں گے۔ چونکہ ان ہتھیاروں کا ملنا انتہائی مشکل ہے اور اگر یہ مل جاتے ہیں تو یہ کسی معجزے سے کم نہیں ہوگا۔

ارتقائی انسان کے زمانے پر تحقیق کرنے والے محقق تاج صحرائی کہتے ہیں کہ ’سندھو دریا اور بہت زیادہ بارشوں کی وجہ سے یہاں گھنے جنگل اور قدآور درخت تھے کیونکہ اُس وقت کے معروضی حالات میں ممکن تھا۔ جنگلی بھینسیں، چیتے، جنگلی ہرنوں کی مختلف اقسام تھیں جن کے فوسلز (فوسلز پودوں اور جانوروں کی محفوظ باقیات کو کہا جاتا ہے جو ریت اور کیچڑ، قدیم سمندروں، جھیلوں اور دریاؤں کے نیچے دب جانے اور مخصوص ماحول ملنے سے پتھر میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ ان کی کم سے کم عمر بھی 10 ہزار قبل از مسیح مانی جاتی ہے) ملے ہیں۔

’بالکل ایسے دریاؤں میں ڈولفن اور گھڑیال بھی رہتے تھے۔ دریاؤں اور جھیلوں میں مچھلیاں بہت تھیں تو یہاں کناروں پر بسنے والوں کو فش ایٹرز کہا جاتا ہے۔ میرے پاس گندم کے خوشے کا فوسلز موجود ہے۔ بلکہ میرے پاس قدیم زمانے کی حیات کے فوسلز کی ایک وسیع کلیکشن موجود ہے‘۔

ڈاکٹر صاحب آخری پیلیولیتھک دور کے اوزاروں (آخری پیلیولیتھک دور، نیولیتھک دور کی ابتدا پر ختم ہوا) کے متعلق کہتے ہیں کہ دو انچ سے کم مگر ایک تیز دھار چُھری جیسا کاٹنے کا اوزار کھدیجی وادی سے ملا ہے اور حب کے قریب بھی ایسے اوزار دریافت ہوئے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پیلیولیتھک بستیوں میں سے کچھ بستیوں پر میسولیتھک زمانے کے لوگ آباد رہے ہوں گے۔

کچھ بستیوں میں ان کے رہنے کی نشانیاں نہیں ملتیں۔ مگر کونکر، لانڈھی کے جنوب میں، واگھو ڈر (ریڑھی میان) کے قلعے کی دیوار سے جو نوکدار اور تیز دھار والے تیر کی طرح ہتھیار ملا ہے وہ میسولیتھک دور کے ہتھیاروں سے بالکل الگ ہے۔ جس سے لگتا ہے کہ یہ آخری پلائسٹوسین کے زمانے کا ہے۔ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس جگہ پر انسانی سرگرمی اس سے بھی قدیم رہی ہوگی۔

ڈاکٹر صاحب کی طویل تحقیقی رپورٹ سے آپ نے اہم باتیں ملاحظہ کیں۔ یہ ایک انتہائی حیرت انگیز تحقیق تھی۔ اس اہم تحقیق پر پائلو بیگی نے مختلف ادوار پر ترقی یافتہ سائنسی بنیادوں پر تحقیق کی جو اب میں آپ کو بتانے جارہا ہوں۔ بیگی صاحب کی تحقیق کا مطالعہ کرنے کے بعد آپ یقیناً حیران ہوں گے۔ مگر اس رپورٹ سے پہلے اپنے ذہن سے موجودہ کراچی کی تصویر کو بالکل مٹادیں کیونکہ اگر موجودہ منظرنامہ آپ کے ذہن میں رہا تو گزرے زمانوں کو سمجھنے میں ضرور مشکل ہوگی۔

گزشتہ حصوں میں ہم نے اُن زمانوں کے اسکیچ اس لیے شیئر کیے تھے تاکہ ہم اُن زمانوں کے لینڈ اسکیپ کے منظرنامے آپ کے ذہن میں بُن سکیں۔ یہ تو ہزاروں برسوں کی کتھا ہے آپ سوچیں جب آپ فقط 100 برس سے بھی کم وقت پرانی عبداللہ شاہ غازی کے مزار کی ایک بلیک اینڈ وائٹ تصویر دیکھتے ہیں جہاں ایک ٹیلے پر درگاہ بنی ہوئی ہے اور وہ دیکھ کر ہم سب حیران رہ جاتے ہیں کہ ایک سو برس میں اتنی تبدیلی کیسے آگئی؟

مگر چونکہ ماضی کے مقابلے میں حال میں انسان میں ہر حوالے سے تیزی آئی ہے۔ مگر اس تیزی کی بنیادیں کم سے کم بھی 25 ہزار برس قبل مسیح کے پُرخطر، پُراسرار، پُرآشوب اور اچانک آجانے والے خطرات اور خوف سے بھری پڑی تھیں۔ کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ ایک زمانے میں کراچی کے ان ساحلوں پر Giant Mangrove کے گھنے جنگلات تھے یہ تمر کے جنگلات کی وہ نسل ہے جو دیو ہیکل کہلاتی ہے؟ آنے والے سفر میں ہم تمر کے اُن دیوہیکل درختوں کے جنگلات میں بھی جائیں گے۔

حوالہ جات

ابوبکر شیخ

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