نقطہ نظر

سفرنامہ ہسپانیہ: بارسلونا میں مٹرگشت (ساتویں قسط)

چاہے آپ ساحل کے کنارے بیٹھ کر فرانسیسی سرحد کا نظارہ کرنا چاہتے ہوں، فنِ تعمیر کے کمالات دیکھنا پسند کرتے ہوں یا فٹبال کے کھیل کے مداح ہوں، سیاحت کے لیے بارسلونا ہی آپ کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔

اس سلسلے کی بقیہ اقساط یہاں پڑھیے۔


ریان ایئر کا طیارہ اور سروس اتنی حوصلہ افزا تو نہیں لیکن سستے ٹکٹ کی وجہ سے پورے یورپ میں ریان ایئر کے ڈومیسٹک آپریشن سب سے زیادہ ہیں اور یورپی عوام کی بڑی تعداد ان کی سروسز سے مستفید ہورہی ہیں۔ اشبیلیہ سے بارسلونا ہماری تقریباً ایک گھنٹے کی پرواز تھی۔ 8 بج کر 15 منٹ پر جہاز میں اعلان کیا گیا کہ جوزف ٹراڈیلاس بارسلونا ایئرپورٹ کی حدود میں داخل ہوچکے ہیں۔ کھڑکی سے بارسلونا کے آسمان پر سورج طلوع ہوکر اپنی زردی پھیلا چکا تھا اور دور تک بارسلونا شہر کی خوبصورت آبادی نظر آرہی تھی۔

ایئرپورٹ کے باہر ایک ٹیکسی میں بیٹھ کر ہم افغان دوست فرہاد ہمت کے فلیٹ کی طرف روانہ ہوئے۔ ٹیکسی بارسلونا شہر کی سڑکوں پر رواں دواں تھی۔ ایئرپورٹ چونکہ آبادی سے دور تھا اس لیے راستے کے دونوں طرف سرسبز میدانی علاقہ تھا۔ تھوڑی دیر بعد ہم شہر کی آبادی میں داخل ہوچکے تھے۔

یہ واقعی ایک جدید اور خوبصورت شہر تھا۔ ہسپانوی طرزِ تعمیر کی بلند عمارتیں کشادہ سڑکیں اور شاپنگ مالز اس شہر کو منفرد بنا رہی تھیں۔ اسپین کے دلکش ترین شہروں میں اس کو اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ اسپین سے آزادی حاصل کرنے کے لیے احتجاج کرنے والے شہروں میں بھی اس شہر کا نام بھی شامل ہے۔

ہماری ٹیکسی تقریباً 15 منٹ بعد فرہاد ہمت کے اپارٹمنٹ پہنچی جہاں وہ پہلے سے ہی ہمارے انتظار میں کھڑے تھے۔ وہ افغانستان کے صوبے لغمان سے تعلق رکھنے والا ایک خوبصورت نوجوان تھا جس نے پختونوں کے روایتی انداز میں ہمارا استقبال کرتے ہوئے اپنے اپارٹمنٹ میں خوش آمدید کہا۔ یہ دو کمروں، ڈرائنگ روم اور کچن پر مشتمل ایک خوبصورت اپارٹمنٹ تھا۔ حال احوال پوچھنے کے بعد فرہاد نے ہمیں کچھ دیر آرام کرنے کو کہا اور ناشتہ تیار کرنے میں مصروف ہوگیا۔ تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد ڈرائنگ روم کی میز سری پائے، انڈا کڑاہی، فروٹ، خبز اور سلیمانی چائے کی صورت میں بہترین ناشتے سے سج چکا تھا۔

ایک عرصے بعد دیسی ناشتے کی خوشبو نے ہماری بھوک میں اضافہ کردیا۔ اس لیے بلا تاخیر ہم پردیس میں دیسی ناشتے کے مزے لوٹنے لگے۔ ناشتے کے بعد ہم نے فرہاد ہمت کو بارسلونا شہر گھومنے کے اپنے دو روزہ منصوبے اور پہلے سے بُک کی ہوئی اپنی رہائش کے ایڈریس کے بارے میں آگاہ کیا۔

