نقطہ نظر

کراچی: صدیوں کی کتھا! (آٹھویں قسط)

پرانے زمانے کی بستیاں جہاں مٹی سے بنی اور بھٹی میں پکی چوڑیوں کے مقابلے سنکھ سے چوڑیاں بنانا نہ صرف انتہائی مشکل تھا بلکہ انہیں بنانے کے لیے زیادہ صبر، سکون اور ذہانت کی سخت ضرورت تھی۔

اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔


مجھے نہیں پتا کہ اب ایسا ہے یا نہیں مگر ماضی قریب میں سندھ و ہند میں ملتان کے زبردست زیورات بنانے والوں کی بنی ہوئی جھانجریں بہت مشہور ہوا کرتی تھیں جیسے آج کل حیدرآباد کی کانچ کی رنگین اور شاندار چوڑیاں پورے ملک میں مشہور ہیں۔ ہم جو سمندری کنارے بنی قدیم بستی بالا کوٹ کا ذکر کر رہے تھے تو وہ بھی آج سے پانچ ہزار برس پہلے شب و روز کی کوکھ میں شاندار، نازک اور خوبصورت چوڑیاں بنانے کا اہم اور مصروف مرکز تھا۔

یہ انسانی ارتقا کے ذہن کی وسعت اور ترقی کا زمانہ تھا۔ انسان کے دماغی خلیے شاید تیز رفتاری سے کُھلنے لگے تھے۔ دنیا میں جہاں جہاں انسان کو مُثبت ماحول ملا وہاں وہ فطرت کی دین کو نئی شکل دینے کے متعلق گہرائی سے سوچنے لگا تھا اور چیزوں کو نئی خوبصورت شکل دینے کے لیے وہ ہمیں اس بالا کوٹ کی بستی میں ایسے عمل کرتے نظر آتا ہے جس سے ہم جان جاتے ہیں کہ وہ بہت محنتی تھا اور ترقی کے راستے پر اپنا سفر انتہائی خوبصورتی سے شروع کر چکا تھا۔ مٹی سے بنی اور بھٹی میں پکی چوڑیوں کی نسبت سنکھ سے چوڑیاں بنانا نہ صرف انتہائی مشکل تھا بلکہ انہیں بنانے کے لیے زیادہ صبر، سکون اور ذہانت کی سخت ضرورت تھی۔ وہ اس بستی کے فنکاروں میں تھی کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو شاید سنکھ سے نازک اور خوبصورت shell bangles کبھی نہ بنتے۔

بالا کوٹ کی کھدائی کرنے والے جارج ایف ڈیلس کی رپورٹ جو خاص کر ان چوڑیوں کے ہنر کے متعلق ہے وہ میرے سامنے ہے۔ ہم اس قدیم زمانے کے متعلق کچھ حقائق ڈیلس سے سُن لیتے ہیں۔ وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ ’بالاکوٹ کی چھوٹی سی بستی کراچی سے 55 میل شمال میں سمندری کنارے پر واقع ہے۔ یہ سندھو گھاٹی کی ایسی بستی ہے جہاں آرٹ اپنے ایک معیار کے ساتھ پنپ کر جوان ہوا۔ یہاں Meretrix شیل سے جو چوڑیاں بنتی تھیں وہ کم سے کم دس محنت طلب مراحل سے گزر کر وہ آکار لیتی تھیں کی کلائیوں کی خوبصورتی بن سکیں۔ یہاں کے سمندری کنارے سے کیونکہ سنکھ زیادہ مقدار میں نہیں ملتا اس لیے یہاں زیادہ تر Meretrix شیل سے چوڑیاں بنائی جاتی تھیں۔

