نقطہ نظر

آخر نسل کشی کے حق میں پروپیگنڈا کیسے کیا جاسکتا ہے؟

اسرائیل جیسی کامیاب پی آر اسٹریٹجی اپنانی ہے تو نسل کشی کی مارکیٹنگ کرنے کے لیے اسے 'حماس کے خلاف جنگ' کا لبادہ اوڑھا دیں اور جھوٹ پر جھوٹ بولتے رہیں۔

آخر ہر برائی اور بربریت کے خلاف اسرائیل کی عالمی مہم کی کامیابی کا کیا راز ہے؟ (یہاں بربریت سے مراد غزہ میں اسرائیل کی جانب سے ہولناک بمباری میں 23 لاکھ فلسطینیوں کو اجتماعی سزا دینا یا فاسفورس بم کے استعمال جیسے جنگی جرائم کا ارتکاب ہرگز نہیں ہے کیونکہ جھوٹ بولنے کے عادی اسرائیلی اہلکاروں کے مطابق یہ بربریت نہیں ہے)۔

کیا اس کامیاب عالمی مہم کے پیچھے وہ 71 لاکھ ڈالرز کی رقم ہے جو اسرائیل نے ایکس اور یوٹیوب اشتہارات جیسی بڑی کثیرالجہتی مہمات پر خرچ کی ہیں؟ (یہ راز ہمیں برطانوی صحافی صوفیا اسمتھ کی بدولت پتا چلا)۔ یا شاید یہ مہم اس لیے کامیاب ہے کیونکہ 7 اکتوبر کے بعد اسرائیل کی وزارتِ خارجہ صرف یوٹیوب پر 75 سے زائد مختلف اشتہارات جاری کرچکی ہے جن میں سے کچھ میں پُرتشدد مناظر بھی شامل ہیں۔

یا ہم اس کی کامیابی کی وجہ بدنامِ زمانہ اسرائیل ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) کے ٹک ٹاک کے استعمال کو سمجھیں؟

آئیے اسرائیل کی پروپیگنڈا۔۔۔ بلکہ معذرت کے ساتھ پبلک ریلیشنز (پی آر) کی اسٹریٹجی پر نظر ڈالتے ہیں۔ ہر سوشل میڈیا اسٹریٹجی کے پانچ بنیادی ستون ہوتے ہیں جن میں حکمت عملی، منصوبہ بندی اور اشاعت، سننا اور مشغولیت، تجزیات و رپورٹنگ اور سوشل میڈیا کو رقم ادائیگی شامل ہیں۔

ہم نے اس مہم سے سیکھا کہ سوشل میڈیا مارکیٹنگ پر کام کرتے ہوئے ہمارا پہلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ اپنی ٹارگٹ آڈیئنس کی شناخت کریں اور پھر اپنے برانڈ کی شناخت بنانے پر توجہ مرکوز کریں۔ ’حماس کے خلاف جنگ‘ کا لبادہ اوڑھے ہونے والی نسل کشی کی مارکیٹنگ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ جذباتی عناصر پر مبنی لاکھوں ڈالرز کے اشتہارات مغربی ممالک جیسے فرانس، جرمنی، امریکا اور برطانیہ کے ناظرین کے پیش کیے جائیں۔

سچ کہوں تو ان ممالک کے لیے نسل پرستی اور سفید فام بالادستی کا ایجنڈا ہی کافی ہونا چاہیے لیکن پھر بھی یک طرفہ کہانی کے لیے احتیاطاً غزہ کو بجلی، پانی اور انٹرنیٹ کی فراہمی بند کردینی چاہیے۔ اس کے بعد تمام مغربی میڈیا کو سخت احکامات جاری کریں اور یورپی یونین کے حکام سے کہا جائے کہ وہ میٹا اور ایکس کو ’غلط معلومات پھیلانے‘ اور ’پُرتشدد مناظر‘ دکھانے کے نتائج کے حوالے سے خبردار کریں۔

ساتھ ہی یہ بھی یقینی بنائیں کہ آپ کے صریح (گرافک) اشتہارات بچوں کی یوٹیوب ویڈیوز اور اینگری برڈز جیسے گیمز کے درمیان آئیں۔

تو کیا ہوگیا اگر ان اشتہارات سے بچے ٹراما کا شکار ہوجائیں؟ تھوڑی بہت تھراپی سے یہ مسئلہ بھی حل کیا جاسکتا ہے۔ چونکہ اکتوبر چل رہا ہے اس لیے کیوں نہ ان اشتہارات کی ہیلووین تھیم رکھیں اور کچھ ایسے جملے لکھیں ’یہ پُرتشدد مناظر ہیلووین کی سجاوٹ کا حصہ نہیں ہیں‘۔

