پاکستان

آڈیو لیکس کیس: اٹارنی جنرل کی اسلام آباد ہائیکورٹ سے اِن کیمرا سماعت کی استدعا

عدالت نے اٹارنی جنرل کو وزیر اعظم سے مشاورت کرکے آڈیو لیکس کے قانونی دائرہ کار پر جواب جمع کرانے کے لیے 4 ہفتوں کا وقت دے دیا۔
|

اسلام آباد ہائی کورٹ میں آڈیو لیکس کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے ان کیمرا سماعت کی استدعا کردی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے بشری بی بی کی آڈیو لیکس تحقیقات کے لیے طلبی کے نوٹس اور نجم الثاقب کی پارلیمانی کمیٹی کی جانب سے طلبی کے خلاف درخواستوں کو یکجا کرکے سماعت کی، بشریٰ بی بی کی جانب سے وکیل بیرسٹر گوہر اور اٹارنی جنرل منصور اعوان عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز پر عدالتی معاون میاں رضا ربانی روسٹرم پر آگئے اور تحریری دلائل عدالت میں جمع کرا دیے، انہوں نے کہا کہ عدالت نے 5 سوالات پر معاونت طلب کی تھی۔

جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ پہلے اٹارنی جنرل کو سن لیتے ہیں پھر آپ کو سنیں گے، دریں اثنا اٹارنی جنرل منصور اعوان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ میری رائے یہ ہے کہ پارلیمانی کمیٹی کو کارروائی شروع نہیں کرنی چاہیے تھی، کسی انفرادی شخص کی آڈیو ٹیپ کا تعلق نیشنل اسمبلی کے ساتھ نہیں تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پارلیمانی کمیٹی اس طرح نوٹس نہیں کر سکتی تھی، عدالت اس درخواست کو نمٹا دے، ویسے بھی پارلیمنٹ کے تحلیل ہونے کے بعد عدالتی درخواستیں غیر مؤثر ہو چکی ہیں۔

جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ کیا الیکٹرانک سرویلنس کی جا سکتی ہے؟ کون ایسا کر سکتا ہے؟ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی تو کہہ رہی ہے کہ انہوں نے کسی کو اجازت نہیں دی، پہلا سوال یہ ہے کہ الیکٹرانک سرویلنس کیسے ہو رہی ہے اور کون کر رہا ہے، آڈیو لیکس کے معاملے پر مقصد الزام تراشی نہیں بلکہ شہریوں کو یہ بتانا مقصود ہے کہ انکے حقوق کیا ہیں۔

دریں اثنا اٹارنی جنرل نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے آڈیو لیک کیس کی ان کیمرہ سماعت کی استدعا کر دی، انہوں نے کہا کہ خفیہ اداروں کے پاس نجی فون گفتگو، آڈیو ریکارڈ کرنے کے لامحدود اختیار نہیں ہیں، اس حوالے سے ان کی صلاحیت سے متعلق اِن کیمرا بریفنگ دی جا سکتی ہے۔

جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ تھوڑا سا سمجھا دیں، کیا نجی ٹیلی فون گفتگو ریکارڈ کی جا سکتی ہے؟ کون اجازت دیتا ہے، قانون کیا کہتا ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ پہلے یہ طے کرنا ہے کہ یہ ریکارڈنگ خفیہ اداروں نے کی بھی ہے یا نہیں۔

جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ ججز، وزیراعظم اور لوگوں کی آڈیوز ریکارڈ کی گئیں ہیں، یہ انتہائی خوفناک بات ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہمیں ان آڈیوز کی حقیقت جانچنے کے لیے وقت چاہیے۔

جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ آپ جانتے ہیں آڈیوز کی ریکارڈنگ کے حوالے سے جاننا ضروری ہے، ایک وزیراعظم کی ریکارڈنگ بھی ہوئی، ایف آئی اے بھی اس کو دیکھ رہی ہے، ایف آئی اے نے ابھی تک کیا پتا چلایا ہے؟

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ وزیر اعظم، کابینہ سے بات کریں کیونکہ آڈیو ٹیپنگ سے متعلق کوئی قانونی فریم ورک ہونا چاہیے، یہ نہیں ہو سکتا کہ ہمارے دفتروں اور چیمبروں میں ہماری گفتگو بھی ریکارڈ ہو رہی ہوں۔

