نقطہ نظر

’سیالکوٹ کی معاشی ترقی ملک بھر کی افرادی قوت کو متوجہ کررہی ہے‘

معاشی سلامتی سیالکوٹ کا ایک مثبت پہلو ہے لیکن بُک اسٹورز کا نہ ہونا لمحہِ فکریہ ہے کہ علامہ اقبال، فیض احمد فیض جیسے بڑے ادبی ناموں کی جائے پیدائش میں کتب خانے موجود نہیں۔

شہرِ اقبال جوکہ عالمی معیار کی اسپورٹس مصنوعات اور سرجیکل آلات بنانے کا اہم صنعتی مرکز ہے، یہاں گزشتہ دو دہائیوں سے سیالکوٹ انٹرنیشنل ایئرپورٹ لمیٹڈ (ایس آئی اے ایل) اور ریٹیل صنعت کے بھی مثبت اثرات سامنے آرہے ہیں۔

2007ء میں ایس آئی اے ایل (سیال) کے آغاز کے بعد ’ایئر سیال‘ سمیت ایک ریٹیل صنعت بھی ابھر کر سامنے آئی جس سے سیالکوٹ کے منظرنامے میں تبدیلی آئی ہے۔ معاشی خوشحالی سے صنعتی ترقی میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے یہ ملک بھر کی افرادی قوت کو اپنی جانب متوجہ کررہا ہے۔ یوں شہر کا روزگار کے حوالے سے منظرنامہ بھی تبدیل ہورہا ہے۔

اس کے ساتھ ہی روایتی بازاروں کی جگہ شاپنگ مالز نے لے لی ہے جس نے نہ صرف خریداری کے تجربے کو بدلا ہے بلکہ ریٹیل افرادی قوت میں خواتین کی شمولیت کو بھی یقینی بنایا ہے۔ تاہم اس تبدیلی کے درمیان ہمیں شہر میں کتابوں اور دیگر ادبی اور فکری مواد کی موجودگی کی واضح کمی محسوس ہوتی ہے۔

سیالکوٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے تحت مقامی کاروباری برادری کی جانب سے بنائے گئے ایس آئی اے ایل کے اس تاریخی میگا پروجیکٹ کے بارے میں پہلے بھی متعدد بار بات کی جاچکی ہے۔ اسے اکثر دیگر شعبوں اور شہروں کے لیے سرکاری مدد کے بغیر خالصتاً سول سوسائٹی کی اجتماعی طاقت کی ایک روشن مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

ایس آئی اے ایل کی کامیابی کے بعد سیالکوٹ نے اپنی ایئرلائنز، ایئر سیال کی سروسز کا آغاز کیا۔ ایئر سیل جسے ابتدائی طور پر بڑی مقامی نجی ایئرلائنز کی کم ہوتی سروسز اور قومی ایئرلائن کی پروازوں کو درپیش مسائل کے باعث شروع کیا گیا تھا، اب ایئر سیال کو اس کی سروسز اور معیار کی وجہ سے مسافروں میں خوب پسند کیا جارہا ہے۔

نومبر 2007ء میں اپنے آغاز کے بعد سے سیالکوٹ ایئرپورٹ کے اثرات دور رس رہے پھر چاہے وہ معاشی مواقع کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو، اس کے سماجی اور ثقافتی اثرات کا دائرہ کار کافی وسیع ہے۔ سب سے پہلے تو کسی بھی ایئرپورٹ کی طرح سیالکوٹ ایئرپورٹ نے ملازمین کے لیے مواقع پیدا کیے۔ ایئرپورٹ کے لیے متنوع افرادی قوت کی ضرورت ہوتی ہے جن میں منصوبہ سازوں اور انجینئرز، تعمیراتی عملے، گراؤنڈ ہینڈلنگ کا عملہ جیسے کار پارکنگ، سامان کی ریپنگ، سامان کی اسکیننک، مسافروں کو سہولیات فراہم کرنے کا عملہ اور ایئر ٹریفک کنٹرول شامل ہیں۔ ایس آئی اے ایل کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے قوائد کے مطابق ملازمتوں کے لیے سب سے پہلے مقامی آبادی کو ترجیح دی جاتی ہے اور ان ملازمتوں کے مواقعوں نے علاقے کی معاشی ترقی میں اپنا کلیدی حصہ ڈالا ہے۔

سیالکوٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے مطابق کارگو ہیوی ایئرپورٹ نے سیالکوٹ کی اسپورٹس اور سرجیکل سامان کی صنعتوں کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کی وجہ سے ان دیگر صنعتوں کو بھی ابھرنے کا موقع ملا ہے جوکہ اس سے پہلے صرف برائے نام موجود تھیں، بالخصوص کپڑوں کی صنعت اس کی واضح مثال ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ سیالکوٹ کے زیادہ تر حصوں میں فی کس آمدنی کا تناسب بھی قومی اوسط سے زیادہ ہے، یہی وجہ ہے کہ بہتر معیارِ زندگی کی تلاش میں لوگوں کو سیالکوٹ ایک پُرکشش مقام لگنے لگا ہے۔ معاشی ترقی کی کشش کی وجہ سے شہر میں لوگ ہجرت کرکے آرہے ہیں اور یوں افرادی قوت میں بھی نمایاں تبدیلی آئی ہے۔

فی الوقت سندھ کی ہندو برادری کے بہت سے لوگ سیالکوٹ کی کپڑوں کی صنعت سے وابستہ ہیں۔ چونکہ ان صنعتوں میں بہتر معاوضے والی ملازمتیں موجود ہیں اس لیے گھریلو کام جیسے صفائی اور تعمیرات کے کام کرنے والے لوگوں کی کمی ہوگئی ہے۔ اس کمی کو اب وہ افرادی قوت پورا کر رہی ہے جوکہ جنوبی اور وسطی پنجاب حتیٰ کہ خیبرپختونخوا سے ہجرت کرکے آئی ہے۔

شاپنگ مالز کی بڑھتی ہوئی تعداد نے بھی شہر کی صورت کو تبدیل کردیا ہے۔ ایک وقت میں سیالکوٹ جو بازاروں کی چہل پہل کے لیے جانا جاتا تھا، اب اس نے مقبول برینڈز، فوڈ چینز اور کھانے کی شاندار مقامات کی موجودگی کے ساتھ ہی جدید شاپنگ کے تصور میں بھی خود کو ڈھال لیا ہے۔ یہ مالز کنٹونمنٹ کے اردگرد بنائے گئے ہیں جہاں پہلے گھنٹہ گھر کے ساتھ صدر بازار ایک تجارتی مرکز تھا۔ سیالکوٹ مال، وی مال، سینٹرل مال اور برینڈز ولیج، یہ تمام ایک مخصوص دائرے ہی میں کھلے ہیں جس کی وجہ سے انگریزوں کی ایک بہت پرانی فوجی چھاؤنی جوکہ نوآبادیاتی دور کی میراث تھی، اسے اب ایک جدید تجارتی مرکز میں تبدیل کردیا گیا ہے۔

گھنٹہ گھر جسے شہر کا ورثہ کہا جاتا ہے اب اس سے متصل سیالکوٹ مال واقع ہے جہاں دکانیں، ملٹی پلیکس سینما اور گیمنگ آرکیڈ موجود ہے۔ اسی طرح نوآبادیاتی طرز کے بنے ہوئے بیرکوں میں پرانی آرمی ویلفیئر شاپس کی کھڑکیوں، کلاسک برآمدے، اونچی چھتوں اور کشادہ لان میں اب وی مال کی تجارتی سرگرمیاں زور و شور سے جاری ہیں۔ وی مال میں مقبول ریٹیل برانڈز موجود ہیں جبکہ یہاں فوڈ چینز، گروسری اور بچوں کے لیے پلیئنگ ایریا بھی موجود ہے۔

کمرشلائزیشن اور مال کلچر کے اس پہلو پر تو افسوس کیا جاسکتا ہے کہ یہ متوسط اور اعلیٰ متوسط طبقے کے لیے بنایا گیا ہے (جس سے طبقات میں فرق ہوگا) لیکن اس کے قطع نظر ان شاپنگ مالز میں خواتین ملازمین کی موجودگی ایک مثبت امر ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں سے خواتین ریٹیل افرادی قوت میں واضح اضافہ دیکھا گیا ہے بیوٹی سیلون انڈسٹری کے علاوہ خواتین بطور سیلز پرسن، کیشئرز، کیوسک آپریٹر اور انٹرپرونیورز بھی کام کررہی ہیں۔

