پاکستان

پرامن ماحول میں عام انتخابات کے انعقاد کے لیے سیکیورٹی فراہم کی جائے گی، سرفراز بگٹی

نگران حکومت عام انتخابات کے شفاف انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کو تمام مطلوبہ سہولیات کی فراہمی کے لیے اقدامات کرے گی، نگران وزیرداخلہ

نگران وزیر داخلہ سرفراز احمد بگٹی نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو پرامن ماحول میں آئندہ عام انتخابات کے انعقاد کے لیے درکار مکمل سیکیورٹی فراہم کی جائے گی۔

ملک میں عام انتخابات 8 فروری کو ہونے والے ہیں اور روز قبل ہی الیکشن کمیشن نے ملک بھر میں 2لاکھ 77ہزار سے زائد پولیس اہلکاروں کی کمی کو پورا کرنے کے لیے انتخابات کے لیے پولنگ اسٹیشنوں کے باہر فوج اور سول آرمڈ فورسز کی تعیناتی کا مطالبہ کیا تھا۔

دنیا نیوز کے شو ’نکتہ نظر‘ میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے یقین دلایا کہ نگران حکومت عام انتخابات کے شفاف انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو تمام مطلوبہ سہولیات فراہم کرنے کے لیے ضروری اقدامات کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو انتخابی مہم کے لیے کسی بھی عوامی جلسے یا کارنر میٹنگ کے انعقاد سے پہلے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تعاون کرنا چاہیے۔

سرفراز بگٹی نے کہا کہ عوامی اجتماعات یا میٹنگز کے بارے میں بروقت معلومات سے سیکیورٹی اداروں کو ان کے لیے بہتر انتظامات کرنے میں مدد ملے گی۔

ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے نگران وزیر داخلہ نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے دہشت گردی کی لعنت پر قابو پانے کے لیے مکمل طور پر الرٹ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک دشمن عناصر پاکستان کے پرامن ماحول کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

سرفراز بگٹی نے کہا کہ سیکیورٹی ادارے دہشت گردی کی لعنت کو شکست دینے اور اس کے خاتمے کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہے ہیں۔

اس سے قبل آج پشاور کے ورسک روڈ پر دیسی ساختہ بم کے دھماکے میں چار بچوں سمیت کم از کم چھ افراد زخمی ہو گئے تھے۔

گزشتہ سال نومبر میں حکومت اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان جنگ بندی کے خاتمے کے بعد سے پاکستان میں حالیہ مہینوں کے دوران بالخصوص بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کنفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک میں گزشتہ ماہ ریاست مخالف تشدد میں 34 فیصد اضافہ ہوا۔

رپورٹ ممیں انکشاف کیا گیا تھا کہ خیبر پختونخوا اس دوران سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ رہا جس میں 51 حملے ہوئے جن میں 54 افراد ہلاک اور 81 زخمی ہو گئے تھے۔

اس کے علاوہ بلوچستان میں کیے گئے نو حملوں میں سیکیورٹی فورسز کے 15 اہلکاروں سمیت 18 افراد مارے گئے تھے۔