چونکہ سنکھ Meretrix سے زیادہ بڑا اور سخت ہوتا ہے اس لیے اُسے کاٹنے اور چوڑیوں یا کنگن جیسی شکل دینے کے لیے شاید کسی آری جیسے اوزار کا استعمال ہوتا ہوگا۔ چوڑی تیار ہونے کے بعد اُس پر چکمکی بلیڈ سے ہلکی معمولی سی گلکاری کی جاتی تھی اور پھر اُسے پالش کی جاتی تھی جس سے چوڑی کا کھردرا پن ختم ہو جاتا اور وہ کلائی میں پہننے کے لائق ہو جاتیں۔ یہ گمان غالب ہے کہ یہ چوڑیاں مرد اور عورت دونوں پہنتے ہوں گے۔ مگر اس کا مطلب یہ بالکل نہیں نکالنا چاہیے کہ دونوں ایک تعداد یا انداز میں یہ چوڑیاں پہنتے ہوں گے۔ ممکن ہے مرد ایک یا دو چوڑیاں پہنتے ہوں جبکہ عورتیں سنگھار کے لیے زیادہ پہنتی ہوں’۔

Meretrix کی چوڑیوں کے علاوہ مختلف طرز کی ٹیراکوٹا چوڑیاں اور تانبے اور کانسی کی چوڑیوں کے ٹکڑے بھی بالاکوٹ میں بہت زیادہ ہیں۔ ہم اگر سندھو گھاٹی تہذیب کے دوسرے بڑے شہروں جیسے موہن جو دڑو، ہڑپہ، کالی بنگن، مہرگڑھ، ڈھولا ویرا میں دیکھیں تو وہاں بھی ہمیں Meretrix اور سنکھ کی چوڑیاں مختلف بناوٹوں میں ملی ہیں۔ ہمیں سمندری کناروں کی بستیوں سے مچھلی کی ہڈیاں دوسرے جانداروں سے زیادہ ملتی ہیں۔ یہاں بسنے والے لوگ خوراک میں مچھلیوں اور شیل رکھنے والی حیات کو استعمال کرتے تھے اور ذریعہ معاش کے لیے بالاکوٹ کے لوگ زیورات کی تیاری میں مصروف رہتے تھے۔ خاص طور پر چوڑیاں اور شیلوں سے بننے والی پہننے کی دوسری چیزیں۔ یہاں کام کرنے والے علاقوں کی تقسیم اور چوڑیوں اور خول کے ٹکڑوں کا ارتکاز یہ بتاتا ہے کہ Meretrix چوڑیوں کی تیاری ایک چھوٹی صنعت تھی جس پر خواتین زیادہ کام کرتی تھیں۔

ہم نے اس قسم کی چوڑیاں بنانے کے لیے مختلف تجربات کیے جس سے اندازہ ہوا کہ ایک چوڑی کے لیے بغیر کسی وقفے کے کام کیا جائے تو ڈیڑھ سے دو گھنٹے تک کا وقت لگ جاتا ہے اور اس دوران ٹوٹ پُھوٹ کی مقدار 30 سے 50 فیصد تک تھی۔ بالا کوٹ کی ان فیکٹریوں سے ٹوٹے ہوئے شیل کے ملے ہوئے تکڑوں سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک ہنرمند کاریگر دن کے اگر سات گھنٹے کام کرے تو چھے سے سات تک یہ چوڑیاں بنا سکتا ہے۔ یہاں سے ملے ہوئے ہزاروں ٹکڑوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس بستی کی اہم سرگرمی چوڑیاں بنانا تھی۔

ہم اگر سندھو گھاٹی تہذیب کے، لوتھل، موہن جو دڑو، ہڑپہ، آمری کا مطالعہ کریں تو وہاں انسانی تدفین کے حوالے سے شائع شدہ رپورٹس میں شیل چوڑیوں کی موجودگی کا ذکر ملتا ہے۔ مگر اس حوالے سے بہت زیادہ تحقیق کی ضرورت ہے کہ یہاں جو چوڑیاں بنتی تھیں اُن کی مارکیٹ کی وسعت کتنی تھی؟ اب تک تو ایسا لگتا ہے کہ یہاں سمندری کنارے جو آبادیاں تھیں، بالا کوٹ سے مغرب اور مشرق جنوب میں یہ چوڑیاں ان ساحلی برادریوں کا مقامی زیور تھا کیونکہ یہاں انہیں بنانے کے لیے جو مواد درکار تھا وہ باآسانی دستیاب تھا۔’