جسٹس بابر ستار نے اٹارنی جنرل کو ہدایات دیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ میں آپ کو مناسب وقت دوں گا مگر اس حوالے سے قانونی دائرہ کار سے متعلق جواب جمع کرایا جائے۔

اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ پہلے یہ طے کرنا ہے کہ یہ ریکارڈنگ خفیہ اداروں نے کی بھی ہے یا نہیں جس پر عدالت نے استفسار کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ آڈیوز کسی غیر ملکی ایجنسی نے ریکارڈز کی ہیں؟ وزیراعظم ہاؤس، وزیر اعظم، اس کے خاندان اور چیف جسٹس کے خاندان کی آڈیوز لیک ہوئی ہیں۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا میں ایسا بالکل نہیں کہہ رہا کہ کسی غیر ملکی ایجنسی نے ریکارڈ کی ہوں گی، اس پر جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ یہ پاکستان کی تاریخ ہے، بینظیر بھٹو کیس سے اب تک یہ چیزیں ریکارڈ پر ہیں، کیا آفسز میں یہ ڈیٹا اکٹھا کیا جاتا ہے اور پھر اس سے بلیک میل کیا جاتا ہے؟ آڈیو لیکس پر جو کمیشن بنا اس کے ٹی او آرز میں یہ تھا ہی نہیں کہ یہ آڈیوز ریکارڈ کون کرتا ہے۔

جسٹس بابر ستار نے مزید ریمارکس دیے کہ اگر ہمارے فون کی نگرانی کی جارہی ہے تو ہمیں پتا ہونا چاہیے کہ ایسا کون کررہا ہے، آپ وزیراعظم سے سفارشات لے کر بریف عدالت میں جمع کرادیں پھر دیکھ لیتے ہیں کہ کیسے آگے چلنا ہے۔

عدالتی معاون سینیٹر رضا ربانی نے اپنے دلائل میں کہا کہ قومی اسمبلی 10 اگست کو اپنی مدت کے بعد تحلیل ہوچکی ہے، رولز کے مطابق اسمبلی کے تحت بنائی گئی تمام کمیٹیز بھی غیر فعال ہوچکی ہیں، میری رائے کے مطابق یہ درخواست غیر مؤثر ہوچکی ہے۔

جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے جہاں تک پارلیمان کی بالادستی اور ایوان کے معاملات ہیں اس پر کسی کو اختلاف نہیں، یہ بتائیں کہ پارلیمان کی کمیٹی کے احکامات پر کسی فرد کے بنیادی حقوق کا معاملہ آجائے تو کیا ہوگا؟

دریں اثنا عدالت نے وزیراعظم اور کابینہ سے مشاورت کرکے آڈیو لیکس کے قانونی دائرہ کار پر جواب جمع کرانے کے لیے اٹارنی جنرل کو 4 ہفتوں کا وقت دے دیا اور سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور سابق چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کے صاحبزادے نجم ثاقب کی جانب سے آڈیو لیکس کے خلاف دائر درخواستیں اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیرِسماعت ہیں۔

دونوں کی مبینہ ٹیلی فونک کالز لیک ہوگئی تھیں، جس کی ریکارڈنگ سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی، اس حوالے سے دونوں نے علیحدہ علیحدہ درخواستیں دائر کی تھیں، تاہم عدالت نے نجم ثاقب اور بشریٰ بی بی کی جانب سے دائر علیحدہ علیحدہ درخواستوں کو اکٹھا کردیا تھا۔

سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ نے توشہ خانہ کے تحائف کی فروخت سے متعلق پی ٹی آئی رہنما زلفی بخاری کے ساتھ اپنی مبینہ لیک ہونے والی آڈیو پر ایف آئی اے کی جاری تحقیقات کے خلاف حکم امتناع کی درخواست کی تھی۔

جبکہ نجم ثاقب نے درخواست میں اپنی مبینہ آڈیو پر اپنے خلاف پارلیمانی کارروائی کو چیلنج کیا تھا، جس میں انہوں نے مبینہ طور پر پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لیے پی ٹی آئی کے ٹکٹ کے امیدوار سے رشوت طلب کی تھی۔

روپے کی قدر مستحکم، پیٹرول، ڈیزل کی قیمتوں میں مزید کمی کا امکان

بابر اعظم کی نجی واٹس ایپ چیٹ لیک کرنے پر وقار یونس برس پڑے

برطانیہ: فلسطینیوں کی حمایت میں بڑے مظاہروں کے بعد پولیس کا اسکولوں کے گرد گھیرا تنگ