فرہاد ہمت نے رہائش کی بکنگ کینسل کرنے اور اپنے گھر قیام کرنے پر زور دیا۔ عبداللہ شاہ صاحب نے آج کی رات اپنی رہائش پر گزارنے اور اگلی رات ان کے ہاں قیام کرنے کا وعدہ کرکے انہیں مطمئن کیا اور دو دن بارسلونا شہر کی سیر کروانے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ اگر ان کی زیادہ مصروفیات نہ ہوں تو فرہاد ہمیں بارسلونا شہر کی مشہور مقامات کی سیر کروائیں۔ فرہاد ہمت نے ہماری درخواست خوشی قبول سے کرتے ہوئے ہمیں اسی دن بارسلونا شہر کی ایک سائٹ وزٹ کروانے کو کہا۔

میڈرڈ کے بعد بارسلونا اسپین کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ یہ اسپین کے خودمختار علاقے کاتالونیا کا دارالحکومت اور اسپین کے شمال مشرق میں بحیرہ روم کے کنارے پر آباد ہے۔ 2016ء کی مردم شماری کے مطابق بارسلونا کی آبادی 17 لاکھ تھی جبکہ یہاں ہسپانوی باشندوں کے بعد سب سے زیادہ پاکستانی آباد ہیں۔

فرانس کی سرحد سے 125 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع بارسلونا، سیاحوں میں مقبولیت کے لحاظ سے یورپ کا چوتھا اور دنیا کا 14واں شہر ہے۔ اسے ’City of Beaches‘ یعنیٰ ساحلوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ بارسلونا 85 سال تک مسلمانوں کے زیرِ انتظام رہا ہے۔

محنتی اور جفاکش قوم ’کتالونین‘ کا خوبصورت اور جدید شہر بارسلونا نہ صرف تاریخی اعتبار سے مشہور ہے بلکہ سرسبز پہاڑوں کے درمیان بحیرہ روم کے ساحل پر آباد یہ خوبصورت شہر بہت سے عجائب گھروں، چرچ اور فٹبال گراؤنڈز کے حوالے سے بھی مشہور ہے۔ چاہے آپ ساحل کے کنارے بیٹھ کر فرانسیسی سرحد کا نظارہ کرنا چاہتے ہوں یا فنِ تعمیر کے کمالات دیکھنا پسند کرتے ہوں، قرون اولیٰ کی تاریخ سے دلچسپی رکھتے ہوں یا فٹبال کے کھیل کے مداح ہوں، سیاحت کے لیے بارسلونا ہی آپ کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ ہم بھی آج اس خوبصورت شہر کو کنگھالنے کے لیے نکل پڑے تھے۔ فرہاد کی رہائش سے ہم 15 منٹ کی پیدل واک پر ’پلازہ ناؤ‘ کے خوبصورت مین اسکوائر میں پہنچ گئے۔

فرہاد ہمت کے مطابق یہ بارسلونا کا سب سے خوبصورت سیاحتی مقام ہے اور اگر آپ اسے بارسلونا کا مونال یا سوہاوہ کہیں تو مناسب ہوگا۔

کچھ دیر بعد ہم اس خوبصورت عمارت کے سامنے موجود فوارے (مونٹیجک فاؤنٹین) کے ساتھ تصاویر بنوانے میں مصروف تھے۔ سطح سمندر سے 173 میٹر کی اونچائی پر اور سمندر کے عین قریب واقع ’مونٹیجک فاؤنٹین‘ بارسلونا کا ایک انتہائی خوبصورت مقام ہے جس کے ساتھ ہی پلازہ ڈی جوزف موجود ہے۔ یہاں سے نہ صرف آپ شہر کا نظارہ کرسکتے ہے بلکہ آپ اوپر سے ساحل سمندر کا بھی دیدار کرسکتے ہیں۔ بارسلونا کے تمام مشہور سیاحتی مقامات یہاں سے نظر آتے ہیں۔ ہل ٹاپ پر موجود عمارت نیشنل آرٹ میوزیم کی تھی جو 17ویں صدی میں تعمیر کیے گئے ایک قلعے کی عمارت تھی بارسلونا کی اونچی جگہ پر اس قلعے کو فوجی مقاصد کے لیے بنایا گیا تھا۔