اس قدیم ہنر کے متعلق جب میں نے سوچا تو میں حیران رہ گیا اور اس حیرانگی کی زمین پر ایک سوال کی کونپل پھُوٹی کہ ایک بستی کے لوگ وہ کتنے بھی ہوسکتے تھے، 50 یا اس سے بھی زیادہ تو کیا وہ اپنا سارا دن اس کام کو دیتے تھے؟ ظاہر ہے کہ سمندر سے Meretrix حاصل کرنے کے لیے وسائل اور لوگ چاہئیں۔ مقصد یہی کام ان بستی والوں کی روزی روٹی تھا اور روزی روٹی کے لیے انسان وہ کام کرتا ہے جس کی مارکیٹ ہو۔ اس فن کی نشانیاں ساحلی بستیوں سے سیدھا شمال کی طرف مہرگڑھ (سات ہزار قبل مسیح) سے بھی ملتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ یہ زیورات ایک عام مزدور کے لیے نہیں بنتے ہوں گے بلکہ معاشرے کے اعلیٰ طبقے کے لیے بنتے تھے۔ نچلا طبقہ مٹی سے بنی اور بعد میں آگ میں پکی چوڑیاں، کنگن اور منکوں سے سنگھار کا سامان پہنتا تھا۔

میں نے اس ہنر کے متعلق چند محققین سے گفتگو بھی کی، مگر میرے سوالوں کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں آیا۔ کچھ لوگوں نے کتابیں اور رپورٹس اس طرح تجویز کیں جس طرح ڈاکٹر کے پاس جانے کے بعد ڈاکٹر آپ کی باتیں سن کر نسخہ تجویز کرتا ہے۔ مگر میں آپ کو بتانے کے لیے کچھ ایسا ڈھونڈ رہا تھا جو اس سے پہلے نہ آپ کی سماعتوں تک پہنچا ہو اور آپ کی بصیرت نے پڑھا ہو یا دیکھا ہو۔ پھر ایک اتفاق ہوا۔ یہ تین دسمبر کی ٹھنڈی شام کا ذکر ہے۔ میں نے ڈاکٹر ذوالفقار کلہوڑو صاحب سے کچھ بات کرنے کے لیے کال کی۔ باتوں باتوں میں سمندر کنارے ملنے والی سیپوں اور سنکھ سے بنی چوڑیوں کا ذکر نکل پڑا اور جو ذکر نکلا تو بہت دور تک گیا۔

’ڈاکٹر صاحب آپ بہت سارے ممالک کے تاریخی مقامات دیکھ چکے ہیں، پاکستان خاص کر بلوچستان اور سندھ کے پہاڑی سلسلوں پر نہ جانے کب سے تحقیق کے حوالے سے جاتے رہے ہیں۔ آپ کو کبھی کچھ ایسا نہیں ملا کہ جسے دیکھ کر آپ حیران ہوئے ہوں؟‘ میں نے ڈاکٹر سے سوال کیا۔

کچھ دیر کے لیے خاموشی رہی پھر جواب آیا ’بہت کچھ ایسا دیکھا ہے جو حیران کرنے والا ہوتا ہے۔ میں مسلسل اُن مقامات پر لکھ بھی رہا ہوں۔ مگر آپ کی دلچسپی کی ایک بات بتاتا ہوں۔ میں نے آپ سے ملیر کی ایک پہاڑی پر قدیم قبرستان کا ذکر کیا تھا جو کراچی سے 50 کلومیٹر شمال میں ہے اورMesolithic مڈل اسٹون ایج کی سائٹ ہے۔ یہاں پر عورت کی ایک قبر سے سمندری سیپوں سے بنی ہوئی چھ چوڑیاں ملیں جو عورت کی ایک کلائی میں تھیں۔ ظاہر ہے یہ اُس زمانے کی قبر ہے جب ساحلی کناروں کی بستیوں میں اعلیٰ طبقے کے لیے ان سنکھوں یا سیپوں سے زیورات بنتے تھے اور یہ کسی بڑے خاندان کی عورت کا کنکال تھا جس کا خاندان بستی کا بڑا ہوگا۔ وہ کوئی بڑا بیوپاری بھی ہوسکتا ہے یا بستی کا معزز بھی ہو سکتا ہے۔

