پاکستان

اسلام آباد ہائیکورٹ نےعمران خان کی سائفر کیس، ٹرائل کورٹ سماعت کے خلاف درخواستیں یکجا کردی

عدالت عالیہ نے خصوصی عدالت کے فرد جرم عائد کرنے کے حکم کے خلاف دائر درخواست پر عائد اعتراضات بھی ختم کر دیے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس کا ٹرائل روکنے اور فرد جرم عائد کرنے کے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی درخواستیں یکجا کر دی۔

سائفر کیس کا معاملہ ایک سفارتی دستاویز سے متعلق ہے جو چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان سے گم ہوگیا تھا، جس کے حوالے سے پی ٹی آئی نے دعویٰ کیا تھا کہ سائفر میں عمران خان کو وزارت عظمیٰ سے ہٹانے کے لیے دھمکی دی گئی تھی۔

واضح رہے کہ 5 اگست کو چیئرمین پی ٹی آئی کو توشہ خانہ کیس میں 3 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی اور ان کو اٹک جیل منتقل کردیا گیا تھا لیکن بعدازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی سزا معطل کردی تھی، تاہم سائفر کیس میں جوڈیشل ریمانڈ پر ہونے کی وجہ سے عمران خان جیل میں ہی رہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے 26 ستمبر کو اٹک ڈسٹرکٹ جیل سے اڈیالہ جیل راولپنڈٰی منتقل کرنے کی عمران خان کی درخواست قبول کی تھی۔

وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے 30 ستمبر کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت قائم خصوصی عدالت میں چالان پیش کیا تھا جس میں سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے نام سائفر کیس کے مرکزی ملزمان کے طور پر شامل تھے۔

واضح رہے کہ عمران خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں متعدد درخواستیں دائر کر رکھی ہیں جن میں ٹرائل کورٹ میں سائفر کیس کی کارروائی روکنے، توشہ خانہ کیس کا فیصلہ منسوخ کرنے اور سائفر کیس میں فرد جرم عائد کرنے کے خلاف درخواستیں شامل ہیں۔

آج اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے سائفر کیس کا ٹرائل روکنے کی متفرق درخواست پر سماعت کی اور اس کو مرکزی درخواست کے ساتھ یکجا کر دیا جس میں عمران خان نے کیس منسوخ کرنے اور سماعت کے لیے مقرر کرنے کی استدعا کی ہے۔

دوران سماعت چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ پیش ہوئے اور مؤقف اپنایا کہ سائفر کیس ٹرائل کورٹ میں کارروائی روکنے اور فرد جرم عائد کرنے کے فیصلے کے خلاف درخواست دائر کی ہے۔

وکیل نے کہا کہ معاملہ ہائی کورٹ میں چل رہا ہے اور فیصلہ محفوظ ہے، لاہور ہائی کورٹ نے بھی ایف آئی اے کے ایک کیس میں حکم امتناع جاری کیا ہوا ہے۔

لطیف کھوسنہ نے دلائل دیے کہ ہم نے بار بار کہا کہ جلدی نہ کی جائے معاملہ ہائی کورٹ میں چل رہا ہے۔

لطیف کھوسہ نے مؤقف اپنایا کہ ہمیں آفیشل سیکرٹ ایکٹ سے متعلق کافی تحفظات ہیں، کون سی سیکیورٹی کو خطرہ ہوا یا حساس معلومات لیک ہوئی ہیں؟

انہوں نے دلائل دیے کہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بھی راجا بازار میں تقریر میں ایسے ہی بتایا تھا تو کیا ہوا، میرے مؤکل قومی ہیرو ہیں اور دنیا انہیں جانتی اور مانتی ہے کہ اب وہ بے گناہ جیل میں ہیں۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ آج صرف متفرق درخواست لگی ہے، اگر آپ کہیں تو میں مرکزی درخواست کے ساتھ یکجا کرلیتے ہیں۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ بالکل آپ اس کو سائفر کیس کی اخراج کی درخواست کے ساتھ لگا دیں لیکن سماعت 17 تاریخ سے پہلے مقرر کریں۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ 17 اکتوبر کو کیا ہونا ہے، جس پر لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ 17 کو بڑی بدمزگی ہونی ہے، ٹرائل چل رہا ہے، فرد جرم عائد ہونی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں دیکھ لیتا ہوں اور اس پر آرڈر بھی کردوں گا اور 17 اکتوبر سے پہلے سماعت کے لیے مقرر کریں گے۔

اسی کے ساتھ عدالت نے ٹرائل روکنے کی درخواست سائفر کیس کے اخراج مقدمہ کی درخواست کے ساتھ یکجا کردی۔

دریں اثنا عمران خان کے وکیل نعیم حیدر پنجوتھا نے سائفر کیس میں ضمانت کے لیے عمران خان کی درخواست پر سماعت میں تاخیر پر تنقید کی۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر جاری بیان میں نعیم حیدر پنجوتھا نے کہا کہ آج کی درخواست 2 بجے تک شروع ہونی تھی لیکن 2 بج کر 34 منٹ تک درخواست پر سماعت شروع نہیں ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ سماعتیں بھی تاخیر سے شروع ہوئی ہیں جس کی وجہ سے وہ ملتوی ہوگئیں۔

فرد جرم کے خلاف درخواست پر عائد اعتراض ختم

علاوہ ازیں اسلام آباد ہائی کورٹ نے 9 اکتوبر کو خصوصی عدالت کے فرد جرم عائد کرنے کے حکم کو چیلنج کرنے والی درخواست پر اعتراضات بھی ختم کر دیے ہیں۔

جسٹس عامر فاروق نے آج اس درخواست پر بھی سماعت کی جبکہ عمران خان کے وکیل شیر افضل مروت عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور دلائل دیے کہ ان کے مؤکل نے کیس کی کاپیوں کو قبول نہیں کیا لیکن آرڈر میں کچھ اور لکھا ہوا ہے۔