اس وقت سے لےکر اس قلعے کو فوجی بیس کیمپ اور ہسپانوی خانہ جنگی کے دوران جیل کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا۔ آج یہ ایک بہت ہی شاندار میوزیم ہے جس میں عہد ماضی کے بہت سے اوراق کا احاطہ کیا گیا ہے۔ کچھ دیر میوزیم اور اس کی عمارت کے اردگرد گھومنے کے بعد ہم میوزیم کے دائیں طرف سے بارسلونا کے دلفریب نظاروں سے محظوظ ہونے لگے۔ یہاں سے شہر کا نظارہ دیدنی تھا اور شہر کے تمام مشہور سیاحتی مقامات نظر آرہے تھے۔

یہاں کچھ دیر رُک کر نظاروں کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرنے کے بعد ہم میوزیم کی عمارت کی پشت پر بنائے گئے مشہور اولپمک گراؤنڈ پہنچے۔ اولمپک کھیلوں کے لیے ’مونٹجیک ہل‘ کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ 1992ء میں اسی مقام پر اولمپک کھیلوں کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس مقام سے بھی بارسلونا کے ساحل کا نظارہ دلکش اور منفرد تھا۔

کچھ دیر منظرکشی کے بعد عبداللہ شاہ صاحب نے فرہاد ہمت کو ہماری اگلی منزل بارسلونیٹا کے ساحل کے قریب موجود مشہور مقامات کی طرف جانے کا اشارہ کیا۔ ہمارے میزبان فرہاد ہمت نے دائیں جانب دونوں طرف درختوں سے مزین ایک دلکش راستے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ راستہ ’بوٹینیکل گارڈن‘ کی طرف جاتا ہے اور یہاں پر بھی سیاح بڑی تعداد میں موجود تھے۔

چونکہ ہمارے پاس وقت کم تھا اس لیے ہم یہاں جانے کے بجائے اپنی اگلی منزل کی طرف روانہ ہوئے۔ تھوڑی دیر میں ہم ٹیکسی کے ذریعے بحیرہ روم کے ساحل بارسلونیٹا پہنچ چکے تھے۔ بارسلونیٹا ساحل، بارسلونا شہر کا خوبصورت ترین ساحل ہے اور یہاں ساحل سمندر تک جانے کا آسان ترین راستہ ’پیلے رنگ کی میٹرو‘ ہے۔ اسے شہر سے چلنے میں 20 منٹ کا وقت لگتا ہے لیکن ہم میٹرو کی بجائے ٹیکسی کے ذریعے یہاں پہنچ چکے تھے۔

بارسلونیٹا ایک وسیع ساحل ہے جو مختلف ریسٹورنٹس سے بھرا ہوا ہے جوکہ زیادہ تر امریکی طرز کے ہیں جبکہ یہاں جگہ جگہ پر بار بھی موجود ہیں۔ سیاحوں کا ایک جمِ غفیر اس ساحل پر موجود ہوتا ہے۔ فرہاد ہمت کے مطابق یہاں موسم گرما میں سیاحوں کے رش کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اس ساحل میں قدم رکھنے کی جگہ نہیں ہوتی لیکن جب ہم گئے تب سردیاں تھیں اس لیے یہاں پر سیاحوں کا رش کم تھا۔

فرہاد ہمت نے کہا کہ آج ہم ساحل کی طرف نہیں جاتے بلکہ عظیم ایکسپلورر کرسٹوفر کولمبس کے مجسمے کے پاس چلتے ہیں وہاں سے پھر بارسلونا شہر کی مشہور اسٹریٹ ’لا رمبلا‘ کا رخ کریں گے۔ ہم فرہاد کے پیچھے ساحل پر چہل قدمی کرتے ہوئے کرسٹوفر کولمبس کے یادگاری مجسمے کے پاس پہنچ گئے۔ چونکہ کولمبس کا تعلق اسپین سے تھا اسی لیے اس مجسمے کے بالکل قریب بحیرہ روم کےکنارے ان کی زیرِاستعمال وہ کشتی بھی موجود ہے جس میں بیٹھ کر کولمبس نے امریکا دریافت کرکے اسپین کے عوام کو مالا مال کردیا تھا۔ کولمبس کا مجسمہ ایک بلند ستون پر نصب کیا گیا ہے، یہ اس ’نئی دنیا‘ کی طرف اشارہ کررہا ہے جو اس نے دریافت کی تھی۔ اس مجسمے کے نیچے 3 سے 4 شیروں کے مجسمے بھی موجود ہیں۔