وانکھنڈ کی اس میگالتھک سائٹ سے اس طرح کی گور ملنے سے بات کرنے کے لیے اور بھی کئی دروازے کھل جاتے ہیں کہ کراچی کے اطراف میں ان زمانوں میں کئی ایسی بستیاں بستی تھیں جہاں ہنرمند لوگ تھے اور ان کے دوسری بستیوں کے ساتھ روابط تھے۔ ہمارے یہاں جو سب سے بڑی بدقسمتی رہی ہے کہ ہم نے سیکڑوں ایسے قدیم مقامات کی سائنسی بنیادوں پر کھدائی نہیں کروائی ہے اور جن کی کروائی بھی اُن کو پھر سے لوگوں نے پاٹ دیا اور اب ان پر فصلیں اُگائی جا رہی ہیں یا سائٹس کی دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے وہ زمین برابر ہو گئی ہیں۔’

اور باتوں کے اختتام پر جب میں نے ڈاکٹر صاحب سے اُن چوڑیوں کی تصاویر مانگیں تو ڈاکٹر صاحب تصاویر دینے کے لیے اس لیے تیار نہیں تھے کہ یہاں دوسرے کی محنت پر اپنا نام چمکانے کی بیماری اتنی زیادہ ہے کہ وہ اپنی محنت کسی کے حوالے کرنے کو تیار نہیں تھے۔ آخر دو تصاویر دینے کے لیے اس شرط پر راضی ہوئے کہ تصویر پر ان کا نام موجود رہے۔ آپ یہ تصاویر دیکھیں اور تھوڑا تصور کریں کہ آپ سیپوں سے بنی شاید وہ چوڑیاں دیکھ رہے ہیں جو ہزاروں برس پہلے بالا کوٹ کی اُس ہنرمندوں کی بستی میں بنی ہوں گی جس بستی سے ہم ابھی آئے ہیں۔

ہمارے اس تاریخ سے پہلے زمانے کے سفر کا آخری پڑاؤ ’بستی الھڈنو‘ ہے جو کراچی کے مشرق ملیر میں ہے۔ اس سندھو گھاٹی تہذیب کی اہم بستی کی کھدائی 1973ء سے 1975ء کے دوران مسٹر والٹر اے فیئرسروس کی نگرانی میں ہوئی تھی۔ اُن دنوں یہ سائٹ اندازاً 34 ایکڑ پر پھیلی ہوئی تھی۔ میرے سامنے مسٹر فیئرسروس کی اس حوالے سے تفصیلی رپورٹس موجود ہیں۔ میں کوشش کروں گا کہ طوالت سے بچنے کے لیے اُن رپورٹس کا لُب لباب آپ تک پہنچاؤں۔ وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ ’برساتی ندیوں کے بہنے سے یہاں جو زرخیز زمین (Alluvium) بنی یہ بستی اس پر آباد تھی۔ چونکہ ہم نے اس سائٹ کی مکمل کھدائی نہیں کی اگر مکمل کھدائی کی ہوتی تو نچلے تہوں سے آمری کلچر کے ملنے کی امید کی جاسکتی تھی۔ ہم کو کھدائی سے جو مواد ملا ان میں 3 لاکھ برتنوں کے ٹکڑے، 24 ہزار Bicones (دو مخروطہ ) 2,600 ٹیرا کوٹا مثلث، 1500 چوڑیاں، 196 تانبے اور کانسی کے ٹکڑے اور دوسری اشیا ملی ہیں۔

