دنیا

بھارت: حزب اختلاف کے فون ٹیپ کرنے کے الزامات پر تحقیقات

حکومت جتنی چاہے فون ٹیپنگ کرے، میرا فون لے جائے مجھے کوئی خوف نہیں ہے، رہنما کانگریس راہول گاندھی

بھارت کی سائبر سیکیورٹی یونٹ نے حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں کی جانب سے فون ٹیپ کیے جانے کے الزامات عائد کرنے پر تحقیقات شروع کردی۔

خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق بھارتی حزب اختلاف کے سیاست دانوں نے الزام عائد کیا تھا کہ ریاست حمایت یافتہ حملہ آوروں کے ایپل آئی فون انتباہ کے بعد فون ٹیپ کرنے کی کوشش کی گئی۔

بھارتی خبرایجنسی پریس ٹرسٹ آف انڈیا نے بتایا کہ بھارت کے کمپیوٹر ایمرجنسی رسپانس ٹیم (سی ای آر ٹی-ان) نے شکایات پر تحقیقات شروع کردی ہے۔

وزارت الیکٹرونکس اینڈ انفارمیشن کے سیکریٹری ایس کرشنن نے کہا کہ مذکورہ تحقیقات میں موبائل کمپنی ایپل تعاون کرے گی۔

بھارت کے وزیر انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی ایشوینی نے کہا تھا کہ حکومت کو ان شکایات پر تشویش ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر انہوں نے بتایا تھا کہ بھارت کی حکومت تمام شہریوں کی پرائیویسی اور سلامتی کی اپنی ذمہ داری انتہائی سنجیدگی سے لے رہی ہے اور ان نوٹیفکیشنز کا تہہ تک جا کر تحقیقات کی جائیں گی۔

حزب اختلاف کی جماعت کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے کہا کہ ان کے عملے ارکان کو آئی فون کی جانب سے انتباہی پیغامات موصول ہوئے، اسی طرح ششی تھرور، ماہوا موئترا اور پریانکا چترویدی سمیت حزب اختلاف کے قانون سازوں کو بھی اسی طرح کے پیغامات موصول ہوئے۔

راہول گاندھی نے کہا کہ حکومت جتنا مرضی زیادہ فون ٹیپ کرسکتی ہے کرلے، میں اس سے نہیں گھبراتا، یہ میرا فون لے سکتے ہیں، مجھے خوف نہیں ہے۔

ایپل کمپنی نے ان الزامات اور تحقیقات کے حوالے سے کوئی ردعمل نہیں دیا لیکن ویب سائٹ میں وضاحت کی گئی ہے کہ خطرے کی گھنٹی ان صارفین کو آگاہ کرنے اور تعاون کے لیے تیار کی گئی ہے جو ریاستی حمایت یافتہ حملہ آوروں کا نشانہ بن سکتے ہیں۔

یاد رہے کہ بھارتی حکومت پر 2021 میں متنازع خفیہ پیگاسس ٹیکنالوجی استعمال کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا تاکہ سیاسی مخالفین، کارکنان اور صحافیوں کی نگرانی کی جائے۔

بھارتی میڈیا نے رپورٹ میں کہا تھا کہ بھارت میں 300 افراد کی نگرانی کی گئی جن میں حکومتی وزرا، اپوزیشن کے سیاست دان، صحافی اور انسانی حقوق کے رضاکار شامل ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ نگرانی کیے جانے والے افراد میں 40 سے زائد صحافیوں کا تعلق بڑے خبر رساں اداروں، جیسے ہندوستان ٹائمز، دی ہندو اور دی انڈین ایکسپریس سے ہے، اس کے علاوہ نگرانی کی فہرست میں دی وائرز کے دو بانی ایڈیٹرز بھی شامل ہیں۔

دوسری جانب بھارتی حکومت نے ان الزامات کو مسترد کردیا تھا۔