یادگارِ کولمبس کی عکس بندی کے بعد ہم بارسلونا کے وسط میں لارمبلا (La Rambla) کی مشہور گلی میں داخل ہوگئے۔ گلی کے آغاز پر دونوں طرف فن کار مختلف صورتیں بناکر سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کررہے تھے۔ دونوں طرف مختلف برانڈز کے ریسٹورنٹ میں سیاح خوش گپیوں میں مصروف نظر آرہے تھے۔ ریسٹورنٹ کے بعد سڑک کے آخر تک خوبصورت دکانیں اور شاپنگ مالز کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا جبکہ سردیوں کے باوجود سیاحوں کی ایک بڑی تعداد یہاں موجود تھی۔

اس گلی کے ساتھ ہی El Raval میں ایک علاقہ ہے جس میں 1974ء میں تعمیر کی گئی ایک خوبصورت مسجد طارق بن زیاد کے نام سے موجود ہے۔ فرہاد ہمت کے مطابق اس علاقے کو افغان اور پاکستانی ’پریشان رمبلا‘ کہتے ہیں کیونکہ بارسلونا میں جب کوئی نئے پاکستانی یا افغان آتے تھے تو وہ اس علاقے میں موجود پاکستانی ریسٹورنٹس اور دکانوں پر بیٹھ کر اپنی پریشانیاں اور مسائل پر بات کرتے تھے، اسی مناسبت سے اس کا نام ’پریشان لارمبلا‘ مشہور ہے۔ ’لا رمبلا‘ ایک بہت بڑا بولیورڈ ہے جو پلازہ ڈی کاتالونیا سے لےکر بارسلونا کے ساحل تک جاتا ہے۔

قرون وسطیٰ کے دوران لارمبلا شہر کے مرکز کے طور پر جانا جاتا تھا۔ بعدازاں کیفے، دکانوں اور بلاشبہ لابوکیریا فوڈ مارکیٹ سے بھری یہ ایک مشہور گلی بن گئی۔ ہم لارمبلا میں ایک گھنٹے کی مٹر گشت کے بعد اس گلی کے آخر میں بارسلونا کا مرکز سمجھے جانے والے پلازہ ڈی کاتالونیا (کاتالونیا اسکوائر) پہنچ گئے۔ فرہاد کے مطابق بارسلونا کا دل سمجھے جانے والا یہ اسکوائر بارسلونا کے دو بڑے اضلاع سییوٹ ویلا اور ایکسیمپل کو اس مقام پر الگ کرتا ہے۔

یہ مقام کاتالان کے دارالحکومت کا ایک اہم تجارتی مرکز ہے جس کے اردگرد بڑے بڑے شاپنگ مالز اور ڈیپارٹمنٹل اسٹور موجود تھے۔ ویسے شاپنگ مالز اور دکانوں کی آرائش سے لگ رہا تھا کہ یہاں شاپنگ کی جاسکتی ہے لیکن اس کے لیے جیب میں روپے نہیں بلکہ بے حساب یورو یا ڈالرز ہونے چاہئیں۔ اس جگہ کو یہاں کے عوام جلسوں، مظاہروں کے لیے بھی استعمال کرتے رہتے ہیں۔ ہسپانوی حکومت کے خلاف چلائی جانے والی کاتالان آزادی تحریک کا مرکز بھی یہی جگہ تھی۔

50 ہزار مربع گز رقبے پر مشتمل اس جگہ کی تعمیر 1927ء میں کی گئی تھی۔ پہلے اس جگہ پر دیواروں میں دو شہر بند تھے جن کے دروازوں کے سامنے کھلی جگہ کو ایک بہترین شاہکار بنانے کے لیے آرکیٹیکٹ پیری فالق، پِیگ آئی کڈافچ اور فرانسیسی ڈی پاؤلا نیبوٹ نے منصوبہ بندی کی اور پھر اس کو عملی جامہ بھی پہنایا۔ اس جگہ پر کلارہ اور للمونا جیسے مشہور فنکاروں کے مجسمے بھی موجود ہیں۔ اسکوائر کے چاروں اطراف مجسمہ سازی کے 6 گروپس ہیں جو کاتالان کے چار شہروں کی نمائندگی کرتے ہیں۔