سیالکوٹ مال کے میک اپ سٹی میں کام کرنے والی ایک خاتون سیلزپرسن سے میری بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے گھر کی کفالت کرتی ہیں جبکہ ان کے والد بھی چمڑے کی فیکٹری میں ملازمت کرتے ہیں۔ ریٹیل مارکیٹ میں خواتین کی بڑھتی ہوئی افرادی قوت کے حوالے سے وہ کہتی ہیں ’اس سے مجھے بہت خوشی ملتی ہے کیونکہ روایتی بازاروں میں خواتین کو جگہ نہیں مل پاتی کیونکہ وہ مردوں کے زیرِاثر ہوتے ہیں‘۔

تاہم جہاں معاشی سلامتی سیالکوٹ کا ایک مثبت پہلو ہے وہیں شہر کے بڑے شاپنگ مالز میں کتب خانوں کا نہ ہونا لمحہِ فکریہ ہے کہ علامہ اقبال، فیض احمد فیض اور توفیق رفعت جیسے بڑے ادبی ناموں کی جائے پیدائش میں ادبی رجحان کس حد تک کم ہوسکتا ہے۔ ظاہری طور پر سیالکوٹ کے رہائشیوں میں خریداری کا تو بہت شوق ہے لیکن وہ اپنے فارغ اوقات میں پڑھنے کے لیے کتابیں خریدنے کو ترجیح نہیں دیتے، شاید یہی وجہ ہے کہ پورے شہر میں اسٹیشنری اور اسکول، کالجز کی کتابوں کی دکانوں کے علاوہ کوئی بک اسٹورز نہیں۔

بچوں کے لیے شہر کا سب سے مقبول بک اسٹور، حفیظ ٹریڈرز نے بھی لوگوں کی کم ہوتی ڈیمانڈ کے باعث اب فکشن کتابیں رکھنا چھوڑ دی ہیں۔ کچھ بک اسٹالز میں مذہبی کتابوں کے ساتھ ساتھ مقبول ترین مصنفین جیسے اشفاق احمد، ممتاز مفتی، عمیرہ احمد اور نمرہ احمد کے ناولز دستیاب ہیں۔ بے شک یہ مصنفین بیسٹ سیلرز ہیں لیکن ان کے ناولز سنجیدہ ادب کے دائرے میں آتے ہیں یا نہیں، یہ ایک الگ بحث ہے۔

کینیڈین نژاد پاکستانی خاتون نے اس پر افسوس کا اظہار کیا، وہ کہتی ہیں، ’جب میں یہاں منتقل ہوئی تو میں اس شہر میں بک اسٹورز کی عدم موجودگی سے مایوس ہوئی۔ مجھے پڑھنے کا بہت شوق ہے اور میں اپنا یہ مشغلہ اپنے تینوں بچوں میں بھی منتقل کرنا چاہتی ہوں۔ یہاں بک اسٹورز نہیں اس لیے مجھے کتابیں لینے لاہور جانا پڑتا ہے‘۔

کتابیں پڑھنے کے شوق کی ممکنہ واپسی کے حوالے سے انہوں نے مؤقف اپنایا کہ ’ماضی میں بہت سے لوگوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی تاکہ وہ اپنے خاندانی کاروبار کو سنبھال سکیں۔ تاہم گلوبلائزیشن کی وجہ سے لوگ کتب بینی کے فوائد کے حوالے سے شعور حاصل کررہے ہیں اور مجھے امید ہے کہ لوگوں میں کتب بینی کا شوق ایک بار پھر پیدا ہوگا‘۔

ایس آئی اے ایل کی کامیابی اور مقامی کاروباری برادری کی جانب سے انسانی ہمدردی کے منصوبوں کو دیکھتے ہوئے امید کی جاسکتی ہے کہ ادبی شوق کا بھی نیا سورج طلوع ہوگا۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

مریم طاہر بٹ
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