کامیاب عالمی مہم کی پی آر اسٹریٹجی میں ہم ایک یا دو افواہیں بھی پھیلا سکتے ہیں اور یہ افواہیں جتنی اشتعال انگیز ہوں اتنا آپ کی مہم کے لیے اتنی بہتر ہیں۔ اسے چارے کے طور پر استعمال کریں اور تمام افراتفری کے درمیان ایک ایسا صحافی ڈھونڈیں جو اس چارے کو نگل لے اور تصدیق کیے بغیر ٹیلی ویژن پر بار بار یہ ’حقائق‘ دہرانے کے لیے تیار ہو۔ پھر آپ کسی طرح امریکی صدر سے بھی کہلوادیں کہ انہوں نے کچھ تصاویر دیکھی ہیں۔ تمام صورتوں میں آئی ڈی ایف کی بات ہی سچ مانی جائے گی، ثبوت جائیں بھاڑ میں۔

مثال کے طور پر ہہ افواہ دیکھیے کہ 40 بچوں کے سرقلم کیے گئے۔ اس میں بربریت بھی ہے اور ٖخوف کی وہ مناسب مقدار بھی جو غزہ کی مکل تباہی اور 4 ہزار فلسطینی بچوں کے قتل عام کو درست ثابت کرنے کا جواز بن جائے۔

اس مہم میں وہ تمام تاریخی محرکات غیر متعلق ہیں جن کی وجہ سے نوبت 7 اکتوبر کے حملوں تک پہنچی۔ برسوں کے غیرقانونی فوجی قبضے کی کوئی اہمیت نہیں اور جب بھی گفتگو میں غاصبانہ قبضے پر بات کی جائے تو اسے مکمل طور پر نظرانداز کردیا جائے۔

اگر اس دوران کسی مشکل کا شکار ہوگئے ہیں تو آپ یہ کریں کہ اپنے ان ’دوستوں‘ کو جن کے اس خطے میں مفادات ہیں، یہ جملہ سکھا دیں کہ ’اسرائیل کو دفاع کا حق حاصل ہے‘ اور پھر وہ اسے طوطے کی طرح دہراتے رہیں گے۔ اگر کسی صحافی یا اینکر کے سوالات آپ کو مشکل میں ڈال رہے ہیں تو بس آپ رونا ڈالیں اور انہیں یہود مخالف قرار دے دیں۔

اگر اسی پی آر اسٹریٹجی میں غلطی سے آپ جنگ بندی۔۔۔ نہیں نہیں ’انسانی حقوق کی بنیاد پر وقفے‘ کا ذکر کرچکے ہیں تو ذرا رکیں اور اپنے موقف کو دہراتے ہوئے ہوشیاری سے کہیں کہ ’ہم اس وقت جاری تشدد کو سطح کو کم ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں‘۔

یقینی بنائیں کہ آپ صحیح وقت پر درست مواد شائع کریں۔ انفلوئنسرز کو پیسے دیں تاکہ وہ نسل کشی کی حمایت کریں۔ آجروں سے مطالبہ کیا جائے کہ جو ملازم اس نسل کشی ک مخالفت کرے اسے فارغ کردیا جائے۔

تردید کے باوجود بار بار 40 بچوں کے سر قلم کرنے کی جھوٹی خبر کو گفتگو میں شامل کریں۔ یقینی بنائیں کہ آپ کی پوری ٹیم کو ایک ہی اسکرپٹ ملے۔ سوشل میڈیا پر #HamasisISIS شروع کریں اور دنیا کو بتائیں کہ آپ ’انسان نما جانوروں‘ سے لڑ رہے ہیں۔ اپنے ساتھی بیتزل تیلجاہ سے کہیں کہ وہ سی این این کی پریزینٹر کی اصلاح کرے کہ اسرائیل کی جنگ غزہ میں ’صرف حماس سے نہیں بلکہ غزہ کے تمام شہریوں سے ہے‘۔

اس پی آر اسٹریٹجی میں اگلا قدم سننا اور مشغولیت یا انگیجمنٹ ہے۔ یہ اہمیت کا حامل ہے بالخصوص ایسے حالات میں کہ جب آپ اسپتالوں، گرجا گھروں اور صحافیوں کو بمباری کا نشانہ بنانے کا ارادہ رکھتے ہوں۔ بمباری کے بعد اپنے سرکاری ڈیجیٹل ترجمان سے فخریہ یہ دعویٰ کروائیں کہ اسرائیل نے غزہ کے اسپتال پر بمباری کی ہے پھر جب تنقید کا سامنا کرنا پڑے تو فوری طور پر اپنا موقف بدلیں اور کہیں کہ اس حوالے سے آپ لاعلم ہیں۔