پلازہ کے ایک کونے پر آپ جوزپ ماریا سبیراچس اور کاتالان حکومت کے صدر فرانسس میکسی کے یادگاری مجسمے دیکھ سکتے ہیں۔ جب یہ شہر 1929ء کی بین الاقوامی نمائش کے لیے تیاری کر رہا تھا تو بارسلونا کے کچھ انتہائی پُرکشش ہوٹل، بار اور تھیٹر اس اسکوائر کے آس پاس بنائے گئے تھے۔ اس اسکوائر پر بارسلونا کی تمام سڑکیں اور مقامات آملتے ہیں۔ اسکوائر کے اردگرد کچھ دیر فوٹوگرافی اور دیگر سرگرمیوں کے بعد تھکاوٹ سے ہمارا بُرا حال ہوچکا تھا اس لیے واپسی کا فیصلہ کیا۔ اسکوائر سے ہی ہم ٹیکسی کے ذریعے فرہاد کی رہائش گاہ کی جانب روانہ ہوئے۔

فرہاد کے گھر نماز کی ادائیگی، دن کا کھانا کھانے اور کچھ دیر آرام کرنے کے بعد مغرب کو میں اور فرہاد بس کا ٹکٹ لینے بس اسٹیشن روانہ ہوئے تاکہ ٹکٹ خریدنے کے ساتھ ساتھ بارسلونا کی رنگین راتوں کو بھی انجوائے کیا جاسکے۔ تھوڑی دیر میں ہم بارسلونا کی سڑکوں پر تھے۔ بارسلونا کی راتیں دن سے زیادہ خوبصورت ہوتی ہے۔ سڑکوں اور بازاروں کو برقی قمقموں سے سجایا گیا تھا۔ فرہاد سے ان کے خاندان اور یہاں تک پہنچنے کے بارے میں دریافت کیا تو پتا چلا کہ صبح سے ہمارے ساتھ گھوم پھرنے والا اور ہنستا مسکراتا فرہاد ہمت تو سینے میں غموں کے انبار لیے پھر رہا ہے۔

فرہاد ہمت کا تعلق افغانستان کے شاہی قبیلے ’درانی‘ سے ہے۔ دو بیٹیوں اور ایک بیٹے کے والد فرہاد ہمت درانی کا پہلے لغمان اور پھر کابل میں قالینوں کی درآمدات اور برآمدات کا کاروبار تھا جو بہترین انداز میں چل رہا تھا۔ 2017ء میں ملکی حالات ابتر ہونے اور طالبان کی طرف سے دھمکی اور کروڑوں روپے کے مطالبے نے فرہاد کو اپنا کاروبار سمیٹنے اور ملک چھوڑنے پر مجبور کردیا۔

فرہاد ستمبر 2018ء کو اسپین پہنچا۔ بارسلونا شہر میں اس کا گزربسر چند ٹیکسی کاروں کو مختلف ڈرائیورز کا کنٹریکٹ دے کر، سیاحوں کو سائیکلز کی فراہمی اور ٹور گائیڈ کی سروس فراہم کرنے سے ہورہا ہے۔ فرہاد ہمت کے مطابق ان سروسز سے ان کو ایک معقول منافع ہوجاتا ہے جس سے وہ نہ صرف یہاں کے اخراجات بھی پورے کرتا ہے بلکہ افغانستان میں مقیم اپنے خاندان کو بھی ماہانہ اخراجات بجھواتا ہے۔ فرہاد کے مطابق اس کی اسپین کی نیشنیلٹی کے کاغذات ابھی تک پروسس میں ہیں۔ نیشنیلٹی پیپرز ملتے ہی وہ یہاں ایک بڑا کاروباری سیٹ اپ بنانے کا ارادہ رکھتا ہے جس میں سیاحوں کے لیے ٹور گائیڈ سروس سے لے کر ٹرانسپورٹ اور ہوٹلز کا سیٹ اپ بھی ہوگا۔

فرہاد کی باتیں سنتے سنتے ایک جگہ مجھے دائرے میں کھڑے تماشائی اور درمیان میں رقص کرنے والی ہسپانوی دوشیزائیں نظر آئیں۔ ہم قریب پہنچے تو فرہاد نے بتایا کہ یہ اسپین کا مشہور روایتی رقص ’فلیمنکو‘ ہے جو ملک کے کونے کونے میں اسٹیج سے لےکر سڑکوں پر کیا جاتا ہے اور یہ مختلف تہواروں کا لازمی حصہ ہوتا ہے۔