یہاں سے مچھلی کے 673 ٹکڑے بھی ملے ہیں، یہاں سے مچھلی کی جو باقیات ملی ہیں اُن میں میٹھے اور سمندری پانی کی مچھلیاں شامل ہیں۔ میٹھے پانی کی مچھلی شمال مشرق سے لائی گئی ہوگی کیونکہ یہ بستی ڈیلٹا کے قریب ہے تو میٹھے پانی کی مچھلی آسانی سے دستیاب ہوسکتی تھی جبکہ بالا کوٹ چونکہ بالکل سمندری کنارے کی بستی یا بندر تھا تو وہاں سے میٹھے پانی کی مچھلی کی باقیات نہیں ملیں۔ الھڈنو میں مچھلی سر سمیت پکائی یا اُبالی جاتی تھی اور آج تک بھی یہاں مچھلی سر سمیت ہی پکائی جاتی ہے۔ اس بستی میں مچھلی یقیناً خرید کر خوراک کے طور پر استعمال کی جاتی تھی کیونکہ یہاں مچھلی پکڑنے کی کوئی نشانی نہیں ملی ہے۔ البتہ مچھلی پکڑنے کے کانٹے ملے ہیں جس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ کانٹے ڈوری سے شوقیہ مچھلی پکڑی جاتی ہوگی۔

یہ بستی ملیر میں اُس جگہ پر ہے جہاں ڈملوٹی کے کنویں موجود ہیں جہاں برٹش زمانے میں کراچی کو پینے کا پانی فراہم کیا جاتا تھا۔ یہ ملیر ندی کا Catch basin ہے جہاں 15 میٹر پر میٹھا پانی وافر مقدار میں مل جاتا ہے۔ چونکہ یہ برساتی ندیوں کے سنگم پر ہے اس لیے یہ کراچی کا انتہائی زرخیز علاقہ ہے۔ سائٹ کی کھدائی کے بعد سائٹ کے سب سے اونچے مقام پر ایک ہال ملا جو 20x8 میٹر کا تھا۔ اس کی خصوصیت یہ تھی کہ جنوبی دیوار کے بیچ میں ایک کنواں تھا جس کے اندر کی گول دیوار کی پتھر سے چُنائی کی گئی تھی، اس کنویں سے پانی کے بہاؤ کے لیے 60x90 سینٹی میٹر کی نالی ہے۔ اس طرح یہاں اونچی سطح پر بنی تعمیرات پر تین کنویں ہیں جہاں سے پانی زرعی زمینوں تک نالیوں کے ذریعے پہنچایا جاتا تھا۔

یہاں کنوؤں کی تعمیر ہمارے لیے کچھ سوالات چھوڑتی ہے جیسے یہاں کنوؤں کی گہرائی زیادہ نہیں ہے جس کا اہم سبب یہ ہے کہ ملیر کا وسیع Catch basin پانی کا وسیع زخیرہ پیدا کرتا ہے جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ کنوؤں کا پانی Hydrostatic Pressure کی وجہ سے ارد گرد کے واٹر ٹیبل سے زیادہ بڑھ جاتا ہے اور اس لیے کنویں کا قطر جتنا چھوٹا ہوگا پانی اتنا ہی بلند ہوگا۔ ڈملوٹی میں موڈیم کنویں پانی کی اونچائی میں دس میٹر یا اس سے بھی زیادہ تک اُتار چڑھاؤ کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ بڑے کنوؤں میں بھی پانی کی سطح زمین کی سطح سے چھ میٹر تک اوپر آسکتی ہے۔

انڈس ویلی کے کنوؤں کو جان بوجھ کر قطر میں چھوٹا رکھا گیا تھا تاکہ پانی کی سطح نہ صرف بلند ہو بلکہ بلاشبہ Artesian انداز میں بہہ جائے۔ اس بستی کے مرکزی کنویں سائٹ کے سب سے اونچے حصے پر ہیں اور آس پاس کا ڈھلوان ہونے کی وجہ سے وہ جس طرف چاہتے پانی کو اُس طرف بہا کر لے جا سکتے تھے جبکہ یہاں پانی کی پکی نالیاں ہیں جو پتھروں سے بنی ہوئی ہیں۔ وہ چاہے صاف پانی بہانے کی ہوں یا گندے پانی کی نکاس کے لیے ہوں۔