کیا مشکل حالات میں آپ کو فوری طور پر جھوٹے شواہد کی ضرورت ہے؟ بس آپ سوشل میڈیا پر ایک عربی وائس اوور آرٹسٹ کی آواز پوسٹ کردیں۔ ایک سستا فری لانسر ہائر کریں جوکہ رات بھر جاگ کر کام کرنے کے لیے آمادہ ہو اور صبح 8 بجے کی بریفنگ سے پہلے مواد آپ تک پہنچا دے۔ پھر مغربی دنیا میں اپنے دوستوں سے ان شواہد کی ’آزادانہ تصدیق‘ کروالیں۔ ان ماہرین کو نظرانداز کردیں جو ان شواہد کو جھوٹا کہیں۔ جب ضرورت ہو تب ٹوئٹس کو ڈیلیٹ یا ایڈٹ کرلیں یا ان کی تردید کردیں کیونکہ ایسا تو نہیں ہے کہ کوئی ان ٹوئٹس کا اسکرین شاٹ لے لے گا یا پھر ان کے نیچے کمیونٹی نوٹس شامل کردیے جائیں گے۔

کیا پھر کسی صحافی کو قتل کردیا؟ واقعی میں؟ آخر ہدف کو نشانہ بنانا کتنا مشکل ہے۔۔۔ اوہ، صھافی ہی ہدف تھا؟ چلیں اس صحافی کے کیمرے کی براہِ راست فوٹیج کو نظرانداز کریں اور دنیا کو کہیں کہ آپ ’تحقیقات‘ کررہے ہیں۔ آپ چند ماہ بعد اس کا اعتراف کرسکتے ہیں بالکل اسی طرح جس طرح آپ کے سپاہیوں نے ’حادثاتی‘ طور پر امریکی نژاد فلسطینی صحافی شیریں ابو عقلہ کو گولی مار کر قتل کردیا تھا۔

کیا آپ کو سال 2014ء کی وہ تصاویر فوٹوشاپ کرنی ہیں جن سے ایسا لگے کہ حماس کے لیڈران مزے کررہے ہیں؟ اس کا آسان حل فری لانس ایڈیٹر ہے۔ کیا ہوگیا اگر اس نے فوٹوشاپ کی جگہ ایم ایس پینٹ استعمال کرلیا؟ کوئی بھی زوم کرکے یہ نوٹ نہیں کرے گا کہ تصاویر میں نظر آنے والے انسانوں کی انگلیاں یا ناک ان تصاویر میں غائب ہیں۔ یاد رکھیں کہ سچ وہی ہے جو آپ کہیں۔

ایک نوآبادیاتی قوت ہونے کی حیثیت سے آپ کو اسے اتنی بار دہرانا ہے کہ یہ سچ لگنے لگے۔ پریس، کارکنان، تاریخ دان، ریسکیو عملہ حتیٰ کہ آپ کے اپنے یرغمالی بھی اس بیانیے کو نہ بدل سکیں۔

یہی وجہ ہے کہ شاید آپ چاہتے ہی نہیں کہ یرغمالیوں کو آزاد کیا جائے۔ بہرحال اگر رہا ہونے والا کوئی یرغمالی حماس کے حق میں بات کر بھی دے تو نقصان کی بھرپائی کے لیے پی آر ایجنسیوں۔۔۔ معذرت۔۔۔ آزاد مغربی میڈیا سے کہا جائے کہ وہ اپنی اشاعت میں یہ شہ سرخی لگائیں، ’میں وہاں جہنم سے گزری: رہائی پانے والی یرغمالی‘۔

پناہ گزین کیمپ پر فضائی بمباری کو بیان کرنے کے لیے نیو یارک ٹائمز کی مدد لیں جو یہ کہے ’دھماکا، جسے غزہ کے رہائشی فضائی حملہ کہہ رہے ہیں، ایک گنجان آباد محلے میں ہوا جس سے بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں‘۔ اسپتالوں پر حملے کی وضاحت اس آڈیو ریکارڈنگ سے دیں جوکہ ’کسی نے ریکارڈ کرلی‘۔ ایک پریزینٹیشن دیں جس میں دعویٰ کیا جائے کہ ان اسپتالوں کے نیچے حماس کی سرنگیں ہیں لیکن یادرہے کہ جاندار صحافت کرنے والی ڈیجیٹل تحقیقاتی ٹیم آپ کے ان تمام جھوٹے دعووں کی قلعی کھول دے گی۔

ایک طرف غزہ پر بمباری کریں اور دوسری جانب مغربی کنارے پر آبادکاروں کو اسلحہ فراہم کریں۔ اس کے بعد امریکا سے 24 ہزار رائفلز کی درخواست کریں کیونکہ ان ہتھیاروں سے آپ کو ان فلسطینی بچوں سے لڑنے میں مدد ملے گی جو آپ پر پتھر پھینکتے ہیں۔

جھوٹ پر جھوٹ بولتے رہیں۔ اس وقت تک بولیں جب تک آپ کا اصلی چہرہ بےنقاب نہیں ہوجاتا اور دنیا یہ نہیں دیکھ لیتی کہ آپ کتنے بڑے نسل پرست ہیں۔


یہ مضمون 12 نومبر 2023ء کو ڈان کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔

زی عمیر
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