ہمارے سامنے ہسپانوی دوشیزائیں ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر پنجوں کے بل، تالی بجاتے ہوئے گٹار کی دھن پر جھوم جھوم کر دیوانہ وار رقص کر رہی تھیں۔ اردگرد کھڑے لوگ بڑے جوش میں آکر ’اولے اولے‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔

فلیمنکو رقص کسی زمانے میں خانہ بدوشوں کا رقص ہوا کرتا تھا اور یہ اسپین کے جنوبی حصے اندلس اور مرسیا کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے خانہ بندوشوں سے وابستہ تھا لیکن اب یہ اسپین کی پہچان بن چکا ہے۔ اس وقت اس رقص کو اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے 2010ء میں لازوال ثقافتی ورثے کا درجہ دیا ہوا ہے۔ فرہاد کے مطابق میوزک سے ہسپانوی قوم کو انتہا درجے کا عشق ہے اور یہ عشق بھی انہیں عربوں سے ملا ہے۔

ناقدین کے مطابق یورپ اور اسپین کے میوزک میں جو تپش موجود ہے وہ عربوں کی لگائی ہوئی آگ کی ہے اور رقص دیکھ کر مجھے بھی یہی محسوس ہورہا تھا کیونکہ اس رقص نے مجھے بھی محسور کردیا تھا۔ رقص کی ویڈیوز اور تصاویر بنانے کے ساتھ ساتھ میں بھی تماشائیوں کے ساتھ مل کر ’اولے اولے‘ کی آوازیں لگانے لگا۔

اچانک گٹار کی آواز مدھم ہونے لگی۔ رقص کرتے جوڑوں نے سر پیچھے ڈال دیے اور پنجوں کے بل تھرکتے تھرکتے بڑی نپی تلی رفتار سے پیچھے ہٹتے چلے گئے۔ جوڑوں نے دائرے میں ایک چکر لگا کر تماشائیوں کا شکریہ ادا کیا اور پھر کچھ دیر کے لیے بارسلونا خاموش ہوگیا۔

’چلیں اب بس اسٹیشن، کیا خیال ہے؟‘ فرہاد نے مجھ سے پوچھا۔

میں جو ہسپانوی رقص اور موسیقی کے سحر میں مبتلا تھا، فرہاد کا ہاتھ تھام کر کہنے لگا ’چلیں میرے دوست، اسپین کے اس سفر میں یہ مشہور رقص اور میوزک دیکھنا ایک خواہش تھی۔ پہلے ہسپانوی اور کئی انگریزی فلموں میں اس رقص کو دیکھا تھا لیکن اس طرح سڑک پر رقص اپنی آنکھوں سے دیکھ کر مزا آیا‘۔

ہم باتیں کرتے کرتے بارسلونا کے ’نورڈ اسٹیشن‘ پہنچ گئے۔ اسٹیشن پر موجود ایک بوتھ سے پتا چلا کہ میڈرڈ کے لیے جانے والی بس کا ٹکٹ کل صبح 8 بجے کے قریب اسٹیشن سے لے سکتے ہیں یا آن لائن بکنگ بھی کی جاسکتی ہے۔

بس اسٹیشن سے ٹکٹ لیے بغیر ہم فرہاد کی رہائش گاہ کی جانب روانہ ہوئے جہاں آرام کے بعد ہم شہر کے وسط میں پہلے سے بک اپنے اپارٹمنٹ کی طرف روانہ ہوئے۔ بارسلونا میں ہمارا اپارٹمنٹ ایک فیملی کے ساتھ شراکت میں تھا، اس لیے ایک ہی کمرے میں ہمیں تین عدد بیڈ ملے۔ تھکاوٹ زیادہ تھی۔ اس لیے جلد ہی سونے کا فیصلہ کیا تاکہ اگلے دن ہم بارسلونا کی سیر کا سلسلہ جاری رکھ سکیں۔

عظمت اکبر

عظمت اکبر سماجی کارکن ہیں۔ آپ کوسیاحت کا صرف شوق ہی نہیں بلکہ اس کے فروغ کے لیے پُرعزم بھی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