یہاں سے کوئی زمین کے اندر سے پانی کھینچنے کے لیے کسی رہٹ کی نشانی نہیں ملی ہے جس سے یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ یہاں جو گندم یا دوسری فصلیں اُگائی جاتی تھیں اُن کی سنچائی ان کنوؤں کے پانی سے ہوتی تھے۔ یہاں جو مویشی تھے اُن میں بکری، بھیڑ، بھینس، ممکنہ طور پر گدھے اور اناج کھانے والے چوہوں کے ثبوت ملے ہیں اور جن پرندوں کی پہچان ہوئی ہے اُن میں مرغی، بٹیر، تیتر اور مور جیسے پرندے بھی تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ ابتدا میں اس بستی کو مویشی پالنے والوں نے آباد کیا جس کے بعد ان کی تعمیرات کا دور آیا۔ یہاں انسانوں کی آبادی کچھ زیادہ نہیں تھی مگر 80 سے کچھ زیادہ یا 100 کے قریب یہاں لوگ بستے ہوں گے۔

یہاں سے جو مٹی سے بنی چوڑیاں ملی ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں جو عورتیں رہتی تھیں وہ دبلی پتلی تھیں اور قد اندازاً چار فٹ چار انچ تک رہا ہوگا۔ یہاں اونچی عمارت کے مغرب میں کچھ بھٹیاں ملی ہیں جہاں مٹی کے ہاروں کے منکے اور دوسری سنگھار کی چیزیں بنانے اور اس کے بعد ان کو پکانے کے لیے یہ بھٹیاں استعمال ہوتی تھیں۔ ان بھٹیوں کے قریب پکی ہوئی ایسی چیزوں کے ذخیرہ کرنے کے کمرے بھی ملے ہیں۔

یہاں سے ملی مہریں اور مذہبی نشانیوں سے اس حقیقت کی تصدیق ہوتی ہے کہ سندھو گھاٹی کی رسم الخط یہاں کے باشندوں کے لیے معروف تھی۔ یہاں سے ایک سینگ والے (Unicorn) بیل کی مہریں ملی ہیں اور ساتھ میں گینڈے اور ہاتھی کی تصویر والی مہریں بھی ملی ہیں جو یہاں کے مذہبی ماحول کی عکاسی کرتی ہیں اور یہ اس حقیقت کو واضع کرتی ہے کہ اس بستی کے موہن جو دڑو اور سندھو گھاٹی کے دوسرے شہروں سے مربوط روابط تھے۔

کہا جا سکتا ہے کہ سائٹ پر پائے جانے والے تمام مواد کا 95 فیصد 50 کلومیٹر کے دائرے کے اندر حاصل کیا جاسکتا تھا۔ جیسے چکمک کے ذخائر الھڈنو سائٹ کے سات کلومیٹر کے اندر واقع ہیں۔ خول اور مچھلی ملیر بیسن اور سمندر کے ساحل پر دستیاب تھیں۔ تابنا، عقیق، جسپر اور کارنیلین (Carnelian) لیاری کی پہاڑیوں، پورالی طاس، کوہستان میں پائے جاتے ہیں۔ مقامی طور پر فقط چاندی اور سونا دستیاب نہیں تھا۔ یہاں سے تانبے کے Slag ملنے کی تصدیق ہوئی ہے جو بکھرے ملے ہیں مگر چونکہ ابھی تک اس کی کوئی بھٹی نہیں ملی ہے تو اس کو تجارتی حوالے سے ذہن میں رکھنا ہوگا کیونکہ تجارت کے حوالے سے یہ ایک اہم سائٹ تھی۔

یہاں سے ایک پتھر کی دیواروں والے کمرے میں چھپایا ہوا زیورات کا ایک برتن ملا جس میں مختلف قیمتی پتھروں اور چاندی کے پانچ ہار اور تانبے کی گیارہ انگوٹھیاں ملیں جو گول چھلوں کی شکل میں بنی ہوئی تھیں، ساتھ ہی ایک چھوٹی سونے کی بالی بھی ملی ہے۔ ہم اگر ملیر کی اس اہم بستی کے پھیلاؤ پر بات کریں تو یہ تین کلومیٹر سے زیادہ اراضی پر نہیں پھیلی ہوگی اور یہاں کے لوگوں کے پاس جو وسائل تھے وہ اس بستی کے رہنے والوں کے لیے مناسب تھے اور انہیں یقیناً اس حوالے سے کوئی پریشانی نہیں ہوتی ہوگی۔ ایک اور اہم بات جو بستی کے متعلق آپ کو بتانے سے رہ گئی ہے وہ یہ ہے کہ یہاں سے کپڑے بنانے کی کھڈیوں کے نشان بھی ملے ہیں۔’

