پاکستان

مستحکم روپیہ اور عالمی اشیا کی کم قیمتیں بھی صارفین کو ’ریلیف‘ دینے میں ناکام

خوردنی اشیا کی زیادہ قیمتوں کے علاوہ یوٹیلیٹی بلوں کے اضافی بوجھ نے بہت سے کم اور متوسط ​​آمدنی والے خاندانوں کی زندگیوں کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔

عالمی اشیا کی گرتی ہوئی قیمتیں، نقل و حمل کی کم لاگت اور شرح مبادلہ میں استحکام گزشتہ 5 مہینوں میں صارفین کو کوئی ریلیف دینے میں ناکام رہی کیونکہ قیمتوں کی جانچ کے غیر مؤثر طریقہ کار کی وجہ سے خوردہ قیمتیں یا تو اوپر چلی گئیں یا ان میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئ ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق خوردنی اشیا کی زیادہ قیمتوں کے علاوہ یوٹیلیٹی بلوں کے اضافی بوجھ نے بہت سے کم اور متوسط ​​آمدنی والے خاندانوں کی زندگیوں کو مزید مشکل بنا دیا ہے جس کی وجہ سے وہ یا تو برقی آلات کے استعمال کو ایڈجسٹ کر رہے ہیں یا کھانے کی خریداری میں کمی کر رہے ہیں۔

دنیا بھر میں اشیا کی کم قیمتوں، نقل و حمل کے اخراجات اور زر مبادلہ کی شرح میں استحکام کے اثر کو کم کرنے کے لیے مینوفیکچررز کے کردار کو مسترد نہیں کیا جا سکتا جبکہ ریٹیلرز بھی قیمتیں کم کرنے سے گریزاں ہیں۔

چند ماہ قبل چینی کی ذخیرہ اندوزی کے خلاف کریک ڈاؤن کے باعث چینی کے نرخ 200 روپے سے کم ہو کر 130 روپے فی کلو تک پہنچ گئے تھے لیکن کریک ڈاؤن معطل ہونے کے بعد چند روز قبل قیمتیں دوبارہ 168 روپے فی کلو تک پہنچ گئیں۔

مہنگی اشیائے خورد و نوش

مالی سال 2024 کے 5 ماہ کے دوران دالوں کی درآمد 6 لاکھ 41 ہزار 656 ٹن (40 کروڑ 30 لاکھ ڈالر) تک بڑھ گئی جو گزشتہ سال کی اسی مدت میں 5 لاکھ95ہزار 389 ٹن (45 کروڑ 40 لاکھ ڈالر) تھی، فی ٹن اوسط میں 762 ڈالر سے 629 ڈالر تک کمی کے باوجود صارفین اب بھی مسور کی دال کے لیے 400-320 روپے فی کلو، مونگ کے لیے 350-250 روپے اور ماش کے لیے 600-360 روپے ادا کر رہے ہیں۔

ملک نے مالی سال 2024 جولائی تا نومبر کے دوران 12.4 لاکھ ٹن پام آئل ( 1.175ارب ڈالر) درآمد کیا جبکہ گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں 12.3 لاکھ ٹن (1.724ارب ڈالر ) در آمد کیا تھا جو کہ مذکورہ مدت میں فی ٹن اوسط کی قیمت میں 1 ہزار 398 سے 941 ڈالر تک کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔

قابض بھارتی فوج نے دوران حراست بہیمانہ تشدد کرکے مزید 3 معصوم کشمیریوں کو شہید کردیا

ڈنکی اور سالار کا ٹکراؤ: کون جیتا، کون ہارا؟

2023: بجلی، گیس صارفین پر 2200 ارب روپے سے زائد کا اضافی بوجھ ڈالا گیا