وکیل شیر افضل مروت نے دلائل دیے کہ پی ٹی آئی چیئرمین نے فرد جرم کے چالان کی کاپیوں کو تسلیم نہیں کیا لیکن جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے اس کے مترادف دعویٰ کیا تھا۔

وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ درخواست پر اعتراضات ختم کیے جائیں، جس پر جسٹس عامر فاروق نے جواب دیا کہ جن رولز کے تحت اعتراضات اٹھائے گئے ہیں وہ ان کا جائزہ لیں گے اور یہ کہ کس طرح اعتراضات ختم کیے جائیں۔

وکیل شیر افضل مروت نے کہا کہ خصوصی عدالت نے جیل ٹرائل کے خلاف عمران خان کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کا بھی انتظار نہیں کیا۔

بعدازاں عدالت نے رولز کا جائزہ لینے کے بعد درخواست پر اعتراضات ختم کرنے کا حکم دیا۔

’مایوس نہ ہوں‘ شفاف انتخابات کا مطالبہ کریں، عمران خان کا کارکنوں کو پیغام

پی ٹی آئی کی جانب سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ’ایکس‘ کے ذریعے جاری کردہ پیغام کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ جب 5 اگست کو مجھے اٹک جیل میں قید کیا گیا تھا تو پہلے چند روز میرے لیے خاصے مشکل تھے، سونے کے لیے میرے پاس بستر نہیں تھا اور مجھے فرش پر لیٹنا پڑتا تھا جہاں دن کے وقت کیڑے مکوڑے اور رات کو مچھر ہوتے تھے، لیکن اب میں اس میں ایڈجسٹ ہوگیا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ ’آج کے عمران خان میں اور اُس عمران خان میں جس سے 5 اگست کے روز قید کیا گیا تھا، زمین آسمان کا فرق ہے‘۔

عمران خان نے کہا کہ میں آج روحانی، ذہنی اور جسمانی طور پر پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط اور طاقت ور ہوں کیونکہ جیل کی تنہائی میں مجھے قرآنِ پاک کا بغور مطالعہ کرنے کا موقع ملا جس سے میرا ایمان مزید پختہ ہوا اور قرانِ پاک کے ساتھ ساتھ میں دیگر کتب کا مطالعہ بھی کر رہا ہوں اور اپنی سیاسی زندگی کے گزشتہ چند برسوں کے واقعات پر بھی غور کر رہا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ یہ لوگ مجھے جس جیل میں بھی رکھیں، جیسے حالات میں بھی رکھیں آپ گھبرائیں نہیں اور نہ ہی میرے متعلق پھیلائی جانے والی افواہوں سے پریشان ہونا ہے، میں عوام کے حقِ حاکمیت اور آئینِ پاکستان کی بنیادی ترین شرط، صاف شفاف الیکشن، کے مطالبے سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹوں گا۔

عمران خان نے کہا کہ جو لوگ مجھے کہہ رہے ہیں کہ آپ ملک چھوڑ کر چلے جائیں ان کو میرا ایک ہی جواب ہے کہ میرا جینا مرنا پاکستان کے ساتھ ہے اور میں اپنی دھرتی کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گا۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے سائفر کیس سے متعلق کہا کہ جہاں تک سائفر مقدمے کا تعلق ہے، یہ مقدمہ سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ، ڈونلڈ لو کو بچانے کے لیے گھڑا گیا ہے، ملک کا منتخب وزیراعظم تو میں تھا، جنرل (ر) باجوہ کے ساتھ مل کر غداری تو میرے ساتھ کی گئی اور آج میرے خلاف مقدمہ اس لیے قائم کیا گیا کہ میں نے پاکستان کے عوام کو، جو کہ اس ملک کے اصل حاکم ہیں، اس غداری کی خبر دی تھی۔

انہوں نے کہا کہ مجھے اگر کسی چیز کی تکلیف ہے تو اُن کارکنان، خصوصاً خواتین کارکنان، کی اسیری کی تکلیف ہے جنہیں طاقت کے گھمنڈ میں مبتلا چند افراد نے اپنی انا کی تسکین کے لیے کئی ماہ سے قید کیا ہوا ہے۔

عمران خان نے کہا کہ میری عدلیہ سے اپیل ہے کہ ہمارے کارکنان کو رہائی دلائی جائے۔

انہوں نے پیغام میں کہا کہ ’آخر میں، آپ ہمت نہیں ہاریں، آپ ثابت قدمی سے ڈٹے رہیں، یہ آزمائش کا وقت ختم ہو کر رہے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ’ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے‘۔

عمران خان نے کہا کہ آپ ہر فورم پر اس غیر منتخب حکمران ٹولے اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف آواز اٹھاتے رہیں اور ملک میں صاف شفاف الیکشن کا مطالبہ کرتے رہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں پیشن گوئی کر رہا ہوں کہ جس دن بھی الیکشن ہوا، ان شااللہ پاکستان کے عوام کروڑوں کی تعداد میں نکلیں گے اور تحریکِ انصاف کو ووٹ ڈال کر لندن پلان والوں کو شکست دیں گے، یہ لوگ جتنی مرضی دھاندلی کرلیں، ان کا مقدر صرف اور صرف شکست ہے۔

پاک-بھارت میچ: احمد آباد میں کرکٹ بخار، ہسپتالوں میں رات ٹھہرنے والے مریضوں کا اچانک رش

خواتین کا پورا لباس نہ پہننا مرد کو ہراساں کرنا ہے، خلیل الرحمٰن قمر

فلسطین-اسرائیل تنازع: فیصلہ کن موڑ بھی، آخری موقع بھی!