ایک شاندار بستی ثابت کرنے کے لیے ہمارے پاس بہت شواہد ہیں۔ میں جب یہ رپورٹس پڑھنے کے بعد اس بستی کو دیکھنے کے لیے نکلا تو میرے اندر سحر کے شگوفے پھوٹتے تھے۔ میں اُن کنوؤں کو دیکھ سکوں گا جن سے پانی بہتا ہوگا اور زرخیز زمین پر اس شیرین پانی سے ہریالی کی چادر اُگتی تھی۔ وہ گلیاں جن میں ہزاروں برس پہلے اس بستی میں بسنے والے ان گلیوں میں سے آتے جاتے ہوں گے۔ موسموں کی آمد کے دنوں میں اُن کی آجیاں کرنے کے لیے تہوار مناتے ہوں گے۔ بستی کے جنوبی کنارے سمندر کا نیلا اور مشرقی کنارے پر شیر دریا کا مٹیالا پانی بہتا ہوگا۔ اُن دنوں میں جب برساتی موسم آتا ہوگا تو اس بستی کے اونچے مقام سے جہاں کنویں بنے ہوئے تھے وہاں سے کتنا خوبصورت منظر دکھائی دیتا ہوگا۔ جب جاڑے کی یخ ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہوں گی تو کس طرح آگ کے گرد بیٹھ کر مرد، عورتیں اور بچے باتیں کرتے ہوں گے۔ اور شام کے وقت تیتروں کی آواز مغرب سے چلنے والی ہوا میں کیسے سحر کا رس گھولتی ہوگی۔ میں اس بستی کے آثار پر جا کر یہ سب اپنے اندر محسوس کرنا چاہتا تھا۔

میں جب نیل بازار کی برساتی ندی کو پار کرکے ڈملوٹی کے کنویں دیکھ کر بستی الھڈنو پہنچا تو مارچ کی گرمی میں دِن تپتا تھا۔ راستے کے ایک طرف کھجور کے درخت تھے اور دوسری طرف فصلیں تھیں جن کی وجہ سے ہریالی اچھی لگتی تھی۔ پھر اس ہریالی کے بیچ میں گاڑی رُکی۔ میرے سامنے ایک ایکڑ پر پھیلا ٹیلہ تھا جس کے بیچ میں کچھ سولر پلیٹس لگی ہوئی تھیں اور زمین سے پانی کھینچنے کی مشین اس سولر پلیٹس کے پاور سے چلتی اور ٹیلے کے بیچ میں پانی اسٹور کرنے کے لیے سیمینٹ کی ٹنکی بنی ہوئی تھی اور ڈرپ ایریگیشن پر کسی پراجیکٹ کا بورڈ لگا ہوا تھا۔

یہ تھی موہن جو دڑو کے زمانے کی وہ قدیم ’الھڈنو بستی‘ جس کی قدامت اور کی کئی کھدائی کے تفصیل آپ ابھی پڑھ کر آئے ہیں۔ یہ سولر پلیٹیں اور پانی کی ٹنکی شاید بالکل اُسی جگہ بنی ہے جو اس بستی کی اونچی سطح والی جگہ تھی اور جہاں کنویں تھے۔ اس وقت میری کیا کیفیت تھی اب اس پر لکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اِن لمحوں میں اُس سنگدلی اور غیر ذمہ دارانہ روش پر آپ کے ذہن میں بھی کئی سولات ہوں گے۔ مگر شاید میرے پاس بلکہ ہم سب کے پاس اس بے حسی اور غیر ذمہ دارانہ رَوش کے متعلق کوئی جواب نہیں ہے۔

حوالہ جات

ابوبکر شیخ

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